
پاکستان میں سرکاری دفاتر سے اطلاعات کا حصول ایک طویل صبر آزما کام ہے۔ راقم نے وفاقی اردو یونیورسٹی سے پنشن اور جی پی فنڈزکے اعداد و شمار کے بارے میں گزشتہ سال کے وسط میں معلومات حاصل کرنے کے لیے اطلاعات کے حصول to Right Information Act مجریہ 2011کے تحت رجوع کیا مگر اس استدعا پر، پراسرار خاموشی اختیارکی گئی، پھر انفارمیشن کمیشن آف پاکستان کو عرضداشت بھی کی۔ کمیشن نے متعلقہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو مطلوبہ معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا مگر سات ماہ تک کچھ نہ ہوا۔ انفارمیشن کمیشن کے سربراہ سینیئر بیوروکریٹ شعیب صدیقی نے ذاتی طور پر اس معاملے کی نگرانی کی، یوں انفارمیشن کمیشن کے افسروں کی مسلسل کوششوں کے بعد فروری کے پہلے ہفتے میں نامکمل معلومات فراہم کی گئیں۔
اطلاعات کے حق کے حصول کے لیے طویل عرصے سے جدوجہد کرنے والی غیر سرکاری تنظیم فافن نے گزشتہ سال مختلف وزارتوں اور ان کے ذیلی خود مختار اداروں کے اطلاعات کے حصول کے نظام کا بغور جائزہ لیا۔ اس رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ وفاقی وزارتوں نے صرف 44 فیصد عرض داشتوں پر درست معلومات فراہم کیں۔ وزارتوں اور خود مختار اداروں میں معلومات کو خفیہ رکھنے اور ہر ممکن طریقوں سے معلومات کو افشاء کرنے کے عمل کو طویل کرنے کا کلچر خاصا گہرائی کے ساتھ موجود ہے۔
فافن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کے حق کو مکمل طور پر تحفظ دینے کے لیے آر ٹی آئی کے قانون میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ آر ٹی آئی کا قانون بنگلہ دیش، برطانیہ، بھارت، امریکا اور اسکینڈے نوین ممالک کے مقابلے میں خاصا کمزور ہے۔ آر ٹی آئی کے قانون کی شق 7 کے تحت کئی اہم وزارتوں کو اس قانون کے دائرہ کار سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے۔ ان وزارتوں میں وزارت خارجہ، دفاع، داخلہ اور خزانہ جیسی اہم وزارتیں شامل ہیں۔
وفاقی بجٹ کا ایک خطیر حصہ ان وزارتوں کے لیے وقف ہوتا ہے۔ ان کے بیشتر معاملات عوام سے متعلق ہوتے ہیں۔ اس بناء پر مکمل طور پر ان وزارتوں کو آر ٹی آئی کے قانون سے مستثنیٰ قرار دینے سے شفافیت کا عمل متاثر ہوتا ہے اور عوام کے جاننے کے حق کی تنسیخ سے ان کے بعض مسائل جو ان وزارتوں اور ان کے ذیلی اداروں سے متعلق ہوتے ہیں پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔
انفارمیشن کمیشن کو مکمل طور پر انتظامی اور مالیاتی طور پر خود مختار ہونا چاہیے اور اس کے قانون میں یہ شقیں واضح طور پر درج ہونی چاہیئیں، اگر کوئی وزارت یا اس کے ذیلی خود مختار ادارے کے مجاز افسر اطلاعات کی فراہمی کے عمل میں رکاوٹ ہے یا اطلاعات کو چھپا کر رکھنے کے عمل کے ذمے دار ہوں تو اس طرح یہ غیر قانونی عمل کے ذمے دار افسروں کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کا حق ہونا چاہیے۔
اس تادیبی کارروائی میں کئی سال تک تنخواہ اور ترقی پر بندش کے علاوہ ملازمت سے برطرفی کا اختیار بھی حاصل ہونا چاہیے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انفارمیشن کمیشن کو بجائے اپیلیٹ اتھارٹی کا کردار ادا کرنے کے عوام کے جاننے کے عمل کو تیز ترین کرنے والا ادارہ کا کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس رپورٹ میں انفارمیشن کمیشن کی ہیت کی تبدیلی کی بھی تجاویز شامل ہیں۔
ماہرین نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ عوام کو ان شکایات کی کوریج کرانے کے لیے Online Plateform قائم کرنے چاہئیں۔ اس وقت کئی افراد نے یہ شکایت کی ہے کہ کمیشن سے Online رابطہ کی سہولت نہیں ہے اس بناء پر کئی عرض داروں کو محلہ، ڈاک یا غیر سرکاری کوریئر سروس کی خدمات حاصل کرنی پڑتی ہیں جس سے وقت خاصا ضایع ہوجاتا ہے۔ فافن کے ماہرین کا کہنا ہے کہ کمیشن کو اس طرح کا جدید ترین نظام قائم کرنا چاہیے کہ معلومات حاصل کرنے والا شخص ٹریکنگ سسٹم کے ذریعے اس عرض داشت پرکارروائی کے بارے میں وقف ہوسکے۔
اطلاعات کے حصول کا تعلق براہِ راست شفافیت کے نظام سے منسلک ہے۔ ادھر ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی گزشتہ سال کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا ٹرانسپرنسی میں نمبر پہلے سے پیچھے چلا گیا ہے۔ جدید ریاستی نظام کے لیے کھلے پن (Openness) کے اصول کے ذریعے بدعنوانی کا خاتمہ کیا گیا ہے اور اچھی طرزِ حکومت کے معیارکو بلند کیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا کے نئے پلیٹ فارم کے قیام کے ساتھ فیک نیوز کا ایک طوفان شروع ہوا ہے۔
فیک نیوز کی وجہ اطلاعات کو خفیہ رکھنا ہے، اگر اطلاعات آسانی سے دستیاب ہوجائیں، ایک آسان ہتکِ عزت کا قانون ہو اور تیز رفتار انصاف کا نظام قائم کیا جائے تو فیک نیوزکا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ جمہوری نظام میں ابلاغِ عامہ کا احتساب کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ احتساب کے نظام کو مستحکم کرنے کے لیے عوام کے جاننے کے حق کا احترام ضروری ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔