
صدر آصف زرداری نے دورہ لاہور کے دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی سے ملاقات کی۔اس ملاقات کی خبریں میڈیا میں آئی ہیں۔ سرخیاں یہی ہیں کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے ارکان نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومت کے خلاف شکایات کے انبار لگا دیے۔ جواب میڈیا میں یہی آیا ہے کہ صدرآصف زرداری نے کہا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) سے اتحاد ہماری مجبوری ہے۔ یہ ایک مجبوری کا اتحاد ہے ۔
اب ذرا اس مجبوری کے اتحاد کا جائزہ لیں۔ اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہی آصف زرداری ملک کے صدر پاکستان بنے ہیں۔ اگر یہ مجبوری کا اتحاد نہ ہوتا تو وہ ملک کے صدر بھی نہ ہوتے۔ اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہی یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ ہیں۔ اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہی پیپلزپارٹی کے پاس دو صوبوں کے گورنر ہیں۔ جس گورنر ہاؤس لاہور میں بیٹھ کر اس مجبوری کے اتحاد کا رونا رویا جا رہا تھا وہ گورنر ہاؤس بھی پیپلزپارٹی کے پاس اسی مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہے۔
اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہی پیپلزپارٹی ملک کی واحد جماعت ہے جس کی چاروں صوبوں میں حکومت ہے۔ دو صوبوں سندھ اور بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے پاس وزارت اعلیٰ ہے۔
جب کہ باقی دو صوبوں کے پی اور پنجاب میں پیپلزپارٹی کے پاس گورنر کے عہد ے ہیں۔ ملک کی اور کسی جماعت کے پاس چاروں صوبوں میں اس طرح عہدے نہیں ہیں۔ یہ اس مجبوری کے اتحاد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں ہیں کہ ان کے پاس چاروں صوبوں میں اہم عہدے ہیں۔ اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو بلوچستان کی وزارت اعلیٰ ملی ہے۔ اس مجبوری کے اتحاد کی وجہ سے ہی پیپلزپارٹی کے پاس قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کا عہدہ بھی ہے۔
پیپلزپارٹی اکثر کہتی ہے کہ ہم نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو وزیر اعظم کے لیے ووٹ دیا لیکن کچھ نہیں لیا۔ یہ بھی عجیب منطق ہے۔ ذرا ووٹ کا ہی حساب کر لیں۔ پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم کے لیے میاں شہباز شریف کو ووٹ دیا اور جواب میں صدر پاکستان کے لیے ووٹ لے لیے۔ جب وزیر اعظم کو ووٹ دینے کا احسان جتایا جاتا ہے تو پیپلزپارٹی یہ کیوں بھول جاتی ہے کہ آصف زرداری بھی تو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ووٹوں سے ہی ملک کے صدر بنے ہیں۔ ووٹ دیے اور ووٹ لے لیے۔ برابر ہو گیا۔ اسی طرح اگر اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے ووٹ دیے تو چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ لے لیے۔ بات برابر۔ اسی طرح ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے لیے ووٹ دیے اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کے لیے ووٹ لیے۔ اس لیے کہاں ووٹ دیے اور جواب میں ووٹ نہیں لیے۔ ایک ووٹ دیا۔ ایک ووٹ لے لیا۔
پیپلز پارٹی نے جب حکومت بن رہی تھی تو خود ہی یہ طے کیا تھا کہ انھیں وہ عہدے چاہیے جن پر مراعات پوری ہوں لیکن ذمے داری کوئی نہ ہواور پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ذمے داری والے تمام عہدے لے لیے۔ وزیر اعظم کے پاس ملک چلانے کی ذمے داری ہے۔ پیپلزپارٹی اس ذمے داری میں شریک نہیں ہونا چاہتی تھی۔ انھوں نے صدر پاکستان کا عہدہ لیا۔ مراعات زیادہ ہیں۔ ذمے داری کوئی نہیں۔ اسی طرح جو بھی آئینی عہدے لیے گئے ان میں مراعات پوری ہیں ذمے داری کوئی نہیں۔ یہ ان کی اپنی چوائس تھی۔ انھیں اس پر کسی نے مجبور نہیں کیا تھا۔ شائد انھیں اندازہ تھا کہ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ حکومت چل ہی نہیں سکتی۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ذمے داری دی جائے۔ وہی عوام کی نظر میں گندے ہوں۔
ہم صرف مراعات والے عہدے لیں کوئی ذمے داری نہیں لیں گے۔ جب سے یہ حکومت بنی ہے دیکھا جائے تو پیپلزپارٹی سب کچھ لے کر بھی یہی بیانیہ بنا رہی ہے کہ ان کے ساتھ بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ انھوں نے نہایت مجبوری میں یہ اتحادکیا ہوا ہے۔ شکایتوں کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ اتحادکے معاہدے پر عمل نہیں ہو رہا بہت زیادتی ہو رہی ہے۔ ایک بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی نے اس اتحاد کے لیے بہت قربانی دی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پالیسی جواب نہ دینے کی پالیسی ہے۔ اس لیے قربانی کا بیانیہ یک طرفہ بیانیہ ہے۔ جواب نہیں ہے۔
لیکن یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ آخر پیپلز پارٹی چاہتی کیا ہے۔ سارا تنازعہ پنجاب کا ہے۔ لیکن پنجاب کی پارلیمانی سیاست کو سمجھیں۔ پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے پاس واضح اکثریت ہے۔ انھیں یہاں پیپلزپارٹی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ۔ جیسے سندھ میں پیپلزپارٹی کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کی ضرورت نہیں۔ اگر پیپلزپارٹی پنجاب میں اپوزیشن میں بھی بیٹھ جائے تو مریم نواز کی وزارت اعلیٰ کو کوئی خطرہ نہیں۔ لیکن پیپلزپارٹی پنجاب میں اقتدار میں حصہ چاہتی ہے اور صورتحال یہ ہے کہ ن لیگ دینے کو تیار نہیں۔
پیپلزپارٹی پنجاب میں اپنی بحالی چاہتی ہے۔ لیکن ن لیگ اس کے لیے انھیں اپنے اقتدار سے حصہ دینے کے لیے تیار نہیں۔ پیپلزپارٹی چاہتی ہے کہ ان کے ارکان کے حلقوں میں ان کی مرضی کے افسر لگا دیے جائیں۔ ترقیاتی فنڈز کے انبار لگا دیے جائیں۔ لیکن ن لیگ اس کے لیے تیار نہیں۔ ن لیگ نے بھی ان حلقوں سے اگلا الیکشن لڑنا ہے۔ وہ ان حلقوں میں اپنا جنازہ خودہی کیسے نکال دیں۔ پیپلزپارٹی نے پنجاب میں اقتدار میں حصہ لینے کے لیے اب تک ن لیگ پر بہت دباؤ ڈالا ہے، کمیٹیاں بھی بنائی ہیں، تھریٹ بھی کیا ہے، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ ن لیگ کسی دباؤ میں نہیں آئی۔ یہ درست ہے کہ ن لیگ میڈیا میں جواب نہیں دیتی۔ لیکن دباؤ میں بھی نہیں آرہی۔ یہ صورتحال دلچسپ ہے۔
پیپلزپارٹی کے پاس کیا چوائس ہے۔ وہ صرف مرکز کی حکومت گرا سکتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت کو گرانے کی صلاحیت نہیں ہے۔ مرکزی حکومت گرانے کا تھریٹ کام نہیں آرہا۔ ن لیگ نے واضح کر دیا ہے کہ چاہے مرکز کی حکومت چلی جائے۔ پنجاب میں حصہ نہیں دیں گے۔ مرکز میں کے سر پر پنجاب میں حصہ نہیں دیا جائے گا۔
مرکز کی حکومت جاتی ہے تو جائے۔ لیکن پنجاب میں جگہ نہیں دی جائے گی۔ اس لیے اگر پنجاب کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب پیپلزپارٹی کے پاس کوئی آپشن نہیں۔ اس لیے صدر آصف زرداری نے تمام گلے شکوے سننے کے بعد یہی کہا ہے اتحاد ہماری مجبوری ہے۔ یہ مجبوری کا اتحاد ہے۔ جیسے پیپلزپارٹی سندھ میں ایم کیو ایم کو شامل نہیں کرتی کہ ہمیں ان کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح پنجاب میں پیپلزپارٹی کی ضرورت نہیں۔ ایم کیو ایم بھی مرکز میں اتحاد ی ہے۔ سندھ میں نہیں ہے۔ پیپلزپارٹی بھی پنجاب میں نہیں ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔