
صوفیانہ طرز تعلیم و تربیت میں سلسلہ طریقت کا تصور ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ لغوی اعتبار سے سلسلے کے معنی زنجیر، قطار، لڑی، خاندان، نسل، شجرہ، تربیت، تعلق اور واسطے سے ہے۔ معنوی اعتبار سے سلسلہ طریقت کڑی در کڑی اولیائے کرام سے تعلق ظاہر کرتی ہے، عام معنی میں سلسلہ طریقت کو ایک روحانی خاندان کے شجرہ کی حیثیت سے پہچانا جاتا ہے۔ حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش ؒ نے اسے گروہ تصوف کا نام دیا ہے۔
عالم اسلام اور خصوصاً بر صغیر پاک و ہند میں جو سلاسل مشہور ہیں ، ان میں سلسلہ قادریہ، سلسلہ جنیدیہ، سلسلہ چشتیہ، سلسلہ سہروردیہ، سلسلہ نقشبندیہ شامل ہیں۔
سلسلہ قاردریہ کے امام حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ ہیں، آپ کوغوث پاک، غوث الاعظم، بڑے پیر صاحب اور دستگیر کے القابات سے نوازا گیا ہے۔ آپ نے مسلمانوں کی روحانی، اخلاقی، معاشی اور معاشرتی اصلاح کے لیے سلسلہ قادریہ کی بنیاد رکھی۔ حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ زمین و آسمان کا وجود اس روشنی پر قائم ہے جس کو اﷲ تعالیٰ کا نور فیڈ کرتا ہے۔حضرت شیخ عبدالقادری جیلانی کا مزار مبارک عراق کے دارالحکومت بغداد میں ہے۔
سلسلہ چشتیہ کی نام کی نسبت ’’چشت‘‘ سے ہے، جو افغانستان میں ہرات کے قریب واقع ہے۔ سلسلہ چشتیہ ہندوستان میں بھی بہت مشہور ہوا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ المعروف خواجہ غریب نواز نے اس حوالے سے بے مثال خدمات انجام دیں، آپ کو مزار مبارک اجمیر شریف میں ہے۔
سلسلہ سہروردیہ حضرت شیخ عبد القادر سہروردی کے نام سے منسوب ہے۔ اس سلسلے کے خانوادے خصرت شیخ شہاب الدین سہروردیؒ اور حضرت بہائو الدین زکریہ ؒ ملتانی ہیں۔آپ کے منظم روحانی تحریک نے سندھ، ملتان اور بلوچستان کے علاقوں کی بڑی آبادی کو روحانی اعتبار سے صراط مستقیم کی راہ دکھائی، سلسلہ سہروردی کے بزرگوں نے چین، فلپائن،جاوا، سماٹرا اور مشرق بعید کے بے شمار جزائر میں تجارت کی غرض سے سفر کرتے ہوئے اپنے اخلاق، کرداراور دینی تعلیمات کے مظاہر سے کروڑوں افراد کو مسلمان کیا اور ان کی روحانی تربیت بھی کی۔
سلسلہ نقشبندیہ نے بھی اسلام کے فروغ اورصوفیائے کرام کی تعلیمات کی اشاعت میں بڑا نمایاں کردار ادا کیا ۔ اس سلسلے کا آغاز حضرت بہائو الدین نقشبندی نے کیا۔ سلسلہ نقشبندیہ کے مشہور صوفی بزرگوں میں حضرت امیر کلاںؒ، خواجہ نقش بند ثانی المعروف باقی اللہؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ، خواجہ محمد معصوم ؒ، عبد الرحیم محدث دہلویؒ شامل ہیں۔
سلسلہ عظیمیہ بھی دیگر سلاسل طریقت کی طرح ایک روحانی درس گاہ ہے، زمانے اور حالات میں تبدیلی کی بناء پر لوگوں کی معاشرتی طرزوں میں بھی تبدیلی واقع ہوتی ہے۔ اس بناء پر طرز تعلیم کو بھی ماحول کے مطابق ڈھالا جاتا ہے۔
موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق لوگوں کے ماحول اور شعور میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ہے، اس کی مطابقت کو سامنے رکھتے ہوئے 1960میں سلسلہ عظیمیہ کی بنیاد رکھی گئی۔ سلسلہ عظیمیہ کامشن لوگوں پر تفکر کے دروازے کھولنا ہے۔
اس کے اسباق و اذکار بھی اسی انداز میں مرتب کیے گئے ہیں۔سلسلے کا صدر مقام کراچی کے علاقے سرجانی ٹائون میں ہے۔ سلسلے کی تعلیمات کا مرکز و محور نماز، روزہ ، عبادات و ریاضت میں ذہنی یکسوئی پیدا کرنے کے لیے مراقبے کی مشق ضروری ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے مرشد حضرت خواجہ شمش الدین عظیمی جن کا انتقال جمعے کے دن 21 فروری کو ہوا، انھوں نے سلسلہ عظیمیہ کی تعلیمات کی ترویج میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ انھوں نے سیرت طیبہ، تصوف اور روحانی علوم کے حوالے سے سیکڑوں کتابیں اور رسائل تصنیف کیے ہیں جنکے مطالعے سے کائنات کے رموز اور روحانیت سے بڑی آشنائی حاصل ہوتی ہے۔
سلسلہ عظیمیہ کے تحت ایک ماہانہ رسالہ روحانی ڈائجسٹ کے نام سے نکالا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قلندر شعور کے نام سے ایک علمی اور تحقیقی ماہنامہ بھی شروع کیا گیا ہے۔ قلندر شعور فائونڈیشن کے تحت غور و فکر اور اسلامی تعلیمات پر سائنسی انداز پربحث یقینی اعتبار سے معلومات افزا اور ذہن کو کھولنے کی حیران کن مشق ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔