دو قابل رشک مثالیں

    پیر صاحب کالم نگار بھی ہیں اور مصنف بھی لیکن ان کا ایک کام ان دو کاموں سے بھی زیادہ اہم ہے


farooq.adilbhuta@gmail.com

    ہمیں ڈاکٹر نوید الٰہی کی طرف جانا تھا لیکن بیچ میں پیر ضیا الحق نقش بندی آگئے۔ ڈاکٹر نوید ایوان صدر کی حزب اختلاف تھے اور اس دھڑے بندی میں؛ میں ان کا جونیئر ساتھی تھا اس لیے ان کی طرف جاتے ہوئے میں پرجوش تھا لیکن پیر صاحب نے صرف دور سے دعوت ہی نہیں دی بلکہ اس مقصد کے لیے وہ خود نیو کیمپس بھی آ پہنچے۔ ڈاکٹر نوید الٰہی سے میرے تعلق کو دیکھتے ہوئے انھوں نے اپنی دعوت میں کچھ ترمیم کی اور کہا کہ الامین اکیڈمی راستے میں پڑتی ہے، بس، میری طرف سے گزرتے ہوئے چلے جائیں۔

اس کے بعد کوئی راہ فرارباقی نہ رہی۔ اس کا ویسے بھی کوئی امکان نہیں تھا کیوں کہ علامہ عبد الستار عاصم ان کے بہترین نمائندے ہیں، وہ ہمارے ساتھ تھے لہٰذا کشاں کشاں شادمان پہنچے۔ اس سے پہلے کہ ہم الامین اکیڈمی کے دروازے پر دستک دیتے، ایک ٹیلی فون کال نے متوجہ کیا، یہ شاید پیر صاحب کی سیکریٹری رہی ہوں گی یا عملے کی کوئی دوسری رکن، وہ جاننا چاہتی تھیں کہ ہم روایتی چائے پسند کریں گے، قہوہ یا پھر کولڈ ڈرنکس پر گزارا کریں گے۔ اس سے پہلے کہ کوئی جواب ہم سے بن پڑتا، ہم پیر خانے پر پہنچ چکے تھے جس کی چھت پر لگے بینروں اور ان پر موجود مخدومی مجیب الرحمن شامی اور برادر محترم سہیل وڑائچ کی تصاویر سے خبر ہوئی کہ پیر صاحب ہر مکتبہ فکر کے پسندیدہ ہیں نیز ان جیسے اہل علم کی توجہ اور سرپرستی بھی ان کے نیک نام ادارے کو حاصل ہے۔

    پیر صاحب کالم نگار بھی ہیں اور مصنف بھی لیکن ان کا ایک کام ان دو کاموں سے بھی زیادہ اہم ہے۔ وہ نئی نسل کی تعمیر میں مصروف ہیں۔ نئی نسل میں سے بھی وہ حصہ جو اپنی تمام محنت، قابلیت اور ذہانت کے باوجود وہ ہو جاتا ہے جسے میاں محمد بخش نے گلیوں کا روڑا کوڑا قرار دیا تھا ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان بچوں کو تعلیم کے مناسب موقع اور تربیت مل جائے تو یہ قوم کا جوہر قابل بن کر اسے اس کی کھوئی ہوئی عظمت واپس دلا سکتا ہے۔ 

    پیر ضیا الحق نقش بندی پڑھے لکھے آدمی ہیں۔ پس منظر تصوف کا ہے لیکن لاہو پہنچے تو محسوس کیا کہ اتنے علم و فضل اور گھر سے ملنے والی آسودگی کا کیا فایدہ اگر اس سے کمزور اور معاشرے کے ٹھکرائے ہوئے لوگ فیض نہ پا سکیں۔ پس انھوں نے یہ سوچا اور الامین اکیڈمی کی بنیاد ڈالی۔ اس ادارے میں ان ذہین اور محنتی بچوں اور بچیوں کے کیرئیر سے متعلق تربیت دی جاتی ہے۔ لاہور کے باہر سے آنے والے بچوں کو رہائش اور کھانے پینے کی سہولتوں بھی میسر ہیں۔ یہ اکیڈمی بنیادی طور پر وسائل سے محروم بچوں کے لیے ہے لیکن اگر کوئی بچہ کسی قدر اپنے اخراجات برداشت کر سکتا ہے تو اس کی گنجائش کے مطابق وہ قبول کر لیے جاتے ہیں۔

     چند برس کایہ تجربہ کامیاب رہا ہے اور اب بچوں کی بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا اب شہر سے باہر کئی منزلوں پر مشتمل ایک کمپلیکس کی تعمیر کا منصوبہ ہے جس کے لیے ایک صاحب خیر نے زمین فراہم کر دی ہے۔ زیر تربیت بچوں کی تعلیم و تربیت کے اخراجات بھی معمولی نہیں جو اکیڈمی کے اپنے وسائل سے پورے ہونے ممکن نہیں لہٰذا صاحبان دل اس میں بھی تعاون کرتے ہیں۔ اکیڈمی دیکھ کر دل خوش ہوا اور جی چاہا اگر ملک دیگر حصوں اور شہروں میں بھی اگر صاحبان خیر اس قسم کے ادارے قائم کر سکیں تو یہ ایک بڑی خدمت ہو گی جن لوگوں کے لیے ادارے قائم کرنا ممکن نہ ہو، وہ ایسے اداروں کے ساتھ مالی تعاون کر سکتے ہیں۔ الامین اکیڈمی کا ماڈل کامیاب بھی رہا ہے اور اس نے نیک نامی بھی کمائی ہے۔ ان سطور میں یہ تذکرہ اس کار خیر میں اپنی حد تک حصہ ڈالنے کے لیے ہے۔ 

    وسائل سے محروم بچوں کا موضوع ایسا ہے جس کا تذکرہ طوالت چاہتا ہے لیکن خوف اس بات کا ہے کہ اس میں کہیں ڈاکٹر نوید الٰہی سے ملاقات اور ان سے ہونے والی باتیں کہیں رہ ہی نہ جائیں۔ ہم دونوں کو صدر ممنون حسین مرحوم و مغفور کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل ہے۔ ممنون صاحب دھیمے مزاج صدر کے صدر تھے لیکن ایسا نہیں ہے کہ ان کے دور میں اہم واقعات نہیں ہوئے اور ان معاملات میں انھوں نے کوئی اہم کردار ادا نہیں کیا۔ اس دور کی یادیں مرتب کی جائیں تو سچ یہ ہے کہ ایک طلسم ہوش ربا وجود میں آ جائے۔

حال ہی میں پارلیمنٹ میں مختلف ارکان کی حاضری اور کارکردگی کی چونکا دینے والی رپورٹ شائع ہوئی ہے جس سے یہ معلوم ہوا ہے کہ کس رکن اور کس وزیر کی ایوان میں حاضری کتنی تھی نیز اس نے کارروائی میں کتنا حصہ لیا۔ ایک زمانہ تھا کہ یہ تفصیلات سامنے نہیں آسکتی تھیں۔ کسی شہری نے ان تفصیلات کو پبلک کرنے کا مطالبہ کیا لیکن حکومت سے لے کر اسپیکر تک سب ایسا کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ سب جگہ سے ہوتا ہواتا یہ مسئلہ ایوان صدر پہنچا تو صدر ممنون حسین نے یہ تفصیلات عوام کے لیے جاری کرنے کا حکم دیالہٰذا اب یہ معاملات عوام سے چھپے ہوئے نہیں ہیں۔نوید الٰہی سے ملاقات میں ان باتوں کا تذکرہ بھی رہا لیکن وہ صرف ٹیکنوکریٹ اور حکومت پاکستان کی سول سروس اکیڈمی کے صرف ڈین ہی نہیں، وہ رفاح عامہ کی ون مین آرمی بھی ہیں۔ 

    ریٹائرمنٹ کے بعد انھوں بیدیاں روڈ کی طرف گھر بنایا تو اس کے ساتھ ہی انھیں خیال آیا کہ فارغ کیوں بیٹھیں۔ ساری زندگی سرکار کی خدمت کی ہے، اب کیوں نہ تھوڑی خدمت خلق بھی کی جائے لہٰذا انھوں نے اپنے مرحوم والد جناب حمید الٰہی اور اپنی والدہ محترمہ کے نام کاایک رفاحی ادارہ حمید نعیمہ الٰہی بنا رکھا تھا، اس کے تحت ایک قریبی گاؤں میں اسکول قائم کر دیا جس میں ١٨٠ بچے زیر تعلیم ہیں۔ بچوں کو کتابیں اور یونیفارم سمیت تعلیمی ضرورت کی اشیا بھی فراہم کی جاتی ہیں۔ اسی طرح دیہی بچوں کا ایک کلب بھی بنا رکھا ہے جس میںانھیں صحت مند سرگرمیوں میں شریک کیا جاتا ہے۔

     صرف یہ نہیں، انھوں نے اسٹریٹجک اور سیکیورٹی معاملات میں اسکول آف اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے نام سے ایک تھنک ٹھینک بھی قائم کر رکھا ہے جو سیکیورٹی معاملات میں 'دی اسٹریٹیجک بریف' کے عنوان سے پندرہ روزہ رپورٹ جاری کرتا ہے۔ یہ رپورٹ خاصے کی چیز ہے جس میں دو ہفتے کے دوران میں ملک بھر میں رونما ہونے والے واقعات کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ قومی سلامتی کے معاملات میں صرف ان رپورٹوں ہی کو جمع کر کے مرتب کر دیا جائے تو ایک تاریخی دستاویز مرتب ہو جائے گی۔ اپنے اسکول کی طرح انھوں نے یہ کام تنہا ہی شروع کیا تھا لیکن ان کے ساتھ سیکیورٹی کے شعبوں سے تعلق رکھنے والے چند ہم خیال دوست بھی شریک ہو چکے ہیں۔ 

    ڈاکٹر نوید الٰہی کے ساتھ طویل نشست میں ملک میں عدم استحکام پیدا کرنے والے عوامل پر طویل گفتگو رہی جس کا تذکرہ ضروری ہے ۔ یہ بھی ہو گا لیکن اس پر وہ رفاحی منصوبے بازی لے گئے۔ انھیں نیکیوں کے موسم بہار کا تحفہ سمجھ لیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں