انٹربورڈ کراچی کے متنازع نتائج؛ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سرد خانے کی نذر

فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا


صفدر رضوی March 05, 2025

کراچی:

حکومت سندھ نے کراچی کے انٹر سال اول کے ہزاروں طلبہ کے امتحانی نتائج کی کم شرح کے معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیا، فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ 

تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے کراچی کے انٹر سال اول کے ہزاروں طلبہ کے امتحانی نتائج کی کم شرح کے معاملے کو سرد خانے کی نذر کردیا ہے،  طلبہ کی جانب سے احتجاج اور اسمبلی میں اس معاملے پر آواز اٹھائے جانے کے بعد ایک نوٹفیکیشن کے ذریعے اس معاملے پر وزیر تعلیم سندھ سید سردار شاہ کی سربراہی میں اراکین اسمبلی پر مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی جنوری کے آخری ہفتے میں قائم ہوئی تھی۔ 

 کچھ ہی روز بعد اس کمیٹی نے این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر سروش لودھی کی کنوینر شپ میں ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی بنائی گئی تھی جس میں چارٹر انسپیکشن کمیٹی کے ڈائریکٹر نعمان احسن اور این ای ڈی کے ناظم امتحانات  شامل تھے،فائنڈنگ کمیٹی نے اپنی رپورٹ 12 فروری کو وزیر تعلیم سندھ کو بھجوائی تھی جس پر آج تک کوئی ایکشن نہیں ہوسکا، جبکہ 27 ہزار 700 طلبہ نے اپنے اسکروٹنی فارم جمع کرارکھے ہیں جو کمیٹی کی رپورٹ پر کسی کارروائی کے منتظر ہیں۔

ان طلبہ کو 28 اپریل سے سالانہ امتحانات میں شریک ہونا ہے تاہم یہ طلبہ نہیں جانتے کہ انھیں انٹر سال اول کے کون کون سے پرچے دوبارہ دینے ہوں گے۔  یاد رہے کہ اس سال کے نتائج میں انٹر سال اول پری میڈیکل کے نتائج کی شرح 36 فیصد اور پری انجینئرنگ کی 29 فیصد ہے جو گزشتہ برسوں کے مقابلے 11 اور 14 فیصد تک کم ہے۔ 

"ایکسپریس " کو اس سلسلے میں حکومتی ذرائع سے فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کے اہم اور حیران کم انکشافات سے بھرپور رپورٹ موصول ہوئی ہے اور یہ پہلا موقع ہے جب فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی نے اپنا دائرہ کار انٹر بورڈ کراچی سے بڑھاکر سندھ کے دیگر تعلیمی بورڈز کے نتائج کا بھی احاطہ کیا ہے جبکہ کالجوں میں انٹر سال اول کی داخلہ پالیسی اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ اور کریکولم ونگ کے نصاب پر بھی تفصیل سے بات کی گئی ہے۔ 

رپورٹ میں کمیٹی نے سندھ کے بورڈ لاڑکانہ ، سکھر حیدرآباد،  شہید بینظیر آباد اور میرپور خاص کے نتائج پر بھی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ آخر ایسا کیوں ہے کہ ایک نصاب، ایک ہی اسکیم آف اسٹڈیز اور ایک ہی پیپر پیٹرن اور ایک ہی کنٹرولنگ اتھارٹی کے ہوتے ہوئے کراچی اور دیگر تعلیمی بورڈ کے نتائج میں بے انتہا فرق ہے۔

 کراچی بورڈ کے نتائج میڈیکل میں 35 فیصد اور انجینئرنگ میں 29 فیصد ہیں جبکہ اس سے قبل گزشتہ 10 برسوں میں بھی یہ نتائج 44 سے 49 فیصد کے درمیان ہیں رہے ہیں جبکہ دیگر تعلیمی بورڈز کے نتائج جو کمیٹی نے محکمہ یونیورسٹیز اینڈ بورڈز سے حاصل کیے ہیں وہ ان نتائج سے کہیں زیادہ ہیں لہذا ان نتائج کی اسکروٹنی یا اسکیننگ کی بھی ضرورت ہے۔ 

اسی طرح انٹر سال اول کے داخلوں کے حوالے سے کمیٹی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19 سے قبل محکمہ کالج ایجوکیشن کی سینٹرلائزڈ ایڈمیشن پالیسی کے تحت کالجوں میں انٹر سال اول میں سائنسی مضامین میں داخلے 50 فیصد سے کم مارکس والے طلبہ کو نہیں دیے جاتے تھے لیکن 2022 سے تاحال میٹرک میں 40 فیصد والے طالب علم کو بھی سائنس گروپ میں داخلے دیے جارہے ہیں جس سے نتائج کہ شرح مسلسل گر رہی ہے۔ 

اسی کے ساتھ ساتھ کریکولم ونگ کی جانب سے تیار کی گئی فزکس سال اول کی کتاب کے حوالے سے بھی ہوش ربا انکشاف سامنے آئے ہیں جس کے مطابق فزکس کے عنوانات میں آپس میں ہم آہنگی نہیں ہے جسے lack of coherence کہا گیا ہے اور بتایا ہے کہ فزکس میں ریاضی کے concepts  کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا گیا ہے،  یہ وہ concept ہیں جو طلبہ نے اس سے قبل نہ پڑھے اور نہ ہی یہ انٹر سال اول کی سطح پر پڑھائے جاتے ہیں۔ 

فزکس کی کتاب میں calculus  کا جگہ جگہ استعمال کیا گیا ہے جو ریاضی کی ہی انٹر سال دوم کی کتاب میں پڑھایا جاتا ہے جبکہ طلبہ کو ریاضی کے اس  concept کی فاؤنڈیشن ہی نہیں دی گئی یہ طلبہ کے لیے ایک بڑی jump ہے۔ 

اسی طرح one dimensional  motion  کے بغیر 2 اور 3 dimensional motion پڑھائی گئی مزید یہ کہ Calculus اور derivation  کے ذریعے velocity اور  acceleration پڑھایا گیا اور بغیر کسی پیشگی نالج کے طلبہ کو الیکٹرو dipole پڑھایا گیا 
یہ تمام عنوانات انٹر سال دوم کی کتاب میں ہونے چاہیئں۔

رپورٹ کے مطابق بورڈ کے علاوہ دیگر معاملات جو نتائج پر اثر انداز ہوئے ہیں ان میں بورڈ کے معاملات کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ہزاروں کاپیاں اساتذہ نے گھروں پر چیک کیں اور سینٹرلائزڈ اسسمنٹ کا concert  ہی ختم کردیا گیا کچھ جگہوں پر اساتذہ نے نرمی سے کچھ پر انتہائی سختی یا rational اپروچ کا استعمال کیا گیا جس سے مارکس غیر ضروری طور پر کم ہوئے۔

اساتذہ کو اسسمنٹ کے سلسلے میں ملنے والے معاوضے کا ریٹ انتہائی کم ہے جس کے سبب کئی سینیئر اساتذہ نے اسسمنٹ سے بھی انکار کیا، یہ معاوضہ بھی اساتذہ کو کم از کم ڈیڑھ سال بعد ملتا ہے، کاپیوں کی اسسمنٹ کے دوران مارکس کی totaling  اور counting کی بہت زیادہ غلطیاں رہیں اور کئی جگہ کاپیوں کا ایک بڑا حصہ چیک ہی نہیں ہوا۔

بورڈ کی صورتحال پر مزید بات کرتے ہوئے رپورٹ میں کہا گیا ہے  کہ بورڈ کی اکیڈمک کمیٹی فروری 2021 میں بنی تھی اور دو سال بعد فروری 2023 میں اپنی مدت پوری کرچکی ہے پھر بھی اسی کمیٹی سے کام لیا جارہا ہے جس میں ساؤنڈ اکیڈمک بیک گراؤنڈ کے حامل اساتذہ کی کمی ہے۔

رپورٹ میں سندھ پر بھی تنقید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ گزشتہ نتائج سے اس سال کے نتائج دوران ایک سال میں پانچ چیئرمین اور تین ناظم امتحانات تبدیل ہوئے جبکہ سیکریٹری کی پوزیشن خالی رہی۔

کمیٹی نے بورڈ میں ناظم امتحانات کی پوزیشن کو ختم کرنے  اور اس کی جگہ ایک نہیں تین ڈپٹی چیئرمین مقرر کرنے کی سفارش کی ہے جن میں سے ایک پری ایگزامینیشن،  دوسرا ایگزامینیشن اور تیسرا پوسٹ ایگزامینیشن کا ذمے دار ہو۔

کمیٹی نے یہ بھی کہا یے کہ ویجلنس کے حوالے سے کوتاہی برتنے پر تمام ڈپٹی کنٹرولرز کو نوٹسز جاری کیے جائیں،  یاد رہے کہ کمیٹی نے کیمسٹری میں 20 جبکہ فزکس اور ریاضی میں 15 فیصد مارکس دینے ہی سفارش کرچکی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

ہارڈ اسٹیٹ

Mar 30, 2025 02:24 AM |

’’ماں‘‘

Mar 30, 2025 01:29 AM |