پاکستان ایک ںظر میں عید اور متاثرین وزیرستان

سو آئیے! وعدہ کریں ہم آج ہی ایسا کوئی عمل کرتے ہیں کہ عید کے دن ہم متاثرین کو یاد کرکے عید کی حقیقی خوشی مناسکیں۔


عید کے موقع پر تمام لوگ اپنے گھروں کو جاتے ہیں مگر یہ متاثرین اس بار ایسی حالت میں عید منارہے ہیں کہ یہ اپنی چھتوں سے محروم ہیں۔ فوٹو: فائل

انسان کی زندگی میں نشیب وفراز آتے رہتے ہیں۔ آج خوشحالی، کل کسمپرسی۔ آج سُکھ، کل دُکھ۔ قرآن کی زبان میں ''وتلک الایام نداولھا بین الناس'' یعنی ہم لوگوں کے درمیان دن بدلتے رہتے ہیں۔ آج اگر کوئی سکھ کی زندگی بسر کررہا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اسی سکھ کی حالت میں زندگی بسر کرتا رہے۔ آج اگر کسی پر مشکل گھڑی آگئی ہے تو ضروری نہیں کہ یہ گھڑی پوری زندگی پر محیط ہوجائے۔ ہم اپنی زندگیوں میں دیکھتے ہیں، آج کے کروڑ پتی، کل کے کنگال ہوتے ہیں۔ اور آج کے کنگال کل کے کروڑ پتی بن جاتے ہیں۔

میں کچھ دنوں قبل بنوں گیا۔ یہاں وزیرستان سے آنے والے متاثرین کی بڑی تعداد سے ملاقات ہوئی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے ایسے لوگوں کو قطاروں میں دیکھا جن سے گفتگو کے بعد پتا چلا کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کے بااثر خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے ہر فرد اپنے اپنے علاقے کا ''نواز شریف'' ہے۔ لیکن حالات نے انہیں بھی قطاروں میں کھڑا کرکے، اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے مجبور کردیا ہے۔ اپنی بھوک انسان برداشت کرلیتا ہے، مگر اپنے معصوم بچوں کو بھوک سے بلکتے کوئی نہیں دیکھ سکتا۔

آپ خود غور کیجیے رمضان کا مہینہ، شدید گرمی اور حبس اور اس حالت میں پورا پورا دن راشن کے لیے قطاروں میں کھڑا ہونا۔۔۔ کتنا تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ ؛پھر آپ ایک ایسے شخص کے بارے میں سوچ لیجیے جس نے پوری زندگی خودداری میں گزاری ہو۔ جس نے کبھی دستِ سوال دراز نہ کیا ہو، وہ پیٹ کی آگ بجھانے کی خاطر قطاروں میں کھڑا ڈنڈے کھارہا ہو۔ میری آنکھوں کے سامنے اس وقت بھی وہ منظر ہے جب ایک معزز قبائلی کو ڈنڈا پڑا تو اس کی آنکھوں نے شعلے اُگلنا شروع کردیے۔ وہ بار بار کہہ رہا تھا مجھے زندگی میں کسی نے ہاتھ تک نہیں لگایا اور یہاں مجھے ڈنڈے پڑرہے ہیں۔

اس سے بھی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ رمضان کے مبارک مہینے کے بعد اب عید کی آمد آمد ہے۔ عید کے موقع پر دنیا بھر سے لوگ اپنے اپنے دیس میں آتے ہیں۔ ہزاروں روپے خرچ کرتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے بڑے شہروں میں مزدوری اور ملازمت کرنے والے چند چھٹیاں لے کر اپنے اپنے علاقوں کی طرف جاتے ہیں۔ لیکن اندازہ لگائیں کہ یہ متاثرین اس بار ایسی حالت میں عید منارہے ہیں کہ یہ اپنی چھتوں سے محروم ہیں۔

حالانکہ رمضان کا مہینہ طلوع ہوتے ہی ہمارے گھروں میں عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ بچے اپنی اپنی پسند کے کپڑے اور جوتے خریدنے کی ضد کرتے ہیں۔ بنوں کے ان کیمپوں اور شہر میں بھی 70 ہزار خاندان ہیں اور ان خاندانوں میں کئی لاکھ بچے ہیں۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں۔ وہ معصوم ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو بھی نہیں معلوم کہ ان کے والدین کن حالات سے گزر رہے ہیں۔ انہیں بس عید کا جوڑا چاہیے۔ جب وہ معصومانہ ضد کرتے ہوں گے، ان کے والدین پر کیا گزرتی ہوگی؟

ان متاثرین کے زخموں پر مرہم رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اس کے پاس وسائل ہیں، لیکن ہم یہ کہہ کر اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے۔ سو کیوں نہ ہم بھی اپنے آپ کو سرخرو کرنے کے لیے اُنگلی کٹاکر شہیدوں میں نام لکھوائیں۔ کہتے ہیں کہ جب یوسف علیہ السلام مصر کے بازار میں بِک رہے تھے تو ایک بڑھیا سوت کی انٹی لے کر آئی۔ کسی نے پوچھا اماں! اس سوت کی انٹی کی کیا حیثیت ہے جو آپ یوسف کی خریداری کے لیے آئی ہیں؟ بوڑھی اماں نے کیا شاندار جواب دیا۔ کہنے لگیں: مجھے معلوم ہے کہ میں اس سوت کی انٹی سے یوسف کو نہیں خرید سکتی، لیکن کل جب قیامت کے دن یوسف کے خریداروں کا نام لیا جائے گا تو میں بھی ان میں شامل ہوں گی۔

سو آئیے ہم بھی ''یوسف'' کے خریداروں میں اپنا نام شامل کریں۔ ہم انفرادی طورپر ان متاثرین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھ سکتے، لیکن اگر پاکستان کی 18 کروڑ آبادی ان چند لاکھ بچوں کی عید کے لیے صرف ایک ایک روپیہ بھی اپنی جیبوں سے نکال دے تو یقین جانیں ہم ہمیشہ کے لیے ان قبائلیوں کے دل جیت سکتے ہیں۔ آپ خود سوچیں جب کوئی شخص پریشان ہوتا ہے، اس کے ساتھ ایک روپیہ کی مدد بھی کی جاتی ہے تو وہ زندگی بھر اس احسان کو نہیں بھولتا۔

ہم میں سے بے شمار لوگ ایسے ہیں جو عید کے تین دنوں کے لیے تین تین جوڑے خریدتے ہیں۔ اگر تین جوڑے خریدنے والے ایک جوڑا ہی ان متاثرین کے نام کردیں۔ اگر دو جوڑے خریدنے والے ایک جوڑا متاثرین کے لیے بھجوادیں۔ اگر اپنے بچوں کو سو روپے بطورِ عیدی دینے والے تہیہ کرلیں کہ ان میں سے 25 روپے ان متاثرین کے نام ہیں تو یقین جانیں ہم عید کے دن جو خوشی محسوس کریں گے، اس کا تصور محال ہے۔ سو آئیے! وعدہ کریں ہم آج ہی ایسا کوئی عمل کرتے ہیں کہ عید کے دن ہم اسے یاد کرکے عید کی حقیقی خوشی مناسکیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں