
شرح نمو کی پیمائش کو اس وقت اہمیت حاصل ہوئی جب عالمی سطح پر دنیا دو مخالف کیمپوں میں تقسیم نظر آئی۔ ہر ملک علاقے کی سطح پر غربت و امارت کا جو منظر نامہ نظر آ رہا تھا یعنی امیر سے امیر تر اور غریب مزید غریب تر ہوتا چلا جا رہا تھا۔ تمام علاقہ جات مشرق والوں کی تقدیر کو یہ سمجھنا پڑا کہ غریب کا مقدر مزید غریب ہونا ہے۔
یہی فلسفہ عالمی سطح پر بھی غریب ممالک کو ازبرکرا دیا کہ آپ نے غریب ہی رہنا ہے۔ اسلامی دنیا کا حال کچھ اس طرح سے تھا کہ جب تک سلطنت عثمانیہ (1922) تھی ادھر 1857 تک مغل سلطنت اور دیگر علاقوں کے مسلم حکمرانوں مثلاً ریاست بہاولپور اور ریاست سوات کے حکمران جنھوں نے اپنے علاقے کے نوجوانوں کو تعلیم کی دولت سے مالا مال کر دیا تھا۔ دکن کی اسلامی ریاست اور بہت سے دیگر مسلمان حکمرانوں کے دور میں مسلمانوں کی مالی حالت کی شرح نمو بہتر تھی۔ پھر 1938 میں عربوں کے یہاں تیل کے فوارے جیسے ہی پھوٹے وہاں خوش حالی نے قدم جما لیے۔ انھی دنوں عالمی سطح پر شرح نمو میں اضافہ انھی ملکوں کا ہو رہا تھا جوکہ امیر تھے اور پھر غریب ممالک کی غربت پسماندگی اور ان کی زراعت کی بدولت وہ امیر سے امیر تر بنتے چلے جا رہے تھے۔
ہوا کچھ یوں کہ ہر ملک کو ترقی کی خواہش تھی چنانچہ وہ اپنا بچا کچھا مال زراعت سمیٹتا اور عالمی منڈی پہنچ کر یہ تمنا لے بیٹھتا کہ اچھے دام ملیں گے اور پھر آہستہ آہستہ امارت کی طرف قدم بڑھنے لگیں گے لیکن عالمی مارکیٹ کے خریدار امیر ممالک اپنی مرضی کے دام لگانے پر مجبور تھے کیونکہ اسی سستے مال کے بل بوتے پر انھوں نے اپنی عمارت کی دیوار کھڑی کرنی تھی۔ گزشتہ ایک صدی سے زائد کا عرصہ ہو گیا یہ سلسلہ چل رہا ہے۔
پاکستان جب آزاد ہوا، اس کے پاس زراعت تھی جو قدیم روایات کی فرسودہ عمارت پرکھڑی تھی۔ جدید ٹیکنالوجی کا فقدان بھی تھا اور قدیم روایتوں کی پاسداری کرنے والے پرانے آلات کاشتکاری پر انحصارکرنے والے کسان اپنی روش چھوڑنے کو تیار نہ تھے، لہٰذا زراعت پسماندگی کا شکار رہی اس کے علاوہ جو بڑی دولت ہاتھ میں تھی وہ افرادی قوت تھی اور یہ دولت بے بہا تھی، لیکن کوئی حکومت آ کر اس کو پہلے نمبر پر ترجیح نہ دے سکی۔
اگر زور دیا گیا تو نان ٹیکنیکل تعلیم پر دیا گیا کہ میٹرک کے بعد ایف اے کر لو، بی اے کر لو، پیشہ ورانہ تکنیکی تعلیمی ادارے، کالج، یونیورسٹیوں کی شدید کمی تھی اور اس کمی کو آہستہ آہستہ جیسے تیسے تھوڑے تھوڑے ڈاکٹرز، انجینئرز، چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ وغیرہ وغیرہ ملک سے فارغ التحصیل ہوتے چلے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ منظر سے غائب ہوتے چلے گئے۔ ملک میں رہ کر یہاں ’’خدمت خلق‘‘ کرنے کے بجائے دیار غیر جا کر ’’خدمت خلق‘‘ میں مصروف عمل نظر آئے بس پھر پاکستان نے بھی کیا ترقی کرنا تھی؟ یہاں کے معاشی حکام ایک اکاؤنٹینٹ کی طرح حساب کتاب کرتے کہ اتنے کی برآمدات ہوگئی، اتنی درآمدات، اتنا زرمبادلہ باہر سے اپنوں نے بھیجا۔ اتنا پیسہ بطور قرض بمع شرط غیروں نے دیا اور معاشی ترقی کی شرح نمو کبھی اوپر ہوئی اور کبھی نیچے ہوئی۔
بس یہی کھیل چل رہا ہے جسے سمجھنے کے لیے زیادہ دور نہیں جاتے بات 2010 سے شروع کرتے ہیں جب پاکستان کے معاشی حکام یہ کہہ رہے تھے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور عالمی معاشی بحران کے باوجود پاکستان کی مجموعی پیداوار کی عبوری شرح نمو میں ساڑھے تین فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔ انھی دنوں اقتصادی سروے میں بتایا گیا کہ پاکستان کے شعبہ زراعت کی شرح نمو دو فی صد رہی۔ یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اوپر بتائے گئے عالمی معاشی بحران سے مراد 2008-09 کا عالمی مالی بحران ہے جس نے ترقی یافتہ ممالک کو متاثر کیا تھا۔
جب کہ ان دنوں جو حکمران تھے کا کہنا تھا کہ ہم نے خود کو اس عالمی مالی بحران سے بچا لیا ہے اور بات درست تھی کہ وہ تو مالی معاملات تھے جس سے پاکستان کا کوئی خاص لینا دینا نہیں تھا بہرحال نئی حکومت نے آ کر کچھ بیانیہ تبدیل کیا اور پاکستان کو اس سے شدید متاثر ٹھہرایا۔ پھر جنوری 2022 میں نیشنل اکاؤنٹس کمیٹی نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ مالی سال معاشی شرح نمو میں 5.37 فی صد اضافہ ہوا۔
ان دنوں زراعت میں شرح نمو ساڑھے تین فی صد بتائی جا رہی تھی۔ پھر مالی سال 2023-24 کا آغاز ہوتا ہے جس کی پہلی سہ ماہی جولائی تا ستمبر 2024 کے بارے میں یہ رپورٹ دی گئی کہ ان تین ماہ میں اقتصادی شرح نمو ایک فی صد ریکارڈ کی گئی جو گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے میں ریکارڈ کی گئی 2.3 فی صد سے کم ہے۔ ابھی مخلوط حکومت ملک میں کام کر رہی تھی اور بہت سے شعبوں کی سخت مایوس کن کارکردگی کے باعث یہ نتیجہ نکل رہا تھا یعنی ان تین ماہ میں بنیادی خدمات کے شعبے میں 1.43 فی صد اضافہ، زراعت 1.15 فی صد اضافہ، صنعتی شعبہ سخت مایوس کن کارکردگی دکھاتے ہوئے 1.03 فی صد منفی ترقی کا شکار ہو کر رہ گیا۔
اب حکومت کا کہنا ہے کہ جامع اصلاحات اور معاشی استحکام کی بدولت شرح نمو میں اضافہ ہوا ہے۔ شرح نمو 2.5 فی صد بتائی جا رہی ہے۔ ذخائر زرمبادلہ بڑھ گئے ہیں، شرح تبادلہ مستحکم ہے۔ یہ باتیں تو درست ہیں لیکن اس حکومت نے معیشت کے لیے اب دفاعی جنگ بھی لڑنی ہے، بلوچستان کے حالات سے نمٹنا ہے، ملک میں مافیا مہنگائی لانے کے لیے ہر دم کمربستہ ہے اس سے بھی برسر پیکار رہنا ہے ان تمام کے باوجود غربت میں شدید اضافہ ہو رہا ہے آٹھ ماہ میں درآمدات کا حجم 35 ارب 20 کروڑ ڈالر پہنچ گیا ہے۔
اس پرکیسے قابو پائیں گے؟ لاکھوں ایکڑ زرعی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی کا بورڈ لگا کر بنجر بنا دیا گیا ہے اس کا کیا علاج ہوگا؟ کروڑوں افراد ہیں جن کو جدید ٹیکنیکل تعلیم دے کر ملک اور بیرون ملک بھیج کر زرمبادلہ حاصل کیا جائے۔ زرعی انقلاب اور دودھ کی پیداوار کو دگنا کرنے کے لیے سفید انقلاب برپا کریں۔ زرعی پیداوار کا مناسب معاوضہ دیا جائے پھر کہیں جا کر شرح نمو میں اضافہ ہوگا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔