
خواتین اور سول سوسائٹی کی تنظیموں نے خواتین کے عالمی دن کو دریائے سندھ کو خشک سالی سے بچانے کے نام کردیا ہے۔ یہ دن دنیا بھر میں 8 مارچ کو منایا جاتا ہے۔ ان تنظیموں نے اپنے اعلامیہ میں کہا ہے کہ سندھ کی 5000 سالہ تہذیب کو حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے تباہی کے دہانے پر پہنچادیا ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، سیلاب اور آبی وسائل کی لوٹ مار نے سندھ کے وجود اور کروڑوں انسانوں کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
انڈس ڈیلٹا کی تباہی، زرعی زمینوں کا سمندر برد ہونا اور پانی کی قلت جیسے مسائل شدت اختیارکرچکے ہیں جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہیں۔ فصلوں کی پیداوار کم ہو رہی ہے اور غذائی بحران بڑھ رہا ہے۔ ہوم لینڈ وومن ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکریٹری زہرا خان، فشرز فورم کی فاطمہ مجید، لیاری میں تعلیم اور صحت کے لیے آگہی کی مہم کی روحِ رواں حانی واحد بلوچ، جمیلہ، میمونہ اور کامی چوہدری اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کے عہدیداروں کا بیانیہ ہے کہ سندھ نے ہمیشہ آبی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی ہے۔ کالا باغ ڈیم کو عوامی جدوجہد سے روکا ہے۔
کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر زرعی زمینوں پر قبضہ ماحولیاتی تباہی اور جبری بے دخلی جیسے مسائل سب سے زیادہ مظلوم طبقات، عورتوں اور بچوں کو متاثر کررہے ہیں۔ ان رہنماؤں کا یہ بھی کہنا ہے کہ سندھ میں چند برسوں قبل آنے والے سیلابوں، ہیٹ ویو اور دیگر آفات سے سب سے زیادہ عورتیں اور بچے متاثر ہوئے ہیں۔ یہ اکابرین اس نکتے پر متفق ہیں کہ خواتین کا عالمی دن ان مسائل پر رائے عامہ کو ہموارکرنے کے لیے ہے ۔
یورپ اور امریکا میں بھی 19ویں صدی تک خواتین کے حقوق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ عورتیں پدر شاہی نظام میں زندگی گزارنے پر مجبور تھیں۔ عورتوں کو اعلیٰ پیشہ ورانہ تعلیم سے بھی محروم رکھا جاتا تھا۔ عورتوں کو انفرادی طور پر معاہدے میں فریق بننے، جائیداد بنانے اور اعلیٰ عدالتوں میں پیش ہونے کے حقوق حاصل نہیں تھے۔ معاشی اعتبار سے عورتوں کا مردوں کا سہارا حاصل کرنا ضروری تھا۔
فرانس میں 19ویں صدی اور 20ویں صدی میں اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے سیاسی تحریکوں کا آغاز کیا تھا۔ انقلابِ فرانس کے دوران فرانس کی آئین ساز اسمبلی نے The Declaration of the rights of man of the Citizen کے اعلامیہ کی منظوری دی تھی۔ باشعور شہریوں کا کہنا تھا کہ اس دستاویز میں شہریوں کے درمیان جنس، طبقہ، ذات اور مذہب جیسے معاملات پر امتیازی سلوک کیا گیا۔
19ویں صدی کے آخری اور 20 ویں صدی کے اوائل کے ابتدائی برسوں میں برطانیہ کے شہر مانچسٹر سے تعلق رکھنے والی خاتون ایم لیکس کی قیادت میں عورتوں کے حق کو تسلیم کرنے کی تحریک شروع ہوئی۔ معروف ماہر سماجیات جان اسٹیورٹ مل نے 1866میں پارلیمان میں ویمن سوچ ترمیم بل (عورتوں کے ووٹ کے حق کے لیے ترمیمی بل) پیش کیا مگر ایوان نے اس بل کو کثرتِ رائے سے مسترد کر دیا۔ 1877میں برطانوی پارلیمنٹ میں شادی شدہ عورتوں کو جائیداد پر حق کا قانون منظورکیا۔ اسی طرح زیرِ اثر جزیرہ اہل آف اسپین میں عورتوں کو ووٹ کا حق مل گیا۔
برطانیہ میں 1894 میں لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری سے عورتوں کو کاؤنٹی اور یورو کونسل میں ووٹ کا حق مل گیا۔ برطانیہ میں خواتین کی طویل جدوجہد جس میں تادمِ مرگ بھوک ہڑتال اور قیدوبند کی صعوبتیں شامل ہیں کے نتیجہ میں جولائی 1928میں 21 سال سے زائد عمر کی تمام خواتین کو ووٹ کا حق مل گیا۔
1969میں عوامی نمایندگی کے ایکٹ میں ترمیم کی گئی اور ووٹ دینے کی عمر 21 سال سے کم کر کے 18سال کردی گئی۔ جب 1917میں کمیونسٹ پارٹی نے سوویت یونین کا اقتدار سنبھالا تو سوویت یونین کے آئین میں خواتین کو مردوں کے برابر حیثیت دینے کی شق بھی شامل ہوئی اور خواتین کی جدوجہد کے حوالہ سے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیا گیا۔ بعد میں اقوام متحدہ نے 8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن قرار دیدیا۔
ہندوستان میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق کی حمایت سب سے پہلے بیرسٹر محمد علی جناح نے کی ۔ جب 20 ویں صدی کے آغاز پر انگریز حکومت نے کمسن لڑکیوں کی شادی پر پابندی کا قانون منظورکیا تو پورے ہندوستان میں بیرسٹر محمد علی جناح واحد رہنما تھے جنھوں نے اس قانون کی بھرپور حمایت کی۔
جنرل ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں خواتین کے حقوق کو غصب کرنے والے قوانین نافذ ہوئے۔ 12 فروری 1983 کو لاہور میں دو سو کے قریب خواتین کے احتجاجی جلوس نکالا۔ انسانی حقوق کی کارکن عاصمہ جہانگیر اور حنا جیلانی وغیرہ نے اس جلوس کو منعقد کیا تھا۔ پولیس نے خواتین پر تشدد کیا۔ جب شاعرِ انقلاب حبیب جالب خواتین کے ساتھ یکجہتی کے لیے پہنچے تو پولیس نے ان پر بھی لاٹھیاں برسائیں۔ لاہورکی خواتین کی اس جدوجہد سے ملک میں خواتین کی تحریک کا آغاز ہوا۔
پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے دور میں ویمن بینک، ویمن پولیس اسٹیشن قائم ہوئے۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت 2008 میں برسر اقتدار آئی تو خواتین کو جائیداد میں حصہ دلانے،گھریلو تشدد،کام کرنے کی جگہ پر ہراسگی کے متعلق مؤثر قوانین بنائے گئے۔
جب میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے توگھریلو تشدد کی روک تھام کا جامع قانون بنایا گیا مگر پھر دباؤ پر یہ قانون معطل ہوا مگر میاں شہباز شریف کے اس دور میں خواتین پولیس کو موٹر سائیکلیں فراہم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ پنجاب کی موجودہ وزیر اعلیٰ مریم نوازکے دور میں خواتین کو مردوںکی برابری کے لیے کئی اہم منصوبے شروع ہوئے، مگر حکومتوں کے ان تمام تر اقدامات کے باوجود وفاق، پنجاب، خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں 18سال سے کم عمر بچیوں کی شادی پر پابندی کے لیے کوئی قانون نہیں بن سکا۔ ورلڈ اکنامکس فورم کی Global Gender Gap Report 2023 کے مطابق پاکستان صنفی امتیاز کے حوالے سے دنیا کے 146 ممالک میں 95 ویں نمبر پر ہے۔ اگرچہ برسر اقتدار حکومتیں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق دینے کا پرچار تو کرتی ہیں مگر یہ معاملہ حکومتوں کی اولین ترجیحات میں شامل نہیں ہوتا۔ اس وقت ملک بھر میں 2 کروڑ سے زیادہ بچے اسکول نہیں جاتے۔ ان میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔
خواتین کے خلاف جرائم میں مجرموں کو سزا دینے کے فیصلوں کی تعداد بہت کم ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ انصاف کا نظام خواتین کو تحفظ دینے میں ناکام رہا ہے۔ اخبار میں شایع ہونے والی ایک رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل کے مقدمات ہیں، مجرموں کو دی جانے والے فیصلوں کی شرح 0.1 فیصد ہے۔ اسی طرح گھریلو تشدد کے مقدمات میں فیصلوں کی شرح 1.3 فیصد ہے۔ یہی صورتحال دیگر جرائم کا ارتکاب کرنے والے مجرموں کی سزاؤں کے حوالے سے ہے۔ اس مجموعی صورتحال میں خواتین کا دریائے سندھ کو بچانے کے لیے جدوجہد کا اعلان قابلِ تحسین ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔