
اللہ تعالیٰ نے ہر روپ میں عورت کو گویا ایک قیمتی نگینہ بنا کر بھیجا ہے۔
وہ ہر روپ اور ہر رنگ میں خوب سجتی ہے۔ ماں ہے تو فخر کی عظیم داستان سمیٹتی ہے۔ بیوی ہے تو پاکیزگی کا احساس دلاتی ہے۔ بہن ہے تو محبتیں بانٹتی دکھائی دیتی ہے اور بیٹی ہے تو دل کا سکون محسوس ہوتی ہے۔ اماں، ابا کے گھر میں وہ ننھی سی بچی کھیلتی اٹھکھلیاں کرتی پھرتی ہے۔ ناز اٹھواتی، لاڈ جتاتی سب کی آنکھوں کا تارا ہوتی ہے۔ اس رنگ میں لاڈلی بیٹی ایسے سجتی ہے کہ ماں، باپ کا دل اس کے لیے صرف اچھے نصیب کی دعا کرتا ہے۔
بھائیوں کی راج دلاری ہوتی ہے۔ ابا کی تو اس میں جان ہوتی ہے۔ شرارتوں اور بھاگم دوڑ میں معلوم ہی نہیں ہوا کہ ماں نے کب اسے سرخ دوپٹہ اوڑھایا اور باپ نے خاموش آنسوؤں کے ساتھ اسے گھر کی دہلیز سے رخصت کر دیا۔ زندگی کا اصل باب تو اب شروع ہوا۔ اسے تو کچھ معلوم ہی نہیں تھا کہ زندگی میں کس قدر تلخیاں پنہاں ہیں۔ خواہشات کے گلے کیسے گھونٹے جاتے ہیں۔ اسے تو اب معلوم ہوا تھا کہ اصل میں ’برتن کیسے مانجھے‘ جاتے ہیں۔
اسے تو زندگی نے اب ہی سمجھایا تھا کہ کیسے کیسے لوگوں کے رنگ ہوتے ہیں۔ سسرال میں کیسے کیسے تنقید نگار‘ ہوتے ہیں۔ اپنی ماں کے پڑھائے گئے سارے سبق اسے بھولنے لگتے ہیں، لیکن وہ صبر کا ایسا پیکر بنتی ہے کہ ایک مثال بن جاتی ہے۔ شوہر کو یہی فکر تھی کہ وہ صرف اس کے گھر والوں کا خیال رکھے۔ اس کی ماں جی کے سامنے ’ہاتھ جوڑ‘ کر کھڑی رہے۔ بہنیں آئیں، تو پھر وہ کمرے میں اپنی کمر سیدھی کرنے کے لیے بھی نہ جائے۔
’وہ کیا سوچیں گی؟ انھیں برا لگے گا۔ اماں غصے ہوں گی۔‘ شوہر کی نصیحتیں جاری رہتیں۔ جب اس نے ہفتے بعد کہہ دیا کہ مجھے امی کی طرف جانا ہے، تو اس کی سختی کا وقت شروع ہو جاتا۔ ساس کا رویہ عجیب، شوہر بھی کھچا کھچا۔ نندیں الگ منہ بنائے ہوئے۔ بیٹیوں کے لیے وقت غیر مقرر اور بہوؤں کے لیے مقررہ کہ ’’یہ کون سا وقت ہے گھر سے باہر جانے کا۔۔۔؟‘‘ جب کہ ایک بیٹی گھر میں داخل ہو رہی تھی اور ایک ابھی گھر سے نکل رہی تھی لیکن بہو کے لیے ’’یہ وقت ممنوع ہوگیا اور وہ وقت غلط ہو گیا!‘‘ اب یہ پوچھیں کہ بھئی پھر وہ کس وقت نکلے۔۔۔؟
صبح ناشتا بناتے بناتے کھانے کا وقت ہو جاتا ہے۔۔۔ کسی نے ناشتا نہیں کیا تو کھانے میں کچھ مزے کا بن جانا چاہیے۔۔۔ ساری دوپہر گزر جاتی ہے اور شام ہی باقی بچتی ہے اور وہ بھی انھیں برا لگتا ہے کہ ’’بہو اپنی ماں کے گھر جائے۔‘‘ اگر چلی بھی جائے، تو شوہر کی ہزار نصیحتیں سننے کو ملتی ہیں اور آخر میں یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ’امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، کوشش کرنا کہ کل شام تک گھر آجاؤ!‘
ماں کے گھر میں ذرا سی بات پر طوفان اٹھانے والی یہ ’نازک سی لڑکی‘ ہر طوفان سے ٹکرانے کا حوصلہ اپنے اندر پیدا کر لیتی ہے۔۔۔ ’’مجھے یہ نہیں کھانا، وہ چاہیے۔ یہ نہیں پہننا، اس جیسا چاہیے۔‘‘ یہ سارے قصے پرانے بننے لگتے ہیں۔ اسے بس یہی فکر رہتی کہ ساس کا رویہ اس کے ساتھ خراب نہ ہو جائے، کسی نند کا اس کی وجہ سے دل نہ دکھے۔ دیور اور سسر کو وقت پر کھانا دینا نہ بھولے۔ شوہر کی ایک آواز پر وہ سب چھوڑکر چلی آتی۔ اسے بس اپنا ہی خیال نہ تھا۔ وقت پر کھانا پینا سب چُھوٹ گیا تھا۔ کبھی کبھار تو اس کے اماں، ابا بھی خاموشی سے اس کا منہ تکتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کی لاڈلی بیٹی نے دل میں نہ جانے کیا کیا کہانیاں چھپا لی ہیں اور انھیں بتانے سے کتراتی ہے۔ وہ یہ بھی محسوس کرتے ہیں کہ وہ ان سے ملنے سے بھی گریزاں رہنے لگی ہے۔‘‘
ان کا بہت دل چاہتا ہے، تم سے ملنے کو، اماں جب اسے فون پر ابّا کا پیغام پہنچاتی ہیں، تو وہ کچھ بہانے بنا دیتی ہے کہ گھر میں مصروفیت بہت ہے۔ وہ تو اپنی بے بسی کے آنسوؤں کو چُھپانا چاہتی ہے۔ وہ انھیں پریشان نہیں کرنا چاہتی۔ دل کی باتیں انھیں نہیں بتانا چاہتی۔ مصنوعی ہنسی کا پیکر بنی فون پر بے اختیار انھیں ادھر ادھر کی کہانیاں ہی سناتی چلی جاتی ہے۔
’’ تم خوش ہو ناں!‘‘
ماں آخر تک تسلی کرتی رہتی اور اس کا ایک ہی جواب ’’جی بہت!‘‘ پھر جب اس نے اپنے جگر گوشے کو ہاتھوں میں تھاما تو اسے اپنے ماں ہونے کا خوب صورت احساس ہوا۔ اپنی ماں کی محبتیں بے تحاشا یاد آئیں۔ وہی تڑپ اور پیار اسے اپنے بچے کے لیے محسوس ہوئی۔ وہ صبر کے ساتھ ساتھ ہمت کی ہم جولی بھی بن گئی۔
ماں، باپ اپنی اولاد کے لیے کتنی تکلیفیں برداشت کرتے ہیں، اسے آج اندازہ ہوا تھا۔ اپنے بچے کی خوشیوں میں اسے اپنے دکھ بھولنے لگے تھے۔ وہ اس کی چھوٹی چھوٹی مسکراہٹوں میں الجھ کر رہ گئی تھی۔ اپنے بچے کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ اٹھتی تھی۔ اب اس نے دوسروں کی تنقید پر کان دھرنے چھوڑ دیتے تھے۔ ذرا ذرا سی بات پر آنکھیں نم کرنے والی اب حالات سے نبٹنے کے لیے خود کو تیار کر چکی تھی۔ اب اس نے اپنی حق تلفی کے لیے بولنے کی ہمت پیدا کرلی تھی۔ وہ خوش رہنے کی کوشش کرنے لگی تھی، لیکن بیتے لمحوں کی یادیں اس کی آنکھوں کے کاجل کو پھیلانے میں لگی رہتی تھیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔