مومن کی عید رضائے الٰہی کا حصول ہے
یوں تو سب دن اﷲ کے ہیں اور سب راتیں بھی، مگر سب یکساں نہیں، بعض کو بعض پر مرتبۂ فضیلت عطا ہوا۔
مکان کو عزت حاصل ہوتی ہے مکین سے اور زمانے کو کسی اہم واقعے سے، ہر کوئی کسی نسبت کے سبب ہی مکرّم اور ممتاز ہے۔
یوں تو سب دن اﷲ کے ہیں اور سب راتیں بھی، مگر سب یکساں نہیں، بعض کو بعض پر مرتبۂ فضیلت عطا ہوا، ہفتے کے ایّام میں جمعہ کے دن کے لیے فضیلت ہے، اس دن میں بَہ طَورِ خاص اﷲ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سعی کا حکم ہے اور سرورِ دو جہاں باعث ِ کون و مکاں شفیعِ عاصیاں چارۂ بے چارگاں، حامیٔ بے کساں حضور ﷺ نے جمعہ کے دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن فرمایا۔
اسلام میں عید کا تصور خوشی کے ساتھ ہے اس لیے کہ بندۂ مومن کو جس دن رضائے الٰہی کی قوی امید بلکہ یقین ہو وہ دن بھی فی الحقیقت خوشی اور مسرّت کا دن ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ انسان کو کوئی انعام یا اِکرام ملے، اس کے درجے مرتبے میں اضافہ ہو، اسے کوئی راحت پہنچے، اس کا کام پورا ہو یا اسے اپنے مقصد میں کامیابی ملے تو اسے خوشی ہوتی ہے۔
ایک مومن کے لیے اﷲ کی رضا سے بڑھ کر کوئی اور خوشی کِیا ہوسکتی ہے۔ نمازِ عید کا اجتماع ہو یا نمازِ جمعہ کا، بندۂ مومن خشوع و خضوع سے اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کرتے ہوئے اور اس کی بڑائی کے اجتماعی اظہار اور ردائیی عبودیت کے لیے خانۂ خدا میں جاکر کمالِ عِجز سے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے اور انتہائی پَست ہو کر اس بلند و بالا کی عظمت و شان کا اقرار کرتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے تو ربّ رحمن و رحیم اُسے اپنا بندہ بنالیتا ہے، اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اسے اپنی رحمت ِ خاص سے نوازتا ہے، اس عطائِ ایزدی پر بندۂ مومن کو خوشی ہوتی ہے یہی عید کا اسلامی تصور ہے ۔
وہ لوگ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ( ﷺ ) پر کامل یقین رکھتے ہوئے صاحب ِ ایمان بن جاتے ہیں اور اسلام قبول کرکے سراپا بندۂ تسلیم و رضا ہوجاتے ہیں ان کے لیے ہر روز، روزِ عید ہوتا ہے اسی لیے شہنشاہِ ولایت مولائے کائنات حضرت امیر المومنین امام المتقین سیدنا علی کرّم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم جس روز گناہ نہیں کرتے وہ دن ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ وہ تقوٰی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اس لیے ہر گز گناہ نہیں کرتے تھے کیوں کہ متقی کہتے ہی اسے ہیں جو خدا و رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی نہ کرے اور معصیت نام ہی نافرمانی کا ہے تو وہ معصوم تو نہیں تھے تاہم تقوٰی و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر ہر آلودگی سے پاک اور محفوظ ہوگئے تھے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ گناہ تو کرتے نہیں تھے اس لیے ان کے اس فرمان سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ ان کے لیے ہر دن عید کا ہی دن ہوتا تھا۔ اگر ہمیں بھی عید کی صحیح خوشیاں اور حقیقی مسرتیں حاصل کرنی ہیں تو نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہن لینے سے اصل خوشی حاصل نہیں ہوگی کیوں کہ رُوحانی لذّات کے لیے صرف ظاہر ہی نہیں باطن کا تزکیہ بھی ضروری ہے۔ صرف کپڑوں کا اُجلا اور بدن کا ظاہری میل سے صاف ہونا تزکیہ نہیں بلکہ تزکیہ دل کا ایسے خیالات اور نظریات و عقائد سے پاک ہونا ہے جو کتاب و سنّت کے خلاف ہوں۔
اسی لیے فرمایا قد افلح من تزکّٰی وہی کامیاب ہوا جس نے پاکیزگی حاصل کی، سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ہمیں اسی تربیت کے لیے عطا کِیا گیا کہ ہم پاکیزگی اختیار کریں، روزے کی غرض و غایت تقوٰی بیان کی گئی اور تقوٰی یہی ہے کہ خواہشاتِ نفس کو حاکم نہ بنایا جائے، لذّاتِ دُنیوی کو ہی مآل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ نفس کے سرکش گھوڑے کی مہار شریعت و سنّت کی گرفت میں دے کر اسے صحیح حالت پر رکھا جائے اور زندگی کے اصل مقصد سے غافل نہ ہوا جائے۔
اگر غور کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک مہینہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بَہ حالت ِ روزہ انتہائی پوشیدگی میں بھی حلال و طیب اشیاء نہیں کھاتے پیتے صرف اس لیے کہ اﷲ کا حکم نہیں تو جس اﷲ کے حکم پر ایک ماہ حلال و طیب سے منہ موڑ سکتے ہیں اس اﷲ جلَّ شانہٗ کے کہنے پر باقی گیارہ مہینے حرام و ممنوع سے کیوں گریز نہیں کرتے۔ اور روزہ اس کا قبول ہے جو ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے۔ عقائد کی دُرستی بنیاد ہے۔کوئی عمل بھی عبادت اسی وقت متصور ہوگا جبکہ عامل صحیح اور سچا مومن ہو۔ ظاہری زمانۂ نبوی ( ﷺ ) میں منافق تمام ارکانِ اسلام ادا کرتے تھے مگر اﷲ قرآن میں فرماتا ہے وما ھم بمومنین، یہ منافق مومن نہیں، واﷲ یشھد ان المنفقین لکذبون، بے شک منافق اپنے دعویٰ ایمانی میں جھوٹے ہیں اور اس کی گواہی اﷲ دے رہا ہے۔
اگر صرف عمل پر انحصار کِیا جائے تو منافق بھی مومن کہلائے جائیں۔ ثابت ہوا کہ صرف عمل پر انحصار نہیں کیوں کہ بنیاد درست نہ ہو تو عمارت کی دُرستی تسلیم نہیں کی جاسکتی، عمارت کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ایمان بنیاد ہے اور منافق ہرگز مومن نہیں تھے، اﷲ فرماتا ہے فی قلوبھم مرضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے، وہ مرض کوئی اختلاج یا انجائنا کا نہیں تھا بلکہ وہ بدعقیدگی تھی بَہ ظاہر کلمہ پڑھا کرتے تھے مگر قرآن و سنّت پر یقینِ کامل نہیں تھا اور مومنوں کے لیے فرمایا اولئک کتب فی قلوبھم الایمان مومن وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان نقش کردیا گیا ہے۔
اسی طرح قادیانی، مرزائی ختمِ نبوت نہیں مانتے اور ختمِ نبوت عمل کا نام نہیں عقیدے کا نام ہے اسی لیے وہ کافر مُرتد کہلاتے ہیں۔ تو ثابت ہوا جس کا عقیدہ درست نہیں وہ مومن نہیں تو عبادت کے لیے پہلی شرط ایمان ہے۔ ختمی مرتبت ( ﷺ ) نے فرمایا جو رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گزشتہ کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ احتساب جانچ پڑتال کا نام ہے کہ روزے دار کو بحالت ِ روزہ اپنے تمام اعضاء یہاں تک کہ قلب و ذہن پر ا تنا ضبط اور کنٹرول ہو کہ وہ ان سے کوئی غلطی خامی اور خلافِ شریعت و سنّت ظاہر نہ ہونے دے۔ یہی احتساب اگر ہر لمحے ہو تو بندے سے کوئی غلط فعل صادر ہی نہ ہو۔ جس شخص کو خدا تعالیٰ کے حاظر و ناظر ہونے پر یقین اور مشاہدہ حاصل ہوجائے پھر وہ نافرمانی نہیں کرتا۔
پورا مہینہ یہی تربیت ہمیں دی جاتی ہے چناں چہ بندۂ مومن ماہِ رمضان میں ظاہر و باطن کا تزکیہ کرکے فلاح و کام یابی حاصل کرتا ہے اور پھر فرمایا وذکر اسم ربہ فصلّٰی اور اپنے رب کا نام جَپتے ہوئے نماز ادا کرو، تو پورا مہینہ صرف اﷲ کی رضا کے لیے روزہ رکھ کر، تراویح میں قرآن سن کر، صدقہ و خیرات کی کثرت اور عبادت کے ذریعے بندہ تزکیہ حاصل کرکے اپنے رب کے نام کی تسبیح پڑھتے ہوئے ظاہر و باطن اُجلا کرکے عید گاہ جاتا ہے تو اﷲ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے گواہ رہنا میں نے ان سب کو بخش دیا۔ یہی وہ صِلہ اور انعام ہے جو بندۂ مومن کا مطلوب و مقصود اور اس کی اصل خوشی ہے۔ اﷲ نے فرمایا روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میرے ذِمّے ہے۔ ایک ارشاد میں فرمایا اس کی جزا خود میں ہی ہوں تو جس عمل کے ذریعے بندے کو خدا مل جائے اس کی لذّت اور اس سے ملنے والی راحت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔
اسلام جِسے دِین ِ فطرت کہتے ہیں، اسے عقلی نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو ہم پر اﷲ و رسول ( ﷺ ) کے احکام کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہر حکم میں ہمارے لیے بھلائی، بہتری اور رحمتوں برکتوں کے بے شمار خزانے ہیں۔
رحمت ِ حق بہانہ می جوید ، بہانمی جوید ( سعدی )
یوں تو سب دن اﷲ کے ہیں اور سب راتیں بھی، مگر سب یکساں نہیں، بعض کو بعض پر مرتبۂ فضیلت عطا ہوا، ہفتے کے ایّام میں جمعہ کے دن کے لیے فضیلت ہے، اس دن میں بَہ طَورِ خاص اﷲ کا فضل تلاش کرنے کے لیے سعی کا حکم ہے اور سرورِ دو جہاں باعث ِ کون و مکاں شفیعِ عاصیاں چارۂ بے چارگاں، حامیٔ بے کساں حضور ﷺ نے جمعہ کے دن کو مسلمانوں کے لیے عید کا دن فرمایا۔
اسلام میں عید کا تصور خوشی کے ساتھ ہے اس لیے کہ بندۂ مومن کو جس دن رضائے الٰہی کی قوی امید بلکہ یقین ہو وہ دن بھی فی الحقیقت خوشی اور مسرّت کا دن ہوتا ہے اور یہ فطری بات ہے کہ انسان کو کوئی انعام یا اِکرام ملے، اس کے درجے مرتبے میں اضافہ ہو، اسے کوئی راحت پہنچے، اس کا کام پورا ہو یا اسے اپنے مقصد میں کامیابی ملے تو اسے خوشی ہوتی ہے۔
ایک مومن کے لیے اﷲ کی رضا سے بڑھ کر کوئی اور خوشی کِیا ہوسکتی ہے۔ نمازِ عید کا اجتماع ہو یا نمازِ جمعہ کا، بندۂ مومن خشوع و خضوع سے اﷲ تعالیٰ کی بڑائی کرتے ہوئے اور اس کی بڑائی کے اجتماعی اظہار اور ردائیی عبودیت کے لیے خانۂ خدا میں جاکر کمالِ عِجز سے اپنی پیشانی زمین پر رکھ دیتا ہے اور انتہائی پَست ہو کر اس بلند و بالا کی عظمت و شان کا اقرار کرتا ہے، اس کا شکر ادا کرتا ہے تو ربّ رحمن و رحیم اُسے اپنا بندہ بنالیتا ہے، اس سے راضی ہوجاتا ہے اور اسے اپنی رحمت ِ خاص سے نوازتا ہے، اس عطائِ ایزدی پر بندۂ مومن کو خوشی ہوتی ہے یہی عید کا اسلامی تصور ہے ۔
وہ لوگ جو اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ( ﷺ ) پر کامل یقین رکھتے ہوئے صاحب ِ ایمان بن جاتے ہیں اور اسلام قبول کرکے سراپا بندۂ تسلیم و رضا ہوجاتے ہیں ان کے لیے ہر روز، روزِ عید ہوتا ہے اسی لیے شہنشاہِ ولایت مولائے کائنات حضرت امیر المومنین امام المتقین سیدنا علی کرّم اﷲ وجہہ فرماتے ہیں کہ ہم جس روز گناہ نہیں کرتے وہ دن ہمارے لیے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ظاہر سی بات ہے کہ وہ تقوٰی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اس لیے ہر گز گناہ نہیں کرتے تھے کیوں کہ متقی کہتے ہی اسے ہیں جو خدا و رسول ( ﷺ ) کی نافرمانی نہ کرے اور معصیت نام ہی نافرمانی کا ہے تو وہ معصوم تو نہیں تھے تاہم تقوٰی و طہارت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوکر ہر آلودگی سے پاک اور محفوظ ہوگئے تھے۔
لہٰذا معلوم ہوا کہ وہ گناہ تو کرتے نہیں تھے اس لیے ان کے اس فرمان سے ثابت یہی ہوتا ہے کہ ان کے لیے ہر دن عید کا ہی دن ہوتا تھا۔ اگر ہمیں بھی عید کی صحیح خوشیاں اور حقیقی مسرتیں حاصل کرنی ہیں تو نئے یا صاف ستھرے کپڑے پہن لینے سے اصل خوشی حاصل نہیں ہوگی کیوں کہ رُوحانی لذّات کے لیے صرف ظاہر ہی نہیں باطن کا تزکیہ بھی ضروری ہے۔ صرف کپڑوں کا اُجلا اور بدن کا ظاہری میل سے صاف ہونا تزکیہ نہیں بلکہ تزکیہ دل کا ایسے خیالات اور نظریات و عقائد سے پاک ہونا ہے جو کتاب و سنّت کے خلاف ہوں۔
اسی لیے فرمایا قد افلح من تزکّٰی وہی کامیاب ہوا جس نے پاکیزگی حاصل کی، سال کے بارہ مہینوں میں ایک مہینہ ہمیں اسی تربیت کے لیے عطا کِیا گیا کہ ہم پاکیزگی اختیار کریں، روزے کی غرض و غایت تقوٰی بیان کی گئی اور تقوٰی یہی ہے کہ خواہشاتِ نفس کو حاکم نہ بنایا جائے، لذّاتِ دُنیوی کو ہی مآل نہ سمجھا جائے۔ بلکہ نفس کے سرکش گھوڑے کی مہار شریعت و سنّت کی گرفت میں دے کر اسے صحیح حالت پر رکھا جائے اور زندگی کے اصل مقصد سے غافل نہ ہوا جائے۔
اگر غور کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ہم ایک مہینہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بَہ حالت ِ روزہ انتہائی پوشیدگی میں بھی حلال و طیب اشیاء نہیں کھاتے پیتے صرف اس لیے کہ اﷲ کا حکم نہیں تو جس اﷲ کے حکم پر ایک ماہ حلال و طیب سے منہ موڑ سکتے ہیں اس اﷲ جلَّ شانہٗ کے کہنے پر باقی گیارہ مہینے حرام و ممنوع سے کیوں گریز نہیں کرتے۔ اور روزہ اس کا قبول ہے جو ایمان و احتساب کے ساتھ رکھے۔ عقائد کی دُرستی بنیاد ہے۔کوئی عمل بھی عبادت اسی وقت متصور ہوگا جبکہ عامل صحیح اور سچا مومن ہو۔ ظاہری زمانۂ نبوی ( ﷺ ) میں منافق تمام ارکانِ اسلام ادا کرتے تھے مگر اﷲ قرآن میں فرماتا ہے وما ھم بمومنین، یہ منافق مومن نہیں، واﷲ یشھد ان المنفقین لکذبون، بے شک منافق اپنے دعویٰ ایمانی میں جھوٹے ہیں اور اس کی گواہی اﷲ دے رہا ہے۔
اگر صرف عمل پر انحصار کِیا جائے تو منافق بھی مومن کہلائے جائیں۔ ثابت ہوا کہ صرف عمل پر انحصار نہیں کیوں کہ بنیاد درست نہ ہو تو عمارت کی دُرستی تسلیم نہیں کی جاسکتی، عمارت کی بقا کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ ایمان بنیاد ہے اور منافق ہرگز مومن نہیں تھے، اﷲ فرماتا ہے فی قلوبھم مرضٌ ان کے دلوں میں مرض ہے، وہ مرض کوئی اختلاج یا انجائنا کا نہیں تھا بلکہ وہ بدعقیدگی تھی بَہ ظاہر کلمہ پڑھا کرتے تھے مگر قرآن و سنّت پر یقینِ کامل نہیں تھا اور مومنوں کے لیے فرمایا اولئک کتب فی قلوبھم الایمان مومن وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں ایمان نقش کردیا گیا ہے۔
اسی طرح قادیانی، مرزائی ختمِ نبوت نہیں مانتے اور ختمِ نبوت عمل کا نام نہیں عقیدے کا نام ہے اسی لیے وہ کافر مُرتد کہلاتے ہیں۔ تو ثابت ہوا جس کا عقیدہ درست نہیں وہ مومن نہیں تو عبادت کے لیے پہلی شرط ایمان ہے۔ ختمی مرتبت ( ﷺ ) نے فرمایا جو رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ اس کے گزشتہ کے تمام گناہ معاف ہوجائیں گے۔ احتساب جانچ پڑتال کا نام ہے کہ روزے دار کو بحالت ِ روزہ اپنے تمام اعضاء یہاں تک کہ قلب و ذہن پر ا تنا ضبط اور کنٹرول ہو کہ وہ ان سے کوئی غلطی خامی اور خلافِ شریعت و سنّت ظاہر نہ ہونے دے۔ یہی احتساب اگر ہر لمحے ہو تو بندے سے کوئی غلط فعل صادر ہی نہ ہو۔ جس شخص کو خدا تعالیٰ کے حاظر و ناظر ہونے پر یقین اور مشاہدہ حاصل ہوجائے پھر وہ نافرمانی نہیں کرتا۔
پورا مہینہ یہی تربیت ہمیں دی جاتی ہے چناں چہ بندۂ مومن ماہِ رمضان میں ظاہر و باطن کا تزکیہ کرکے فلاح و کام یابی حاصل کرتا ہے اور پھر فرمایا وذکر اسم ربہ فصلّٰی اور اپنے رب کا نام جَپتے ہوئے نماز ادا کرو، تو پورا مہینہ صرف اﷲ کی رضا کے لیے روزہ رکھ کر، تراویح میں قرآن سن کر، صدقہ و خیرات کی کثرت اور عبادت کے ذریعے بندہ تزکیہ حاصل کرکے اپنے رب کے نام کی تسبیح پڑھتے ہوئے ظاہر و باطن اُجلا کرکے عید گاہ جاتا ہے تو اﷲ تعالی اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے گواہ رہنا میں نے ان سب کو بخش دیا۔ یہی وہ صِلہ اور انعام ہے جو بندۂ مومن کا مطلوب و مقصود اور اس کی اصل خوشی ہے۔ اﷲ نے فرمایا روزہ میرے لیے ہے اور اس کی جزا بھی میرے ذِمّے ہے۔ ایک ارشاد میں فرمایا اس کی جزا خود میں ہی ہوں تو جس عمل کے ذریعے بندے کو خدا مل جائے اس کی لذّت اور اس سے ملنے والی راحت میں کیا شبہ ہوسکتا ہے۔
اسلام جِسے دِین ِ فطرت کہتے ہیں، اسے عقلی نقطۂ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو ہم پر اﷲ و رسول ( ﷺ ) کے احکام کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے اور ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہر حکم میں ہمارے لیے بھلائی، بہتری اور رحمتوں برکتوں کے بے شمار خزانے ہیں۔
رحمت ِ حق بہانہ می جوید ، بہانمی جوید ( سعدی )