پاکستان اور ہم
پاکستان میں عیدالفطر مذہبی جوش و خروش سے منائی جا تی ہے۔
NEW DEHLI:
پاکستان میں عیدالفطر مذہبی جوش و خروش سے منائی جا تی ہے۔ اس بار پھر ملک بھر میں ایک عید منانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اگست کا مہینہ بھی شروع ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب لٹی پٹی قوم نے آزادی ملنے کے بعد اپنی پہلی عید اس عزم کے ساتھ منائی تھی کہ وہ اس وطن کو انصاف، محبت، امن، رواداری اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنا کر پوری دنیا کے لیے مثال قائم کریں گے۔
ہمیں آزادی حاصل کیے 68 سال گزر گئے مگر یہ قوم اپنے ملک کو ایک مثالی بنانا تو درکنار پرامن اور پرسکون بنانے ہی میں ناکام ہو گئی۔ کراچی جو شہر قائد ، پاکستان کا تجارتی حب اور بڑی بندرگاہ ہے جس نے لٹے پٹے آنے والے مہاجرین کو زندگی کی نئی امیدیں اور خوشیاں دیں آج خود لہولہان ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس کے کسی بیٹے کا لاشہ نہ اٹھتا ہو۔ یہ ملک جسے دوسروں کو خوشیاں دینا تھیں، وہ خود دہشت گردی کے عفریت سے برسرپیکار ہے، لاکھوں آئی ڈی پیز اپنے گھروں سے دور ہیں۔ رب کائنات سے دعا کی جانی چاہیے کہ وہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے، اسے دہشت گردی سے پاک کر دے اور لاکھوں آئی ڈی پیز خیر و عافیت سے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی ملنے کے بعد اس قوم نے بہت سے شعبوں میں ترقی کی اور پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا ہے۔ آج پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، اس نے زراعت میں بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔
آج پاکستان زرعی اجناس، پھل، سبزیاں، کپاس اور ٹیکسٹائل مصنوعات بڑی تعداد میں برآمد کرتا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہنرمندوں نے مثالی کامیابیوں کے کئی سنگ میل عبور کیے ہیں۔ پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے، اس کی بہترین تربیت، مہارت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف پوری دنیا میں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے امن مشن میں پاکستانی افواج کی خدمات حاصل کرنے کو فوقیت دی اور پاکستانی افواج نے بھی ہر امتحان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ آج پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے جو اس کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
آزادی کے 68 برس میں قومی و ملکی کارکردگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو جہاں انفرادی و اجتماعی سطح پر بہترین کارکردگی اور قربانیوں کے پھول اس دھرتی کے دامن پر مسکراتے دکھائی دیتے ہیں وہاں نفرت، باہمی اختلافات، فرقہ واریت، قتل و غارت، کرپشن اور سرکاری خزانے میں ہونے والی لوٹ مار کے ناسور سے قومی جسم کراہتا بھی سنائی دیتا ہے۔ یہ شاخسانہ ہے اپنی منزل اور مقصد سے انحراف کا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے لاتعداد قربانیاں دیں۔ ان مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ گزرا ہو گا کہ جس وطن میں امن، خوشیوں، وسائل کی منصفانہ تقسیم، انصاف اور خوشحالی کے حصول کے لیے انھوں نے گھربار چھوڑا وہ وطن بتدریج ابتری، بے یقینی اور بدامنی کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
پاکستان تو رہا ایک جانب، آج عالم اسلام کی مجموعی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ فلسطین اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے۔ فلسطینی اپنے تباہ حال گھروں اور اپنے عزیزوں کی لاشوں پر عیدالفطر منا رہے ہیں۔ شام، عراق اور لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہو کر کھنڈر بنتے چلے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کا نعرہ ہر سال کی طرح اس سال بھی صرف نعرے تک محدود ہے۔ پاکستان میں ابھی تک سیاسی بے چینی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پٹڑی پر رینگتی ہوئی جمہوریت ابھی تک ڈی ریل ہونے کے خطرے سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے اور جموریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے تمام سیاست دانوں کو اپنی سیاسی روش کو بدلنا ہو گا۔ جب تک وہ اپنے سیاسی کردار میں تبدیلی نہیں لائیں گے، حالات میں بہتری کی امید کرنا عبث ہے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے نے صنعتی اور زرعی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔
ملک کو لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے مختصر المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے بنانے ہوں گے۔ کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے بلاامتیاز کارروائی کے لیے سیکیورٹی اداروں کو منظم اور جدید تربیت سے آراستہ کرنا ہو گا۔ وہ قوتیں جو ملک کے امن و امان کی دشمن ہیں، ان کے خلاف کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ نماز بھی سنگینوں کے سائے میں ادا کی جائے۔خوشیوں کے موقع پر اس کی خوشیوں میں ان ہم وطنوں کو بھی شریک کیا جانا چاہیے جو اسے منانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ پاکستان قدرت کا عطا کردہ انمول عطیہ ہے۔
اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی اور خوشحالی کی ذمے داری حکومت اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتیں رواداری، معاملہ فہمی اور افہام وتفہیم کا راستہ اپنائیں اور کسی ایسے فعل سے گریز کریں جس سے ملک میں کسی قسم کا بحران پیدا ہو یا بدامنی کی فضا جنم لے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خوداحتسابی کو دعوت دینی چاہیے۔ آیئے عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کا دامن امن، خوشحالی اور انصاف کے پھولوں سے بھر دیں تاکہ اس کا ہر آنے والا دن عید کا دن ہو۔
پاکستان میں عیدالفطر مذہبی جوش و خروش سے منائی جا تی ہے۔ اس بار پھر ملک بھر میں ایک عید منانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ اگست کا مہینہ بھی شروع ہونے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جب لٹی پٹی قوم نے آزادی ملنے کے بعد اپنی پہلی عید اس عزم کے ساتھ منائی تھی کہ وہ اس وطن کو انصاف، محبت، امن، رواداری اور ترقی و خوشحالی کا گہوارہ بنا کر پوری دنیا کے لیے مثال قائم کریں گے۔
ہمیں آزادی حاصل کیے 68 سال گزر گئے مگر یہ قوم اپنے ملک کو ایک مثالی بنانا تو درکنار پرامن اور پرسکون بنانے ہی میں ناکام ہو گئی۔ کراچی جو شہر قائد ، پاکستان کا تجارتی حب اور بڑی بندرگاہ ہے جس نے لٹے پٹے آنے والے مہاجرین کو زندگی کی نئی امیدیں اور خوشیاں دیں آج خود لہولہان ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اس کے کسی بیٹے کا لاشہ نہ اٹھتا ہو۔ یہ ملک جسے دوسروں کو خوشیاں دینا تھیں، وہ خود دہشت گردی کے عفریت سے برسرپیکار ہے، لاکھوں آئی ڈی پیز اپنے گھروں سے دور ہیں۔ رب کائنات سے دعا کی جانی چاہیے کہ وہ پاکستان کو امن کا گہوارہ بنا دے، اسے دہشت گردی سے پاک کر دے اور لاکھوں آئی ڈی پیز خیر و عافیت سے اپنے گھروں کو لوٹ جائیں۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ آزادی ملنے کے بعد اس قوم نے بہت سے شعبوں میں ترقی کی اور پاکستان کا نام عالمی سطح پر روشن کیا ہے۔ آج پاکستان میں دنیا کا بہترین نہری نظام ہے، اس نے زراعت میں بڑی تیزی سے ترقی کی ہے۔
آج پاکستان زرعی اجناس، پھل، سبزیاں، کپاس اور ٹیکسٹائل مصنوعات بڑی تعداد میں برآمد کرتا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز اور ہنرمندوں نے مثالی کامیابیوں کے کئی سنگ میل عبور کیے ہیں۔ پاکستان کی افواج کا شمار دنیا کی بہترین افواج میں ہوتا ہے، اس کی بہترین تربیت، مہارت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا اعتراف پوری دنیا میں کیا گیا ہے۔ اقوام متحدہ نے امن مشن میں پاکستانی افواج کی خدمات حاصل کرنے کو فوقیت دی اور پاکستانی افواج نے بھی ہر امتحان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔ آج پاکستان عالم اسلام کی پہلی ایٹمی قوت ہے جو اس کے سائنسدانوں اور انجینئروں کی ذاتی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
آزادی کے 68 برس میں قومی و ملکی کارکردگی کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو جہاں انفرادی و اجتماعی سطح پر بہترین کارکردگی اور قربانیوں کے پھول اس دھرتی کے دامن پر مسکراتے دکھائی دیتے ہیں وہاں نفرت، باہمی اختلافات، فرقہ واریت، قتل و غارت، کرپشن اور سرکاری خزانے میں ہونے والی لوٹ مار کے ناسور سے قومی جسم کراہتا بھی سنائی دیتا ہے۔ یہ شاخسانہ ہے اپنی منزل اور مقصد سے انحراف کا جس کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے لاتعداد قربانیاں دیں۔ ان مسلمانوں کے وہم و گمان میں بھی نہ گزرا ہو گا کہ جس وطن میں امن، خوشیوں، وسائل کی منصفانہ تقسیم، انصاف اور خوشحالی کے حصول کے لیے انھوں نے گھربار چھوڑا وہ وطن بتدریج ابتری، بے یقینی اور بدامنی کی دلدل میں دھنستا چلا جائے گا۔
پاکستان تو رہا ایک جانب، آج عالم اسلام کی مجموعی صورت حال بھی تسلی بخش نہیں۔ فلسطین اسرائیلی جارحیت کا شکار ہے۔ فلسطینی اپنے تباہ حال گھروں اور اپنے عزیزوں کی لاشوں پر عیدالفطر منا رہے ہیں۔ شام، عراق اور لیبیا خانہ جنگی کا شکار ہو کر کھنڈر بنتے چلے جا رہے ہیں۔ کشمیر کی آزادی کا نعرہ ہر سال کی طرح اس سال بھی صرف نعرے تک محدود ہے۔ پاکستان میں ابھی تک سیاسی بے چینی کا خاتمہ نہیں ہو سکا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق پٹڑی پر رینگتی ہوئی جمہوریت ابھی تک ڈی ریل ہونے کے خطرے سے باہر نہیں نکل سکی۔ اس ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے اور جموریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے تمام سیاست دانوں کو اپنی سیاسی روش کو بدلنا ہو گا۔ جب تک وہ اپنے سیاسی کردار میں تبدیلی نہیں لائیں گے، حالات میں بہتری کی امید کرنا عبث ہے۔ لوڈشیڈنگ کے مسئلے نے صنعتی اور زرعی شعبے کو نقصان پہنچایا ہے۔
ملک کو لوڈشیڈنگ کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے مختصر المیعاد اور طویل المیعاد منصوبے بنانے ہوں گے۔ کراچی اور بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی اور قتل و غارت کے سلسلے کو روکنے کے لیے بلاامتیاز کارروائی کے لیے سیکیورٹی اداروں کو منظم اور جدید تربیت سے آراستہ کرنا ہو گا۔ وہ قوتیں جو ملک کے امن و امان کی دشمن ہیں، ان کے خلاف کارروائی کا وقت آ گیا ہے۔ یہ کیسا عجیب معاملہ ہے کہ نماز بھی سنگینوں کے سائے میں ادا کی جائے۔خوشیوں کے موقع پر اس کی خوشیوں میں ان ہم وطنوں کو بھی شریک کیا جانا چاہیے جو اسے منانے کی مالی استطاعت نہیں رکھتے۔ پاکستان قدرت کا عطا کردہ انمول عطیہ ہے۔
اس کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی ترقی اور خوشحالی کی ذمے داری حکومت اور اپوزیشن دونوں پر عائد ہوتی ہے اس لیے تمام سیاسی جماعتیں رواداری، معاملہ فہمی اور افہام وتفہیم کا راستہ اپنائیں اور کسی ایسے فعل سے گریز کریں جس سے ملک میں کسی قسم کا بحران پیدا ہو یا بدامنی کی فضا جنم لے۔ ہمیں انفرادی اور اجتماعی سطح پر خوداحتسابی کو دعوت دینی چاہیے۔ آیئے عہد کریں کہ ہم اپنے وطن کا دامن امن، خوشحالی اور انصاف کے پھولوں سے بھر دیں تاکہ اس کا ہر آنے والا دن عید کا دن ہو۔