ریاست کو بدلنا ہو گا

پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا جس کی بنیاد عوام کی امنگوں اور امیدوں پر رکھی گئی تھی


اطہر قادر حسن March 12, 2025

جنگل میں شدید قحط پڑ گیا ، شیر نے بکری سے کہا کہ اس مشکل وقت میں قربانی دینی چاہیے، اس لیے تم چارہ ایک وقت کھاؤ گی اور دودھ تین مرتبہ دو گی۔ جنگل کے بادشاہ کی بات سن کربکری بولی کہ بادشاہ سلامت میں کمزور ، غریب ہی قربانی دیتی ہوں، اس مرتبہ طاقتور بھی قربانی دیں۔

شیر نے فوراً جواب دیا کہ تمہیں علم نہیں کہ قربانی حلال جانوروں کی ہوتی ہے، ہم تو سارے ہی حرام ہیں۔ شیر اور بکری کا یہ مکالمہ ہمارے حالات کاصحیح عکاس ہے ۔ شیر جو اشرافیہ کا نمایندہ گردانا جاتا ہے، اس نے بالکل درست کہا ہے کہ اشرافیہ کی قربانی حرام ہو گی اور کمزور عوام کی قربانی ہی قبول ہو گی کیونکہ یہ وہ قربانی ہے جو خون پسینے کی کمائی کے بعد دی جاتی ہے، اس لیے اسے حلال کا درجہ دیا ہے اور اپنی قربانی کو حرام قرار دیا ہے۔

عوام الناس کی قربانی کا تصور صدیوں پرانا ہے، عوام ہمیشہ سے ہی اشرافیہ کی دست برد کا نشانہ بنتے آئے ہیں ۔ہمارے ہاں جب بھی ملک کی سلامتی کی بات ہو، معیشت کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کا معاملہ ہو ، اشرافیہ قربانی کا بکرا عوام کو ہی بناتی ہے اور قوم سے ہی قربانی کا تقاضہ کیا جاتا ہے۔

ان قربانیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہماری قوم نے اپنا کچھ اپنے حکمرانوں پر قربان کر دیا ہے اور اپنے پاس صرف اتنا ہی چھوڑا ہے جس سے وہ جیسے تیسے زندگی گزار رہے ہیں۔ لیکن جب قربانی دینے والے عوام اپنے حکمرانوں کے اللے تللے دیکھتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے، کچھ ہی روز قبل عوام کے ووٹوں سے ’’منتخب ‘‘ہونے والے نمایندے جو اسمبلیوں میںبراجمان ہیں، انھوں نے بلا تخصیص کسی بھی جماعت کے نمایندہ ہونے کے اپنی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا ہے، تحریک انصاف سمیت وہ تمام جماعتیں جو اس اضافے کی مخالفت کر رہی تھیں، وہ خود بھی اس سے مستفید ہو رہی ہیں۔ ہمارے حکمران طبقے میں قول اور فعل کے اس تضاد نے حالات اس نہج تک پہنچا دیے ہیں کہ عوام اب ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔

جن ریاستوں میں عوام اور ریاست کا تعلق کمزور پڑجائے، وہ ریاستیں کمزور ہو جاتی ہیں۔ پاکستان میں عوام اور حکمرانوں کے تعلق کو تاریخی، سماجی اور سیاسی عوامل کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے اور اس کمزور ہوتے تعلق کی سب سے بڑی وجہ جمہوریت کی غیر مستحکم تاریخ ہے، اسلامی جمہوریہ پاکستان میںغیر جمہوری قوتوں کی ریاستی امور میں مداخلت نے عوام اور ریاست کے تعلق کو کمزور کیا ہے ۔ پاکستان ایک نظریاتی ریاست کے طور پر وجود میں آیا تھا جس کی بنیاد عوام کی امنگوں اور امیدوں پر رکھی گئی تھی ۔ ایک ایسی ریاست جس میں عوام کے حقوق کا تحفظ ، انصاف اور ہر شہری کو برابر مواقع ملیں ورنہ متحدہ ہندوستان میں بھی تو سب اکٹھے رہ ہی رہے تھے ۔

لیکن آج جب ہم اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ ریاست اور عوام کے درمیان فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ وہی ریاست ہے جس سے عوام کو امید تھی کہ یہ ان کے مسائل حل کرے گی مگر آج اسی ریاست نے اپنے آپ کو عوام کے سامنے سوالیہ نشان بنا دیا ہے ۔پاکستان میں ہر حکومت عوام سے بلند و بانگ دعوے کرتی ہے، ہر انتخابی مہم میں ترقی، خوشحالی اور عوامی فلاح و بہبود کے وعدے کیے جاتے ہیں لیکن جیسے ہی اقتدار کا تاج کسی کے سر پر سجتا ہے، عوام پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ مہنگائی ہو یا بیروزگاری، تعلیم ہو یا صحت، ہر شعبہ زبوں حالی کا شکار ہے۔ لوگ اپنے بنیادی حقوق کے لیے دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر ریاست کی مشینری کا پہیہ صرف اشرافیہ کے مفادات کے گرد گھوم رہا ہے جس سے عوامی اضطراب میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

ریاست اور عوام کے تعلق میں سب سے بڑی دراڑ عدم اعتماد ہے۔ طویل عرصہ کے انداز حکمرانی کو دیکھ کرعوام کو یقین نہیں کہ حکومت ان کے مسائل حل کرے گی کیونکہ وہ ماضی میں بارہا دھوکا کھا چکے ہیں۔ قانون صرف کمزور کے لیے سخت ہے جب کہ طاقتور ہمیشہ بچ نکلتا ہے۔ جب ریاست انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو جائے تو عوام کا نظام پر یقین متزلزل ہو جاتا ہے اور یہی پاکستان میں ہو رہا ہے۔جمہوری نظام عوام کی رائے اور شمولیت پر چلتا ہے بدقسمتی سے پاکستان میں جمہوریت کا مطلب صرف الیکشن جیتنا رہ گیا ہے۔ اقتدار میں آنے کے بعد حکمران عوام سے کٹ جاتے ہیں اور فیصلہ سازی میں انھیں شامل نہیں کیا جاتا۔ پارلیمنٹ میں عوامی فلاح کے لیے بحث مباحثے کم اور ایک دوسرے پرالزامات زیادہ نظر آتے ہیں۔آج پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ غربت ہے۔

غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل ہو گیا ہے لیکن افسوس کہ غربت کی چکی میں پسے عوام کو صرف تسلیاں ملتی ہیں ۔ ریاست کو عوام کے ساتھ تعلق کی مضبوطی اور اعتماد کی بحا لی کے لیے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے صرف نعروں سے کچھ نہیں ہوگا ،عدل و انصاف کا نظام درست کرنا ہوگا اور پالیسیوں میں عام آدمی کو ترجیح دینی ہوگی۔

ریاست کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر عوام خوشحال نہیں ہوں گے تو ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ریاست اور عوام کا رشتہ ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے جہاں حکومت والدین کی طرح ہوتی ہے اور عوام بچے اگر والدین اپنے بچوں کی ضروریات پوری نہ کریں ان کے ساتھ ناانصافی کریں اور انھیں تنہا چھوڑ دیں تو وہ باغی ہو جاتے ہیں۔ پاکستان میں بھی یہی ہو رہا ہے۔ عوام مایوس ہو رہے ہیں، احتجاج کر رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو خدانخواستہ ریاست اور عوام کے درمیان موجود یہ رشتہ مزید کمزور ہو سکتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ حکمران ہوش کے ناخن لیں اور اس خلیج کو پاٹنے کے لیے عملی اقدامات کریں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں