اسرائیلی جارحیت کو لگام دیں

غزہ کے علاقے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تازہ ترین وحشیانہ کارروائی نے سفاکی اور بربریت


Shakeel Farooqi July 28, 2014
[email protected]

غزہ کے علاقے میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی تازہ ترین وحشیانہ کارروائی نے سفاکی اور بربریت کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں کو لے جانے والی ایمبولینسوں کو بھی اپنی بربریت کا نشانہ بنا رہا ہے۔ عالم یہ ہے کہ سڑکوں اور گلی کوچوں میں ہر طرف لاشیں بکھری پڑی ہیں۔

اسپتالوں میں دواؤں کا کال پڑا ہوا ہے اور سیکڑوں زخمی علاج کے انتظار میں پڑے ہوئے بری طرح تڑپ رہے ہیں۔ دوسری جانب ہزاروں کی تعداد میں متاثرین کے نقل مکانی کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ افسوس کہ 1967 کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس بھی صیہونی ریاست کے قبضے میں چلا گیا اور اس کے نتیجے میں جنگ اس عظیم الشان خطے کا مقدر بن گئی۔

انبیائے کرام کی سرزمین فلسطین پر عیار و مکار صیہونیوں کے غاصبانہ قبضے کی کہانی بہت پرانی اور کافی طویل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو اپنی محبوب قوم بنایا تھا لیکن جب اس نے نافرمانی کی انتہا کردی تو اس پر اللہ تعالیٰ کا عذاب نازل ہونا شروع ہوگیا اور نتیجتاً یہ قوم تا قیامت راندہ درگاہ قرار دے دی گئی۔ احادیث مبارکہ میں اس قوم کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ عمر بھر دھکے کھاتی رہے گی۔ تاریخ عالم نے اس بات کو سچ ثابت کرکے دکھادیا۔

اسرائیل نے عربوں کی سرزمین پر قبضہ کرکے خواہ مخواہ کا تنازعہ کھڑا کردیا ہے۔ اس لیے اسرائیل ہی عملاً سارے فساد کی اصل جڑ ہے۔ اس کا اصل مقصد فلسطینیوں کی نسل کشی کرنا ہے۔ وہ میں نہ مانوں کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

اسے نہ کوئی لحاظ ہے نہ شرم۔ ہٹ دھرمی اس کی پالیسی کا بنیادی حصہ ہے۔ وہ کسی کی نہیں سنتا۔ اسے اقوام متحدہ کی بھی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ لبنان کے معاملے میں اس کا یہی رویہ تھا لیکن جوابی کارروائی ہونے کے نتیجے میں جب اس پر زک پڑی تھی تو اس نے اقوام متحدہ کو استعمال کرکے جنگ بندی کرالی تھی۔ سچی اور کھری بات یہ ہے کہ اسے امریکا کی پشت پناہی حاصل ہے جب کہ برطانیہ اس کا پرانا پٹھو اور اصل حمایتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اسرائیل کا وجود برطانیہ ہی کا مرہون منت ہے۔ ابتدا میں عرب لیگ نے کئی کوششیں کیں لیکن امریکا اور روس نے عملاً ان تمام کوششوں کو سبوتاژ کردیا۔ امریکی امداد سے اسرائیل زیادہ سے زیادہ عرب علاقوں پر قابض ہوتا چلا گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ قبضہ سچا اور دعویٰ جھوٹا۔

خلافت عثمانیہ کے آخری برسوں میں برطانیہ نے اس خطے پر اپنا قبضہ جمالیا اور اس کے بعد 17 ویں صدی کے آخر میں برطانیہ کے زیر سایہ یہودیوں کے اس علاقے میں منتقل ہوکر آباد ہونے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ ادھر جب ہٹلرکی قیادت میں نازی جرمنی کے دور میں ہالو کاسٹ کا آغاز ہوا تو اس علاقے میں یہودیوں کی آبادکاری میں تیزی آتی چلی گئی۔ عربوں نے اس صورتحال کے خلاف احتجاج کیا تو یہ سلسلہ پرتشدد مظاہروں کی صورت اختیار کرگیا۔

برطانیہ نے اس موقعے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک زبردست سیاسی چال چلی جس کے تحت دنیا بھر کے یہودیوں کو یہاں بسا بسا کر ''اسرائیل'' کے نام سے ایک باقاعدہ یہودی ریاست کے قیام کی دعوت دے دی۔ بس یہی فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال نکال کر دربدر کرنے کا نکتہ آغاز تھا۔ نتیجتاً بے چارے فلسطینیوں کو ایک بہت ہی چھوٹے علاقے تک محدود کردیا گیا۔ بعدازاں 1947 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ذریعے ایک قرارداد منظور کرالی گئی جس کے ذریعے فلسطین کو تقسیم کرکے ایک عرب اور ایک اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کردیا گیا۔ اس کے بعد برطانیہ نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس علاقے سے 1948 میں اپنی فوجیں واپس بلالیں اور 14 مئی 1948 کی منحوس تاریخ کو اسرائیل کی ناجائز حکومت قائم ہوگئی۔

عربوں نے اس بے ایمانہ اور عیارانہ تقسیم کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اس ناجائز تقسیم کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور مصر، اردن، شام، لبنان، عراق اور سعودی عرب نے نئی اسرائیلی ریاست پر حملہ کردیا جو انھیں بڑا مہنگا سودا پڑا کیونکہ برطانیہ اور امریکا کی پشت پناہی سے قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کی فوج نے نہ صرف اس حملے کو ناکام بنادیا بلکہ عربوں کے مزید علاقے جنگ میں چھین کر اپنی حدود میں مزید اضافہ کرلیا۔ 1949 میں اسرائیل اور عربوں کے درمیان صلح کے جو معاہدے ہوئے ان کے تحت اردن نے عرب اردن جب کہ مصر نے غزہ کی پٹی پر قبضہ کرلیا۔ اس کے نتیجے میں بے چارے فلسطینی ان دونوں ممالک کے باج گزار بن گئے۔

پھر 29 اکتوبر1958 کو حالات نے ایک نئی کروٹ لی اور اسرائیل نے برطانیہ اور فرانس کی مشترکہ مدد سے مصر سے صحرائے سینا کا اہم علاقہ چھین لیا اور اس کے بعد 1967 کی جنگ میں مصر سے غزہ کی پٹی بھی چھین لی اور مشرقی یروشلم کے علاقے، شام کی گولان کی پہاڑیوں اور غرب اعدن کے علاقے پر بھی قبضہ کرلیا۔ سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ ہر نئی جنگ کے بعد اسرائیل کا مزید علاقوں پر قبضہ ہوتا چلا گیا۔ 1967 کی جنگ میں اسرائیل کو سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس پر بھی قبضہ حاصل کرلیا اور اس کا نام یروشلم رکھ دیا۔

6 اکتوبر 1973 کو مصر اور شام نے مل کر یہودیوں کے مقدس دن ''یوم کپور'' Kippurکے موقعے پر اپنے کھوئے ہوئے علاقے آزاد کرانے کے لیے اسرائیل پر چڑھائی کردی لیکن انھیں اس جنگ میں شکست اور پسپائی کا سامنا کرنا پڑا۔ انجام کار مصر کی انورالسادات حکومت کو اسرائیل کے آگے گھٹنے ٹیکنے پڑے اور اسے تسلیم کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ 1981 میں اسرائیلی بمبار طیاروں نے بغداد کے نزدیک قائم عراق کا ایک ایٹمی ری ایکٹر بھی تباہ کردیا۔ 16 دسمبر 1982کو لبنان کے انتہا پسند عیسائیوں نے اسرائیل کی مدد سے فلسطینیوں کے دو مہاجرکیمپوں میں زبردستی گھس کر سیکڑوں فلسطینیوں کو شہید کردیا۔ ایک اندازے کے مطابق اسرائیل کے براہ راست حملوں کے نتیجے میں اب تک تقریباً 25 ہزار فلسطینی جام شہادت نوش کرچکے ہیں۔ اسرائیلی کارروائیوں اور پابندیوں کے نتیجے میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہے۔

سب سے دلچسپ اور قابل توجہ بات یہ ہے کہ صیہونی پوری دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ جیسے مسلمانوں نے ہی ان کی سرزمین پر قبضہ کیا ہو حالانکہ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ حضرت سلیمانؑ کی وفات کے بعد اسرائیل کی متحدہ ریاست اندرونی انتشار اور خلفشار کا شکار ہوکر خود اپنے ہی ہاتھوں تباہ و برباد ہوگئی تھی اور بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کا بالکل خاتمہ کردیا تھا۔ مسلمانوں نے بعدازاں اس علاقے کو پرامن طریقے سے فتح کیا تھا جس کے بعد علاقے کے لوگوں نے اپنی مرضی سے اور کسی قسم کے جبر اور دباؤ کے بغیر اپنے دیدہ و دل پرامن مسلمان فاتحین کی خاطر فرش راہ کردیے تھے۔

اسرائیل کی دیدہ دلیری اور جارحیت و بربریت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امن عالم کا سب سے بڑا اور کھلا ہوا دشمن اسرائیل ہی ہے۔ اسرائیل ہی دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو اقوام متحدہ کو خاطر میں نہیں لاتا اور اس کی ہدایات اور قراردادوں کی سب سے زیادہ اور کھلم کھلا خلاف ورزیاں بھی کرتا ہے۔ سچ پوچھیے تو اس نے امن عالم کو یرغمال بنارکھا ہے اور فلسطینیوں کو اپنے بے انتہا ظلم و ستم اور جارحیت و بربریت کا نشانہ بنا رکھا ہے۔

عالمی میڈیا پر یہودیوں کا کنٹرول ہونے کے سبب اسرائیلی جارحیت پر ایک عرصہ دراز سے پردہ پڑا رہا مگر اب صورتحال رفتہ رفتہ تبدیل ہو رہی ہے اور اصل حقائق دنیا کے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ بدقسمتی سے دنیا کی واحد سپرپاور امریکا پر بھی یہودی لابی کو زبردست غلبہ حاصل ہے اور امریکی سیاست اور معیشت پر اس کے اثرات بڑے گہرے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے چوتھی مرتبہ برہنہ جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ یہودی لابی اتنی مضبوط ہے کہ اسرائیلی جارحیت کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز تھوڑی دیر کے بعد دب جاتی ہے۔

مگر سب سے زیادہ دکھ اس بات کا ہے کہ فلسطین کے موقف کو سب سے زیادہ نقصان عرب ریاستوں کی بے حسی کی وجہ سے پہنچ رہا ہے اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا بھر کے مسلمان اسرائیلی جارحیت کے خلاف متحد ہوجائیں اور سب سے بڑے اور انتہائی کارگر حربے کے طور پر یہودیوں کی مصنوعات کا مکمل طور پر اور اعلانیہ بائیکاٹ کردیں۔عالمی قوتوں کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ خاموش تماشائی نہ بنی رہیں اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہیں۔ اگر اب بھی ایسا نہ ہوا تو وہ دن دور نہیں جب خود ان کا ضمیر ہی ان کے وجود کو ختم کر ڈالے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں