عید عید کی طرح منائیں
جب سے میں نے مبینہ طور پر ہوش سنبھالا ہے تب سے سن رہا ہوں کہ فلاں فلاں وجہ کے سبب اس برس بھی عید سادگی سے منائی جائے
جب سے میں نے مبینہ طور پر ہوش سنبھالا ہے تب سے سن رہا ہوں کہ فلاں فلاں فلاں وجہ کے سبب اس برس بھی عید سادگی سے منائی جائے۔ جب جب یہ جملہ سنتا ہوں تب تب سوچتا ہوں کہ فلاں فلاں فلاں مسئلے کے سبب عید سادگی سے منانے کا آخر کیا مطلب اور فائدہ ہے؟
کیا سفید لٹھے کے شلوار قمیض پر استری نہ کرنے سے لاپتہ افراد کے ورثا کی تشفی ہو جائے گی؟ سویوں میں چینی نہ ڈالنے سے چاند رات کو ٹارگٹ کلنگ میں مارے جانے والے کی گود سے گرنے والی ڈیڑھ سالہ بچی کو لگنے والی چوٹ کم ہو جائے گی؟ نئے جوتے نہ خریدنے سے کسی وزیرستانی کے چہرے پر خوشی آجائے گی؟ بغیر پالش کے جوتے پہننے سے آپ سمجھ جائیں گے کہ میں عید سادگی سے منا رہا ہوں؟ اپنے بچے کو دو کے بجائے ایک غبارہ دلانے سے دوسرے غبارے کی خوشی غزہ کے کسی تین سالہ زخمی بچے کے چہرے پر کھیلنے لگے گی؟ بغیر میوے کا شیرخورمہ کسی ہندو یا عیسائی ہمسائے کو بھجوانے سے وہ سمجھ جائے گا کہ میں نے اس خوشی کے تہوار کو اس کے روزمرہ سنگین مسائل کے نام معنون کردیا ہے؟
اچھا جی عید اس دفعہ بھی سادگی سے منا لیتے ہیں مگر یہ تو بتا دیں کہ اس ارضِ پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو عید سادگی کے بجائے دھوم دھڑکے اور کھلے دل کے ساتھ خرچہ کرکے منانے کی سکت رکھتے ہیں؟ شائد بیس فیصد؟ پچیس فیصد؟ تیس فیصد؟ اور کتنے لوگ ہیں جو صرف اپنے بچوں کے لیے نیا جوڑا بنانے اور جوتا خریدنے کی جرات کرتے ہیں وہ بھی اس مجبوری میں کہ اب بچوں کو کیا سمجھائیں کہ سادہ عید کسے کہتے ہیں۔
جن لوگوں کا ہر روز، روزِ عید اور ہر شب، شبِ برأت ہے وہ اگر عید کا دن سادگی سے منائیں تو کوئی بات بھی ہے۔ جس نے سال کے تین سو چونسٹھ دن پیاز پھوڑ تے ہوئے لال مرچ کڑوے تیل میں توے پر کڑکڑا کے باسی روٹی پر لگا کے کھانا ہے اور گوشت کھانے کے لیے کسی شادی، کسی مرگ، کسی خیرات یا بڑی عید کا انتظار کرنا ہے وہ بروزِ عید زیادہ سے زیادہ کتنی عیاشی کر لے گا، کیا بھاڑ پھوڑ لے گا۔
ہاں گزشتہ برس صرف دو کروڑ نفوس کی آبادی والے کراچی نے عید کی خریداری پر ساٹھ ارب روپے خرچ کیے اور اس برس عید شاپنگ پر اسی (80) ارب روپے خرچ کردیے لیکن اسی ارب میں اتنی ہی چیزیں خریدی جا سکیں جتنی گزشتہ برس ساٹھ ارب میں خریدی گئی تھیں۔ اسی کراچی میں تیس فیصد آبادی وہ بھی ہے جسے اپنے بچے کو عید کے موقع پر ایک معمولی سا نیا جوتا یا جوڑا دلانے کے لیے بھی کسی مخیر یا قرضئی کی مدد درکار ہوتی ہے۔ ( باقی شہروں والے اپنے ارگرد کے حالات کا اندازہ خود لگائیں)
ہاں گزشتہ برس پاکستانیوں نے ایک سو چھیالیس ملین ڈالر لنڈے بازار کے کپڑوں پر خرچ کیے اور اس سال ایک سو بیاسی ملین ڈالر کے سیکنڈ ہینڈ کپڑے فروخت ہوں گے یعنی عید کی خریداری میں بیس فیصد اضافے کے ساتھ ساتھ اترن کے کپڑوں کی خرید و فروخت میں بھی بیس تا پچیس فیصد اضافہ ہوا ہے۔
دیکھا! آپ کی سادگی کے بھاشن کے چکر میں آ کر میں بھی کیسی بہکی بہکی باتیں کرنے لگا ہوں مگر جس طرح یہ بات آج تک میرے پلے نہیں پڑی کہ عید سادگی سے منانے کا کیا مطلب ہے، اسی طرح یہ بات بھی سمجھنا چاہتا ہوں کہ یہ سادگی کی تلقین ہمیشہ حکمران ہی کیوں کرتے ہیں۔ یا تو وہ سادے ہیں یا پھر پبلک کو سادہ سمجھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ حکمرانوں کے ہر بھاشن کو ہمیں شک و شبہ سے دیکھنا چاہیے۔ ہم نے چونکہ انھیں اپنے ووٹوں سے منتخب کیا ہے لہٰذا ان کی اچھی تلقین کو سنجیدگی سے لینا اور اس پر عمل کرنا بطور شہری اور ووٹر ہمارا فرض ہے۔
اس پرمسرت موقع پر ہمیں ان سے ایسی باتیں بالکل نہیں پوچھنی چاہئیں کہ اہلِ محلات عید کے موقع پر کس طرح سادگی کا مظاہرہ کرتے ہیں؟ کیا وہ اپنے پرانے اور استعمال شدہ کپڑے غریب ملازمین میں تقسیم کردیتے ہیں؟ کیا وہ ان ملازمین کو عید کے موقع پر اپنے ساتھ بٹھا کے کھانا وانا کھلاتے ہیں؟ کیا وہ ڈرائیور، خانساماں، دھوبی، نائی، بہشتی، چوکیدار، مالی، خاکروب وغیرہ کے ساتھ ایک ہی صف میں نمازِ عید پڑھتے ہیں؟ کیا وہ ان سے تین مرتبہ گلے ملتے ہوئے خاموشی سے عیدی ان کی جیب میں ڈال دیتے ہیں یا پھر ان میں سے کسی ایک کو عیدی تھما کے کہتے ہیں کہ تم تم تم اور فلاں فلاں فلاں آپس میں بانٹ لو۔ کیا وہ اپنے اسٹاف کو عید کے موقع پر اس جذبے کے ساتھ چھٹی دیتے ہیں کہ یار تمہارے بھی بال بچے ہیں، جاؤ ان کے ساتھ عید کے دو دن گزار لو۔ اس دوران میں اور میری بیوی اور بچے کچن کا کام دیکھ لیں گے، اپنا جوڑا استری کر لیں گے، جوتا پالش کرلیں گے، گاڑی خود ڈرائیو کرلیں گے، پودوں کو پانی دے لیں گے اور ملاقاتیوں کے لیے اپنے ہاتھ سے دروازہ بھی کھول دیں گے۔
عید ہم کیوں مناتے ہیں؟ اس لیے کہ یہ سنت ہے۔ تو کیا کبھی عید کا تہوار متعارف کروانے والے نبیؐ کو بھی اردگرد کے لوگوں سے ایک بار سے زائد کہنا پڑا کہ عید کے موقع پر سب سے پہلے خدا کا شکر ادا کرو اور پھر ہر ایک کو اپنی بساط کے مطابق خوشی میں شریک کرو۔ اجتماعی خوشی کا اور کیا مطلب ہوتا ہے؟
ہاں پاکستان غریب اور مسائل زدہ سہی لیکن یہاں کے لوگ رمضان کے موقع پر صدقہ خیرات میں کسی سے پیچھے نہیں۔ ہر رمضان میں انفرادی سطح پر بیس سے پچیس ارب روپے اس مد میں خرچ ہوتے ہیں لیکن اتنی بڑی رقم چونکہ منصوبہ بند طریقے سے فلاحی نظام کی تشکیل میں استعمال نہیں ہو پاتی اس لیے ہر سال صدقہ و خیرات و زکوٰۃ لینے والوں کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انفرادی خیرات و صدقہ کسی جبر کا نتیجہ نہیں بلکہ خوشی کا سودا ہے مگر ہر سال حکومت زکوٰۃ کے نام پر بینک کھاتوں سے پچھلے چونتیس برس سے جو اربوں روپے کاٹ رہی ہے وہ کن مستحقین پر اور کس کس شکل میں خرچ ہو رہے ہیں اور اگر درست طریقے سے خرچ ہو رہے ہیں تو چند ہزار لوگوں کی ہی سہی مگر حالت بدلی ہوئی کیوں نظر نہیں آتی۔ یہی سالانہ بھاشن ہی کیوں سننے کو ملتا ہے کہ اس بار بھی عید سادگی سے منائی جائے۔
آپ میری باتوں پر اگر دھیان دیتے رہیں گے تو میں بھی یونہی اول فول بکتا رہوں گا۔ بہتر یہی ہے کہ آج کے اخبار کی ایک ایک سطر چاٹنے کے بجائے اپنے بچوں اور بڑوں کے ساتھ بیٹھ کر ان سے وہ وہ باتیں کریں اور سنیں جنھیں سال بھر کہنے سننے کا موقع نہیں ملتا۔ اگلی عید کا انتظار کیے بغیر۔
اور پلیز اس طرح کے ایس ایم ایس بھیجنے سے کم ازکم آج کے دن تو گریز کر لیں کہ
مبارک کہہ نہیں سکتا
میرا دل کانپ جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ...
آپ کی بہت مہربانی اور عید مبارک۔
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )