خواہشوں اور خدشوں بھری عید
ایک زمانہ تھا کہ عید کے حوالے سے کالم کچھ اس طرح کے اشعار سے شروع ہوا کرتے تھے:
ایک زمانہ تھا کہ عید کے حوالے سے کالم کچھ اس طرح کے اشعار سے شروع ہوا کرتے تھے:
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے' موقع بھی ہے' دستور بھی ہے
روئے جاناں کی دید ہو جائے
تو ہماری بھی عید ہو جائے
زہے قسمت ہلال عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
یا اگر کالم نگار ذرا اکھڑے ہوئے موڈ میں ہوتا تو میر صاحب کی طرف بھی رجوع کر لیتا تھا کہ
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں
شادی و غم میں جہاں کے' ایک سے دس کا ہے فرق
عید اک دن ہنسئے تو دس دن محرم رویے
لیکن اب گزشتہ کئی عیدوں سے ہمارے یہاں کی عید ایک تیسرے دائرے میں داخل ہو گئی ہے کہ ذاتی غم اور خوشیاں دونوں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور عید ایک اجتماعی نوعیت کے ایسے منظرنامے میں بدل گئی ہے جس میں خواہش اور خدشے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک طرح کی کیٹ واک کرتے پھر رہے ہیں۔ ایک طرف وطن کے اندر ہمیں دہشت گردی اور آئی ڈی پیز کے مسائل کے ساتھ ساتھ بجلی' گیس' تعلیم' صحت' بیروز گاری اور استحصال کے مختلف مظاہر نے گھیر رکھا ہے اور دوسری طرف توانائی کے بحران سے نمٹنے' میٹرو بسیں چلانے' زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور وطن کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے حکومتی دعوے ہیں۔
مبالغے اور جذباتیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو دونوں میں کم یا زیادہ سچائی موجود ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر جہاں ایک طرف اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں' ان کے بچوں اور عورتوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور صدر امریکا باراک اوباما وائٹ ہاؤس میں امریکی مسلمانوں کو دی گئی ایک روایتی افطار پارٹی میں ان سے ہمدردی کرنے کے بجائے اسرائیل کی جارحیت کو جائز اور قانونی قرار دے رہا ہے اور دوسری طرف ساری مسلمان دنیا (بالخصوص ان کے حکمران جو چوروں کی طرح سر جھکائے بیٹھے ہیں) خاموش اور انگشت بدنداں ہے کہ اس کا ہر معاشرہ اپنے اندرونی اور گوناگوں تضادات کے جال میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں تعلیم' کھیل' تجارت یا کسی اور شعبے سے کوئی اچھی خبر آتی بھی ہے تو اس کا دورانیہ اس قدر مختصر اور حادثاتی نوعیت کا ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کی باقاعدہ اور باضابطہ ترقی کا کوئی اشارہ خال خال ہی مل پاتا ہے۔ اب ایسے میں عید کا استقبال کیسے کیا جائے۔
برادر عزیز ہمایوں احسان نے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اس بات پر خصوصی زور دیا کہ ہم مسلمان تعداد میں ڈیڑھ ارب اور قدرتی وسائل میں خاصے مالدار ہونے کے باوجود بطور ایک امت اور قوم کے مسلسل نیچے ہی نیچے گرتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم منفی چیزوں اور بوسیدہ افکار اور اقدار کے دائرے میں گھومتے چلے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی' مسلک پرستی' بے جا جذباتیت' جہالت' جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے دوری بلکہ دشمنی کا رویہ ہماری پہچان بن چکا ہے اور جب تک فرد سے لے کر جماعت کی سطح تک اس رویے کو ترک نہیں کیا جائے گا نہ ہمارا حال بہتر ہو گا اور نہ مستقبل۔ میں ان کے اس تجزیے سے 95% اتفاق کرتا ہوں اور جو 5% اختلاف ہیں اس کا تعلق نتائج سے نہیں بلکہ اس تاریخی پس منظر کی نوعیت کو دیکھنے اور سمجھنے سے ہے جس کی وجہ سے یہ نتائج رونما ہوئے ہیں۔
عید کے حوالے سے ایک قومی اور مقامی نوعیت کا مسئلہ رویت ہلال کا بھی ہے کہ ہر بار رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے برعکس کچھ خاص علاقوں میں عید' سعودی عرب کے ساتھ منائی جاتی ہے اس سے قطع نظر کہ یہ بات غیرمنطقی ہونے کے ساتھ ساتھ سائنسی اعتبار سے بھی انتہائی غلط ہے۔
ہر بار ہمارا معاشرہ اور حکومتیں دونوں اس مسئلے پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مانا کہ قمری کیلنڈر کے مخصوص مسائل کی وجہ سے ہم کرسمس کی طرح دنیا بھر میں عید ایک ہی دن نہیں منا سکتے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے یہ فیصلہ تو کیا جا سکتا ہے کہ کسی ایک ملک میں عید کا دن ایک ہی ہو یہ کام قانون سازی کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے اور اعتماد سازی کی مدد سے بھی۔ مسائل دونوں طریقوں میں ہیں البتہ اعتماد سازی کا راستہ نسبتاً طویل ہے کہ اس کے لیے عوام کی جہالت اور ایک مخصوص ''مذہب پرست'' طبقے کی غلط سوچ کو محنت اور محبت سے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کہ دونوں کی مثالیں مختلف مسلمان ملکوں کے علاوہ ایسے غیرمسلم علاقوں میں بھی موجود ہیں جہاں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
عید کے راستے میں موجود دیگر خدشوں میں لوڈشیڈنگ' مہنگائی اور وہ عمومی نفسانفسی کا عالم ہے جس نے اس خوبصورت' متبرک اور خوش آیند تہوار کی خوشیوں کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ بازار کی رونق صرف اشیا کی فراوانی اور خریداروں کی قوت خرید ہی سے متعین نہیں ہوتی، اس کے اور بہت سے ایسے تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کے ذہن اور روح سے ہوتا ہے۔ ذہن پریشان اور روح افسردہ ہو تو ''رونق'' کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ہجوم اور قافلے کے فرق کی طرح رونق اور مسرت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ یہ وہی فرق ہے جو عید کی خوشیاں مانگنے یا عید کا دن خیر سے گزر جانے کی دعاؤں میں ہوتا ہے۔
میں فطری طور پر ایک رجائیت پسند مگر حقیقت پسند انسان ہوں، سو میں خدشوں اور خواہشوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے بجائے انھیں ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں یعنی گنے اور اَن گنے خدشوں کی اس طویل فہرست کے سامنے جب میں خواہشوں کو دلیلوں کی شکل میں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی نوجوان نسل کے اجتماعی شعور اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنی 67 سالہ تاریخ کے کچھ روشن پہلو اور مظاہر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ ضرورت سے زیادہ یاسیت پسند لوگ ان سے زیادہ اتفاق نہ کریں لیکن یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔
آخر میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ بھی تو ان کے ''خدشوں'' سے مکمل اتفاق نہیں کرتے۔ فارسی کا ایک مصرعہ ہے ''صورت ازبے صورتی آید بروں'' جس کا مفہوم یہ ہے کہ صورت بے صورتی کے اندر سے ہی ظاہر ہوا کرتی ہے۔ تو اس وقت یہ جو ملکی سطح پر عوامی انقلاب' لانگ مارچ' حکومتی اعلانات کے شور اور حزب اختلاف کے یس نو، یس نو کی سیاست کا زور ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی تمام تر جہالت' بے حسی اور بے اتفاقی کے باوجود مغرب میں ''تہذیبوں کی جنگ'' کا ڈرامہ ہے، یہ سب اسی بے صورتی کی شکلیں ہیں جن میں سے ''صورت'' کو ظہور پذیر ہونا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ہم مل جل کر اپنی اصلاح کریں گے تو یہ صورت نسبتاً جلد تشکیل پا لے گی کیونکہ ایک بات طے ہے کہ ظلم اور بے انصافی پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کو ایک دن ختم ہونا ہے اور ظاہر ہے اس کی جگہ کوئی دوسرا نظام ہی لے گا کہ خلا کا وجود فطرت کو گوارا ہی نہیں ہوتا۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس نئے نظام کے قیام میں ہمارا حصہ کیا ہو گا؟ اور اس منظر میں خود ہم کہاں ہوں گے؟ آئیے اس عید پر مل کر دعا کریں کہ رب کریم ہماری گزشتہ خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے اور ہم ان سے سبق سیکھنے اور اس سبق پر عمل کرنے کے قابل ہو جائیں کہ خواہشوں کو سراب اور خدشوں کو سیلاب بننے سے روکنے کا اب یہی ایک طریقہ ہے اور جہاں تک خدشوں کے پجاریوں اور سوداگروں کا تعلق ہے تو ان کی خدمت میں میں یگانہ کی یہ
لاجواب رباعی پیش کرتا ہوں کہ
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو
یا جیتے ہی جی مردوں سے رشتہ جوڑو
کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو' بے کار
بڑھتے ہو بڑھو' نہیں تو رستہ چھوڑو
اپنی محنت اور اللہ کی رحمت پر یقین رکھنے والے تمام دوستوں کو بہت بہت عید مبارک۔
عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم
رسم دنیا بھی ہے' موقع بھی ہے' دستور بھی ہے
روئے جاناں کی دید ہو جائے
تو ہماری بھی عید ہو جائے
زہے قسمت ہلال عید کی صورت نظر آئی
جو تھے رمضان کے بیمار ان سب نے شفا پائی
یا اگر کالم نگار ذرا اکھڑے ہوئے موڈ میں ہوتا تو میر صاحب کی طرف بھی رجوع کر لیتا تھا کہ
ہوئی عید سب نے پہنے طرب و خوشی کے جامے
نہ ہوا کہ ہم بھی بدلیں یہ لباس سوگواراں
شادی و غم میں جہاں کے' ایک سے دس کا ہے فرق
عید اک دن ہنسئے تو دس دن محرم رویے
لیکن اب گزشتہ کئی عیدوں سے ہمارے یہاں کی عید ایک تیسرے دائرے میں داخل ہو گئی ہے کہ ذاتی غم اور خوشیاں دونوں کہیں پیچھے رہ گئے ہیں اور عید ایک اجتماعی نوعیت کے ایسے منظرنامے میں بدل گئی ہے جس میں خواہش اور خدشے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک طرح کی کیٹ واک کرتے پھر رہے ہیں۔ ایک طرف وطن کے اندر ہمیں دہشت گردی اور آئی ڈی پیز کے مسائل کے ساتھ ساتھ بجلی' گیس' تعلیم' صحت' بیروز گاری اور استحصال کے مختلف مظاہر نے گھیر رکھا ہے اور دوسری طرف توانائی کے بحران سے نمٹنے' میٹرو بسیں چلانے' زرمبادلہ کے ذخائر بڑھانے اور وطن کو شرپسندوں سے پاک کرنے کے حکومتی دعوے ہیں۔
مبالغے اور جذباتیت سے ہٹ کر دیکھا جائے تو دونوں میں کم یا زیادہ سچائی موجود ہے۔ اسی طرح بین الاقوامی سطح پر جہاں ایک طرف اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں' ان کے بچوں اور عورتوں کا قتل عام ہو رہا ہے اور صدر امریکا باراک اوباما وائٹ ہاؤس میں امریکی مسلمانوں کو دی گئی ایک روایتی افطار پارٹی میں ان سے ہمدردی کرنے کے بجائے اسرائیل کی جارحیت کو جائز اور قانونی قرار دے رہا ہے اور دوسری طرف ساری مسلمان دنیا (بالخصوص ان کے حکمران جو چوروں کی طرح سر جھکائے بیٹھے ہیں) خاموش اور انگشت بدنداں ہے کہ اس کا ہر معاشرہ اپنے اندرونی اور گوناگوں تضادات کے جال میں بری طرح الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں تعلیم' کھیل' تجارت یا کسی اور شعبے سے کوئی اچھی خبر آتی بھی ہے تو اس کا دورانیہ اس قدر مختصر اور حادثاتی نوعیت کا ہوتا ہے جس سے ملک و قوم کی باقاعدہ اور باضابطہ ترقی کا کوئی اشارہ خال خال ہی مل پاتا ہے۔ اب ایسے میں عید کا استقبال کیسے کیا جائے۔
برادر عزیز ہمایوں احسان نے گزشتہ روز ایک ٹی وی پروگرام کی ریکارڈنگ کے دوران اس بات پر خصوصی زور دیا کہ ہم مسلمان تعداد میں ڈیڑھ ارب اور قدرتی وسائل میں خاصے مالدار ہونے کے باوجود بطور ایک امت اور قوم کے مسلسل نیچے ہی نیچے گرتے جا رہے ہیں کیونکہ ہم منفی چیزوں اور بوسیدہ افکار اور اقدار کے دائرے میں گھومتے چلے جا رہے ہیں جس کے نتیجے میں مذہبی انتہا پسندی' مسلک پرستی' بے جا جذباتیت' جہالت' جدید علوم اور ٹیکنالوجی سے دوری بلکہ دشمنی کا رویہ ہماری پہچان بن چکا ہے اور جب تک فرد سے لے کر جماعت کی سطح تک اس رویے کو ترک نہیں کیا جائے گا نہ ہمارا حال بہتر ہو گا اور نہ مستقبل۔ میں ان کے اس تجزیے سے 95% اتفاق کرتا ہوں اور جو 5% اختلاف ہیں اس کا تعلق نتائج سے نہیں بلکہ اس تاریخی پس منظر کی نوعیت کو دیکھنے اور سمجھنے سے ہے جس کی وجہ سے یہ نتائج رونما ہوئے ہیں۔
عید کے حوالے سے ایک قومی اور مقامی نوعیت کا مسئلہ رویت ہلال کا بھی ہے کہ ہر بار رویت ہلال کمیٹی کے اعلان کے برعکس کچھ خاص علاقوں میں عید' سعودی عرب کے ساتھ منائی جاتی ہے اس سے قطع نظر کہ یہ بات غیرمنطقی ہونے کے ساتھ ساتھ سائنسی اعتبار سے بھی انتہائی غلط ہے۔
ہر بار ہمارا معاشرہ اور حکومتیں دونوں اس مسئلے پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ مانا کہ قمری کیلنڈر کے مخصوص مسائل کی وجہ سے ہم کرسمس کی طرح دنیا بھر میں عید ایک ہی دن نہیں منا سکتے کیونکہ جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کر کے یہ فیصلہ تو کیا جا سکتا ہے کہ کسی ایک ملک میں عید کا دن ایک ہی ہو یہ کام قانون سازی کے ذریعے بھی کیا جا سکتا ہے اور اعتماد سازی کی مدد سے بھی۔ مسائل دونوں طریقوں میں ہیں البتہ اعتماد سازی کا راستہ نسبتاً طویل ہے کہ اس کے لیے عوام کی جہالت اور ایک مخصوص ''مذہب پرست'' طبقے کی غلط سوچ کو محنت اور محبت سے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ واضح رہے کہ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں کہ دونوں کی مثالیں مختلف مسلمان ملکوں کے علاوہ ایسے غیرمسلم علاقوں میں بھی موجود ہیں جہاں مسلمان رہائش پذیر ہیں۔
عید کے راستے میں موجود دیگر خدشوں میں لوڈشیڈنگ' مہنگائی اور وہ عمومی نفسانفسی کا عالم ہے جس نے اس خوبصورت' متبرک اور خوش آیند تہوار کی خوشیوں کو دھندلا کر رکھ دیا ہے۔ بازار کی رونق صرف اشیا کی فراوانی اور خریداروں کی قوت خرید ہی سے متعین نہیں ہوتی، اس کے اور بہت سے ایسے تقاضے بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق لوگوں کے ذہن اور روح سے ہوتا ہے۔ ذہن پریشان اور روح افسردہ ہو تو ''رونق'' کے معنی بدل جاتے ہیں۔ ہجوم اور قافلے کے فرق کی طرح رونق اور مسرت میں بھی فرق ہوتا ہے۔ یہ وہی فرق ہے جو عید کی خوشیاں مانگنے یا عید کا دن خیر سے گزر جانے کی دعاؤں میں ہوتا ہے۔
میں فطری طور پر ایک رجائیت پسند مگر حقیقت پسند انسان ہوں، سو میں خدشوں اور خواہشوں کو ایک دوسرے میں ضم کرنے کے بجائے انھیں ساتھ ساتھ رکھ کر دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں یعنی گنے اور اَن گنے خدشوں کی اس طویل فہرست کے سامنے جب میں خواہشوں کو دلیلوں کی شکل میں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنی نوجوان نسل کے اجتماعی شعور اور صلاحیت کے ساتھ ساتھ اپنی 67 سالہ تاریخ کے کچھ روشن پہلو اور مظاہر بھی دکھائی دیتے ہیں۔ ممکن ہے کچھ ضرورت سے زیادہ یاسیت پسند لوگ ان سے زیادہ اتفاق نہ کریں لیکن یہ کوئی ایسی بڑی بات نہیں۔
آخر میں اور مجھ جیسے بہت سے لوگ بھی تو ان کے ''خدشوں'' سے مکمل اتفاق نہیں کرتے۔ فارسی کا ایک مصرعہ ہے ''صورت ازبے صورتی آید بروں'' جس کا مفہوم یہ ہے کہ صورت بے صورتی کے اندر سے ہی ظاہر ہوا کرتی ہے۔ تو اس وقت یہ جو ملکی سطح پر عوامی انقلاب' لانگ مارچ' حکومتی اعلانات کے شور اور حزب اختلاف کے یس نو، یس نو کی سیاست کا زور ہے اور بین الاقوامی سطح پر مسلمانوں کی تمام تر جہالت' بے حسی اور بے اتفاقی کے باوجود مغرب میں ''تہذیبوں کی جنگ'' کا ڈرامہ ہے، یہ سب اسی بے صورتی کی شکلیں ہیں جن میں سے ''صورت'' کو ظہور پذیر ہونا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر ہم مل جل کر اپنی اصلاح کریں گے تو یہ صورت نسبتاً جلد تشکیل پا لے گی کیونکہ ایک بات طے ہے کہ ظلم اور بے انصافی پر مبنی اس سرمایہ دارانہ نظام کو ایک دن ختم ہونا ہے اور ظاہر ہے اس کی جگہ کوئی دوسرا نظام ہی لے گا کہ خلا کا وجود فطرت کو گوارا ہی نہیں ہوتا۔ اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ اس نئے نظام کے قیام میں ہمارا حصہ کیا ہو گا؟ اور اس منظر میں خود ہم کہاں ہوں گے؟ آئیے اس عید پر مل کر دعا کریں کہ رب کریم ہماری گزشتہ خطاؤں اور لغزشوں کو معاف فرما دے اور ہم ان سے سبق سیکھنے اور اس سبق پر عمل کرنے کے قابل ہو جائیں کہ خواہشوں کو سراب اور خدشوں کو سیلاب بننے سے روکنے کا اب یہی ایک طریقہ ہے اور جہاں تک خدشوں کے پجاریوں اور سوداگروں کا تعلق ہے تو ان کی خدمت میں میں یگانہ کی یہ
لاجواب رباعی پیش کرتا ہوں کہ
دنیا سے الگ جا کے کہیں سر پھوڑو
یا جیتے ہی جی مردوں سے رشتہ جوڑو
کیوں ٹھوکریں کھانے کو پڑے ہو' بے کار
بڑھتے ہو بڑھو' نہیں تو رستہ چھوڑو
اپنی محنت اور اللہ کی رحمت پر یقین رکھنے والے تمام دوستوں کو بہت بہت عید مبارک۔