جمہوریت کی قسمیں حامی اور مخالفین
کسی بھی اہم قومی مسئلے پر ہماری حمایت یا مخالفت استدلالی نہیں بلکہ روایتی اور جذباتی ہوتی ہے
کسی بھی اہم قومی مسئلے پر ہماری حمایت یا مخالفت استدلالی نہیں بلکہ روایتی اور جذباتی ہوتی ہے جس کی وجہ سے ملک و قوم کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس حوالے سے ملک میں جمہوریت کی حمایت اور مخالفت کا مسئلہ ہمارے سامنے ہے، اہل سیاست کی بھاری اکثریت تو رائج الوقت جمہوریت کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر قرار دیتی ہے کچھ سیاستدان اور بائیں بازو کے گروہ اگرچہ موجودہ جمہوریت کو اشرافیائی جمہوریت کا نام دے کر اسے رد کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ چلنے کو مجبوری اور وقت کی ضرورت کہتے ہیں۔
مڈل کلاس کا ایک حلقہ موجودہ جمہوریت کو جمہوریت کے نام پر فراڈ کہتا ہے اور سمجھتا ہے اس حلقے پر جمہوریت دشمنی کے ساتھ ساتھ ملک دشمنی کا الزام بھی لگایا جاتا ہے اور اس بات پر اصرار کیا جاتا ہے کہ ''ہم جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔'' جمہوریت کے حوالے سے دو رائے کا جائزہ لینے کے لیے کسی بہت بڑے فلسفے کی ضرورت نہیں نہ کسی قسم کی ذہنی عرق ریزی کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو دنیا میں متعارف کرانے والوں نے جمہوریت کی جو تعریف کی ہے صرف اس پر ایک نظر ڈالنے کی ضرورت ہے۔
جمہوریت کو متعارف کرانے والوں نے جمہوریت کی تعریف اس طرح کی ہے ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے۔'' جو لوگ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں اور جمہوریت کو ملک و قوم کے لیے ناگزیر اور ترقی کا واحد راستہ قرار دیتے ہیں کیا وہ اس سوال کا جواب دیں گے کہ کیا ہمارے ملک میں رائج جمہوریت، جمہوریت کو متعارف کرانے والوں کی تعریف پر پوری اترتی ہے؟ کیا ہماری جمہوریت کو ''عوام کی حکومت، عوام کے لیے، عوام کے ذریعے'' کہا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے نہ یہ جمہوریت عوام کی حکومت عوام کے لیے عوام کے ذریعے کے معیار پر پوری اترتی ہے نہ اسے منتخب کرنے میں حقیقی عوام کی اکثریت کوئی کردار ادا کرتی ہے پھر اس جمہوریت کی حمایت اسے ملک و قوم کے لیے ناگزیر قرار دینا اور ترقی کا واحد ذریعہ کہنا کہاں تک درست اور منطقی ہوسکتا ہے؟ خود اپنے بنیادی اصولوں اور اساس سے منحرف جمہوریت کو جمہوریت کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔
سرمایہ دارانہ جمہوریت کی خرابی کو ظاہر کرنے کے لیے اسے اشرافیائی جمہوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات تو واضح ہوجاتی ہے کہ یہ وہ جمہوریت نہیں ہے جس کی حمایت اس کے متعارف کنندگان نے کی ہے بلکہ یہ ایک بالادست طبقے کی حکومت ہے جسے اشرافیہ نام دیا جاتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ پاکستان میں رائج جمہوریت اشرافیائی جمہوریت کہلانے کی مستحق بھی نہیں ہے کیونکہ اشرافیہ پورا ایک طبقہ ہوتا ہے۔ ہماری حکومت تو چند خاندانوں کی حکومت ہے جن کا سیاست اور اقتدار پر مکمل قبضہ ہے جسے ہم ماڈرن بادشاہت کا نام دے سکتے ہیں۔
ہمارے اہل قلم اہل دانش اس حقیقت کو تو تسلیم کرتے ہیں کہ ہمارے ملک میں خاندانی جمہوریت ہے لیکن اس کی حمایت اس امید پر کرتے ہیں کہ اگر اس جمہوریت کو تسلسل سے کام کرنے دیا جائے تو ایک نہ ایک روز یہ جمہوریت عوامی جمہوریت میں بدل جائے گی اور جمہوریت کی تعریف پر پوری اترے گی۔ بلاشبہ امید پر دنیا قائم ہے لیکن امید کے لیے بھی کچھ شرائط ہوتی ہیں جن میں پہلی شرط یہ ہے کہ کیا یہ جمہوریت اس راستے پر چل رہی ہے جس راستے پر چلنے سے یہ عوامی جمہوریت بن جائے گی؟
اس سوال کا جواب نفی میں بھی ہے مایوس کن بھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ ہر اس اقدام کی مخالفت کر رہا ہے جس سے حکومت اور فیصلہ سازی میں عوام کی شرکت ممکن ہو مثلاً جمہوری ملکوں میں بلدیاتی نظام ناگزیر ہوتا ہے کیونکہ اسی نظام کی سیڑھی سے سیاسی قیادت اوپر آتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں بلدیاتی نظام جمہوریت کا ایک ناگزیر حصہ ہوتا ہے لیکن اگر ہم اپنی سیاست اپنی جمہوریت پر نظر ڈالیں تو یہ شرمناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ اس ملک کی جمہوری تاریخ میں کسی جمہوری حکومت نے بلدیاتی انتخابات کرانے کی زحمت نہیں کی جتنے بلدیاتی انتخابات ہوئے جتنے بلدیاتی نظام نافذ ہوئے وہ سب فوجی حکومتوں کے دوران ہوئے۔ آخری بلدیاتی انتخابات بھی ایک فوجی آمر پرویز مشرف کے دور میں ہوئے۔ 2008 اور 2013 میں جمہوری حکومتیں قائم ہوئیں لیکن عدلیہ کے شدید اصرار اور احکامات کے باوجود بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے جا رہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوریت کی علمبردار حکومتیں بلدیاتی انتخابات سے کیوں گریزاں ہیں؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ بلدیاتی نظام رائج اور مضبوط ہوتا ہے تو نچلی سطح سے سیاسی قیادت ابھرنے کے خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہمارا انتخابی نظام ہے جس کی تشکیل پوری منصوبہ بندی کے ساتھ اس طرح کی گئی ہے کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کا کوئی فرد ان انتخابات میں حصہ لینے کا سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ انتخابات کو ایک منافع بخش سرمایہ کاری اور جمہوریت کو اربوں روپوں کا منافع دینے والی صنعت میں بدل دیا گیا ہے۔ اس قسم کی رکاوٹوں کے علاوہ ایک شرمناک کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے اور مستحکم کیا جا رہا ہے جس کے تحت ہر بڑا سیاسی خاندان اپنے ولی عہدوں کی فوج تیار کر رہا ہے بیٹے، بیٹیوں، بیویوں، بہنوں، دامادوں کو ولی عہد بناکر ان کی لیڈر شپ کو عوام پر مسلط کرنے کے لیے عوام ہی کی پیدا کردہ اربوں کی دولت کو ان کی تشہیر پر صرف کیا جا رہا ہے۔ جس کا مقصد آنے والی کئی نسلوں تک اپنی خاندانی حکمرانی کو محفوظ کرنا ہے۔
اس پس منظر اور تلخ حقائق کی روشنی میں کیا ہمارے محترم جمہوریت پسندوں کی یہ امید پوری ہوسکتی ہے کہ ''اگر اس لولی لنگڑی جمہوریت کو تسلسل سے کام کرنے دیا جائے تو یہ آہستہ آہستہ عوامی جمہوریت میں بدل جائے گی؟'' مڈل کلاس کے اہل قلم اہل دانش یہ امید کرنے میں حق بجانب ہیں کہ تسلسل کی وجہ خراب جمہوریت اچھی جمہوریت میں بدل جائے گی لیکن جب اچھی جمہوریت کے سارے راستے مسدود کردیے جائیں تو بری جمہوریت کے تسلسل سے اچھی جمہوریت خاندانی جمہوریت کے بطن سے عوامی جمہوریت کیسے پیدا ہوگی؟ یہ ایک ایسا منطقی سوال ہے، جس پر رائج الوقت جمہوریت کے حامیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔
بلاشبہ موجودہ کرپٹ ترین جمہوریت کی اندھی مخالفت کا نتیجہ بھی فوجی حکمرانی کی شکل ہی میں نکل سکتا ہے لیکن موجودہ لولی لنگڑی جمہوریت کے حامیوں کا فرض ہے کہ وہ کم ازکم اچھی جمہوریت عوامی جمہوریت جمہوریت کی تعریف پر پوری اترنے والی جمہوریت کی طرف پیش رفت کے لیے ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیں جن کا ذکر ہم نے اوپر کیا ہے۔
ان ناگوار حقائق کے ساتھ ساتھ پاکستانی جمہوریت کے حوالے سے اس المیے پر نظر ڈالنے کی بھی ضرورت ہے کہ ہماری سیاست ہمارے اقتدار پر جو طبقے 66 سال سے قابض ہیں ان میں سب سے زیادہ طاقتور طبقہ جاگیردار طبقہ ہے جب تک اس طبقے کی طاقت کو توڑا نہیں جاتا حقیقی جمہوریت کی طرف پیش رفت ممکن نہیں یہ طبقہ ہماری زرعی معیشت پر قابض ہے ہمارے اہل سیاست اپنے جلسے جلوسوں میں جو بھاری ہجوم جمع کرتے ہیں اس کا بڑا حصہ زرعی معیشت سے وابستہ ان کسانوں ہاریوں کا ہوتا ہے جو ابھی تک وڈیرے کے حکم کو خدا کا حکم سمجھتے ہیں۔ عام انتخابات میں جو ووٹ کاسٹ ہوتے ہیں ان کی بڑی تعداد بھی زرعی معیشت سے وابستہ غریب عوام کی ہوتی ہے اس فراڈ کو ختم کرنے کے لیے ایک سخت اور بامعنی زرعی اصلاحات کی ضرورت ہے ہمارے جمہوریت پسند دوستوں کی ذمے داری ہے کہ وہ ملک میں زرعی اصلاحات کا مطالبہ کرکے عوامی جمہوریت کے قیام کا راستہ ہموار کریں۔
دنیا کی تاریخ میں حکمراں طبقات اور استحصالی معاشی نظاموں نے اپنے مکروہ چہروں کو چھپانے کے لیے اپنے چہروں پر کوئی نہ کوئی خوبصورت نقاب لگانے کی کوشش کی سرمایہ دارانہ اقتصادی نظام کا نقاب جمہوریت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں سرمایہ دارانہ جمہوریت نے اگرچہ عوام کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کے حوالے سے کچھ اقدامات تو کیے ہیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ اس نظام میں ارتکاز زر کا سلسلہ جاری ہے ہر سال ارب پتیوں کی تعداد میں جس تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے اسی تناسب سے غربت میں اضافہ ہو رہا ہے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی تعداد چالیس فیصد سے بڑھ کر 54 فیصد ہوگئی ہے یہ وہ حقائق ہیں جن پر لولی لنگڑی جمہوریت کے حامیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔