انقلاب آ ہی جائے

عید کی آمد پر اس کی تیاریوں نے بھی زور پکڑا ہوا ہے کچھ دن پہلے بڑے بھائی نے

fnakvi@yahoo.com

عید کی آمد پر اس کی تیاریوں نے بھی زور پکڑا ہوا ہے کچھ دن پہلے بڑے بھائی نے کہا کہ انھیں کچھ عید کارڈ چاہئیں اگر میرا جانا ہو تو میں لا دوں تو اسی سلسلے میں بازار جانے کا اتفاق ہوا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ کہیں بھی عید کارڈ کے اسٹال نظر نہیں آئے۔ ایک دو مختلف مارکیٹوں کا رخ کیا مگر وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئی۔

ورنہ کچھ عرصہ پہلے تک عید، عید کارڈ کے بغیر نامکمل سمجھی جاتی تھی ہر عمر کے افراد اپنے دوستوں، عزیزوں، رشتے داروں کے لیے خصوصی کارڈ خریدتے تھے اور بڑے اہتمام سے بھجوایا کرتے تھے، مختلف جگہوں پر رمضان کے شروع ہوتے ہی عید کارڈ کے اسٹالز لگ جاتے تھے۔

جہاں نوجوان لڑکے، لڑکیوں، خواتین و حضرات کا ہجوم نظر آتا تھا۔ مختلف اشعار اور اقوال سے مرصع یہ کارڈ بہت خوبصورت اور دیدہ زیب ہوتے تھے بعض کارڈ کو کھولنے کے ساتھ ہی کہیں میوزک سنائی دیتا تو کبھی خوشبو آتی تھی جو کھولنے والوں کو مسحور کردیتی تھی۔ ہر شخص اپنے ذوق سے ان کارڈز کو خریدتا اچھے اور معیاری کارڈ کے ساتھ ساتھ فلمی اداکاروں والے کارڈز بھی بچے بڑی تعداد میں خریدتے اور ان پر اپنی پسند کے مطابق اشعار تحریر کرتے جیسے ڈبے میں ڈبہ، ڈبے میں کیک، میری دوست لاکھوں میں ایک۔

عید آئی دل کی کلیاں کھل گئیں' دودھ میں شکر اور سویاں مل گئیں۔اس طرح کے بہت سے اشعار لکھے جاتے جنھیں پڑھ کر ہنسی بھی آتی تھی اور اس سے بھیجنے والے کی محبت اور خلوص کا بھی پتا چلتا تھا ساتھ ساتھ تحفے تحائف بھی ہوتے تھے۔ جس کے لیے سارا سال لوگ پیسے جمع کرتے اور پھر اپنے دوستوں، کزنوں اور بہن بھائیوں کو اس جمع پونجی سے کارڈ بھیج کر اپنی والہانہ محبت کا اظہار کیا جاتا تھا۔ اسی طرح لوگوں کو بھی اپنے پیاروں کے کارڈز کا انتظار رہتا۔ ڈاکیے کو دیکھتے ہی خوشی سے بانچھیں کھل جاتی تھیں جو کسی پیارے کا پارسل یا کارڈ لے کر آگیا مگر اب نہ وہ فرصتیں ہیں نہ لوگوں کے حالات وہ رہے ہیں ۔

جس میں روایتی جوش و خروش سے اپنے سے وابستہ لوگوں کی خوشیوں کا خیال رکھا جاتا تھا مگر اس جدید ٹیکنالوجی نے اب لوگوں کو اپنا اسیر کرلیا ہے۔ اب عیدکی مبارکباد بھی بذریعہ انٹرنیٹ یا بذریعہ ایس ایم ایس دے کر جان چھڑا لی جاتی ہے جس کی وجہ سے لوگ ایک دوسرے سے دور ہوتے جا رہے ہیں کمپیوٹر ہو یا موبائل یہ چیزیں بہت سے فوائد لے کر آئی ہیں ، مگر اس کے بے جا استعمال سے ہم پڑوس تو کیا گھر کے دوسرے لوگوں سے بھی دور ہوتے جا رہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان نسل روایتی معاشرتی نظام سے کٹتی نظر آرہی ہے ہم نے سائنسی ترقی تو بہت کرلی ہے مگر دل کا سکون سچی خوشیاں شاید کہیں کھو سی گئی ہیں ۔اب تو جذبوں میں بھی وہ شدت نہیں رہی۔


غربت، مہنگائی نے ہر چیز کو دھندلا دیا ہے بہت زیادہ عرصہ پہلے کی بات نہیں ہے جب معاشرے میں اس طرح کے مسائل نہیں تھے لوگ آپس میں مل کر بیٹھتے دکھ سکھ کہتے اور اپنے روایتی تہواروں کو جوش وخروش سے مناتے تھے۔ غریب ہو یا امیر ہر شخص اپنی چادر کے مطابق کام لیتا اور اپنے سے قریبی لوگوں کی خوشیوں کو پروان چڑھاتا تھا مگر اب یہ حال ہے کہ لوگوں کو احساس نہیں ہے کہ تہواروں کے موقعوں پر تو لوگوں کا خیال رکھا جائے۔ میرے پاس ایک ای میل آئی ہے جس نے میرے دل کو دکھ سے بھر دیا ہے کہ ہمارے ادارے اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ یہ احساس بھی نہیں ہے کہ لوگوں کی خوشیاں بہت تھوڑی سی تنخواہ سے مربوط ہیں۔

فرزانہ ضیا ایک این جی او میں کام کرتی ہیں وہ لکھتی ہیں کہ پیاری فاطمہ آپ ایک خاتون ہیں ایک خاتون ہونے کے ناتے آپ میری بات کو اچھی طرح سمجھ بھی سکتی ہیں اور آگے بھی پہنچا سکتی ہیں، میں ایک ایسے ادارے میں جاب کرتی ہیں جوکہ لوگوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتا ہے مگر اسے اپنے ورکرز کی فلاح و بہبود کا ذرہ برابر خیال نہیں ہے۔

عید آنے والی ہے مگر میرے بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں فیملی میں ایک ساکھ بھی بنی ہوئی ہے کہ میں اچھی جاب کرتی ہوں مجھے کسی کی مدد کی ضرورت نہیں ہے مگر میرا یہ حال ہے کہ اس رمضان میں ہمارے گھر افطاری کا تصور تو کیا کھانے کے بھی لالے پڑے تھے کیونکہ میرے ادارے نے مجھے دو مہینے سے تنخواہ نہیں دی حالانکہ ان کے کافی پروجیکٹ چل رہے ہیں، مگر اس کے باوجود ہمارے لیے ان کے پاس پیسے نہیں ہیں۔ اونچی دکان پھیکے پکوان والا معاملہ ہے میری آپ کے توسط سے التجا ہے کہ خدارا! ہم جیسے سفید پوشوں کے متعلق بھی کوئی سوچ لیا کریں کہ ہم اپنی دادرسی کے لیے کس کے پاس جائیں کوئی قانون ہے کیا جو ہماری مدد کرے، اگر شکایت کرتے ہیں تو منظر عام پر آجاتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری ملازمت بھی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔

اسی طرح ایک اور ای میل آئی جس میں ایک اور خاتون اپنی تکلیف بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ میرا نام حلیمہ ناصر ہے میں نے کراچی کے ایک بڑے ادارے جوکہ تعلیم کے نام پر فنڈز جمع کرتا ہے ۔اس سلسلے میں ادارے نے مختلف علاقوں کا سروے بھی کروایا، ہم نے اپنا کام نہایت محنت اور ایمان داری سے کیا بھی تھا جوکہ ہم نے حاصل کیا اور اصلی معلومات فراہم کیں جب کام مکمل ہوگیا تو ہمیں کہا گیا کہ آپ لوگوں کی اجرت پندرہ دن کے بعد ملے گی جس میں دو مہینے گزر گئے۔ عید سر پر آگئی مگر ہمارے کام کا معاوضہ نہیں ملا جب بھی فون کرو یا تو فون ریسیو نہیں کرتے یا پھر کہہ دیتے ہیں فارم ریجیکٹ ہوگئے ہیں ۔ ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ہمارا حال تو یہ ہے کہ دیہاڑی والے مزدور سے بھی بدتر ہے اسے اس کی مزدوری مل تو جاتی ہے مگر ہمیں ابھی تک رقم نہیں ملی بلکہ یہ تک ہوا کہ انھوں نے صاف منع کردیا ہے کہ اب آپ لوگوں کی پیمنٹ نہیں ملے گی۔ آپ بتائیں کیا ان اداروں کا ہم پر ظلم نہیں ہے جب کہ یہ ادارے بیرونی ممالک سے اربوں کا فنڈ کھا رہے ہیں مگر ہمارے جائز پیسے بھی ہم کو نہیں دے رہے ہیں۔

یہ دونوں ای میل پڑھ کر خیال آتا ہے کہ کوئی انقلاب اب آ ہی جانا چاہیے تاکہ جو لوگ مذہبی تہواروں کے موقعوں پر بھی لوگوں کا حق مار رہے ہیں تو ان کو کوئی پوچھنے والا تو ہو۔
Load Next Story