مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں کا ایک سال

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت کے باعث مضبوط حکومت ہے جس کی سربراہی پہلی بار ایک خاتون مریم نواز کے پاس ہے


m_saeedarain@hotmail.com

فروری 2025 میں مسلم لیگ (ن) کی وفاقی اور پنجاب حکومتوں نے اپنا پہلا سال اپوزیشن کی شدید مخالفت کے باوجود آسانی سے مکمل کر لیا جس طرح 2018میں پی ٹی آئی کی وفاقی پنجاب و کے پی حکومتوں نے مکمل کیا تھا۔ دونوں کے دعوے تھے کہ ان کی حکومتیں اور بالاتر ایک صفحے پر ہیں۔

پی ٹی آئی کی تینوں حکومتوں میں صرف اس کے چیئرمین کی چلتی تھی اور تینوں حکومتوں میں اس کے وزیر اعظم خود کو مکمل خود مختار سمجھ کر من مانے فیصلے کرتے تھے اور انھوں نے پنجاب و کے پی میں اپنی مرضی کے وزرائے اعلیٰ مقرر کیے تھے جن کی کارکردگی پہلے چند ماہ ہی میں ظاہر ہوگئی جس پر خود پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں نے بھی تحفظات کا اظہار کیا تھا مگر وزیر اعظم نے اپنے فیصلے پر دونوں کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا جس کی سزا دونوں صوبوں کے عوام نے بھگتی۔

موجودہ وفاقی حکومت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے باہمی تعاون سے قائم ہوئی جس میں پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی طرح ایم کیو ایم، مسلم لیگ (ق) اور بلوچستان عوامی پارٹی بھی شامل ہے اور ملک کی دونوں بڑی پارٹیوں نے اہم عہدے آپس میں بانٹ رکھے ہیں اور وفاقی کابینہ میں کوئی غیر ملکی شامل نہیں جب کہ موجودہ وفاقی حکومت میں پی ٹی آئی شامل نہیں جب کہ جے یو آئی پہلے بھی اپوزیشن میں تھی اور اب بھی ہے۔

پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی اپوزیشن مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کر رہی تھیں ۔ موجودہ حکومت کو پی ٹی آئی فارم 47 کی پیداوار قرار دیتی ہے اور جے یو آئی بھی سمجھتی ہے مگر وفاقی حکومت نے آئین میں جو 26 ویں ترمیم کی ہے اس کی منظوری جے یو آئی کے بغیر ممکن نہیں تھی جس پر جے یو آئی نے اپنی شرائط پر ترمیم منظورکرائی تھی جس سے پی ٹی آئی کو اپنی مرضی کا چیف جسٹس اور ججز نہیں مل سکے تھے۔

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی واضح اکثریت کے باعث مضبوط حکومت ہے جس کی سربراہی پہلی بار ایک خاتون مریم نواز کے پاس ہے اور پی ٹی آئی اس کی اپوزیشن ہے جب کہ پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت مسلم لیگ (ق) کے دس ووٹوں کی مرہون منت تھی جس کو پی ٹی آئی نے اسپیکر پنجاب اسمبلی کا اہم عہدہ دے رکھا تھا جب کہ اب پنجاب اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ مسلم لیگ (ن) کے پاس ہے جب کہ مسلم لیگ (ق) بھی پنجاب حکومت میں شامل ہے۔

 البتہ گورنر پنجاب کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے اور وفاق میں پی پی کے صدر اور (ن) لیگ کے وزیر اعظم ہیں اور دونوں کے باہمی تعاون سے حکومت آئینی حدود میں چل رہی ہے جب کہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم من مانیوں کے عادی تھے اور ان کے صدر مملکت کی حیثیت صدر مملکت کی نہیں ایک ’’ یس مین‘‘ کی تھی جن کو وزیر اعظم کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے تھے اور ملک میں وزیر اعظم ہی اصل طاقت تھے جو کابینہ کو بھی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ موجودہ وفاقی حکومت نے ایک سال کامیابی سے مکمل کیا ہے جو اس کے پراعتماد ہونے کا ثبوت ہے اور ایک سال گزار کر حکومت نے 21 مزید وزیر مقررکیے ہیں اور وہ اعتماد سے آگے بڑھ رہی ہے۔

 پی ٹی آئی دور میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی اہمیت ایک ڈمی کی سی تھی جب کہ اب پنجاب میں برائے راست ایک خاتون مضبوط وزیر اعلیٰ ہیں جن کے چچا وزیر اعظم ہیں اور دونوں نے باہمی تعاون اور مشاورت سے ایک سال مکمل کیا ہے اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا دعویٰ ہے کہ ان کی حکومت نے ایک سال میں جتنی شان دار کارکردگی دکھائی ہے باقی تین حکومتیں پنجاب جیسی کارکردگی نہیں دکھا سکیں اور وفاقی اور پنجاب حکومت نے اپنی ایک سالہ کارکردگی رپورٹ میڈیا کے ذریعے اپنے اپنے حامیوں کے سامنے پیش بھی کی ہے جب کہ ماضی کی پی ٹی آئی کی وفاقی و پنجاب حکومت میں ایسا نہیں ہوا تھا اور دونوں کی توجہ اپوزیشن کو کچلنے پر مرکوز رہی تھی۔

موجودہ وفاقی کابینہ میں پہلی بار محکمہ خزانہ اور داخلہ کی وزارتیں مسلم لیگ (ن) کے پاس نہیں جب کہ (ن) لیگ کے قائد کے خیال میں ان کے سمدھی ہی وزیر خزانہ بننے کے اہل ہیں اور مجبوری میں انھیں وزیر خارجہ بنایا گیا ہے۔ موجودہ وزیر خزانہ کے باعث ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے جب کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پی ڈی ایم کی حکومت میں تقریباً ایک سال وزیر خزانہ رہ کر صرف بلند و بانگ دعوے کیے تھے مگر معیشت میں کوئی بہتری نہیں آئی تھی۔

 (ن) لیگ کی حکومت کے ایک سال میں موجودہ حکومت اپنے آٹھ ماہ میں ٹیکس ہدف حاصل کرانے میں ناکام رہی اور اس کا زور تنخواہ دار ملازمین سے زیادہ سے زیادہ ٹیکس وصولی اور نئے ٹیکس دہندگان بڑھانے پر رہا مگر وہ مہنگائی عملی طور کم کرانے میں ناکام رہی۔

مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر اعظم کا زیادہ زور غیر ملکی دوروں اور وزیر اعلیٰ پنجاب کا زیادہ زور پنجاب میں نئے ترقیاتی منصوبے اور عوام کی فلاح و بہبود کے کام شروع اور مکمل کرانے میں رہا اور اپنے وزیر اعظم سے کہیں آگے رہیں اور دونوں نے ایک سال میں صرف ڈی جی خان اور نارو وال میں عوامی جلسے کیے اور وزیر اعلیٰ پنجاب وزیر اعظم سے زیادہ متحرک رہیں اور انھوں نے پنجاب کے عوام کو ایک سال میں متعدد سہولتیں فراہم کرائیں عملی طور پر وفاقی حکومت عوام کو ایک سال میں کوئی ریلیف نہیں دے سکی۔

(ن) لیگ کی وفاقی حکومت اپنی پنجاب حکومت کی تقلید میں عوام کی فلاح کا کوئی منصوبہ نہ دے سکی، بس اڑان پاکستان کے منصوبے کا اعلان ضرور ہوا۔ مگر ملک کے بے بس عوام کی زندگی میں کوئی بہتری آئی نہ وہ اڑان کے قابل ہو سکے۔ وفاقی حکومت اگر پنجاب حکومت کی طرح متحرک ہوتی توکچھ تبدیلی ضرور نظر آتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں