چھ نسلوں سے جاری مزاحمت (قسط پنجم)

سولہ مئی انیس سو چھتیس سے یومِ فلسطین منانے کا آغاز ہوا تاکہ صدیوں سے بسنے والی اکثریت کی شناخت اجاگر ہو سکے


وسعت اللہ خان March 15, 2025

بیسویں صدی کی پہلی چوتھائی کے فلسطینی سماج کا سیاسی سرمایہ روائیتی عصبیتی سوچ کا مظہر تھا اور اسی نظام کے مدار میں مقامی سیاست بھی گھوم رہی تھی جس پر لامحالہ اشرافیہ کا قبضہ تھا۔جب کہ ان کا حریف (صیہونی) یورپی اقدار ، شہری پس منظر اور جدت کارانہ سوچ سے مسلح تھا۔

بالاخر انیس سو سترہ کے اعلانِ بالفور نے فلسطینی سماج کو اپنی بقا کے لیے جدید قوم پرستی اور منظم سیاسی جدوجہد کے قرینے اپنانے پر مجبور کر دیا۔ قوم پرستی کی آنچ سے تشکیل پانے والی سول سوسائٹی کی پرورش میں شرحِ خواندگی میں اضافے ، ابھرتے ہوئے اخباری و صوتی میڈیا اور رابطہ کاری کے تیز رفتار ذرایع نے اہم کردار نبھایا۔

سماج کو سیاسی طور پر متحرک کرنے کے کئی طریقے سامنے آنے لگے۔مثلاً یادگار دن منانے کی روائیت۔جیسے دو نومبر بطور یومِ بالفور ( یومِ سیاہ ) منانے کی روائیت۔ تاکہ عام لوگوں کو یاد رہے کہ کس طرح ان کی زمین غصب کرنے کی کوششوں میں برطانیہ کا کلیدی کردار ہے۔ چار جولائی گیارہ سو ستاسی عیسوی کی جنگِ حطین یومِ فتح کی شکل میں فلسطینی سیاسی کیلنڈر کا حصہ بنی۔جنگِ حطین میں صلاح الدین ایوبی نے یورپی صلیبی لشکر کو شکست دی تھی۔

سولہ مئی انیس سو چھتیس سے یومِ فلسطین منانے کا آغاز ہوا تاکہ صدیوں سے بسنے والی اکثریت کی شناخت اجاگر ہو سکے۔ یروشلم میں سالانہ نبی موسی تہوار جو کہ روائیتی روحانی عقیدت کے اظہار کے لیے جانا جاتا تھا۔اب اس میلے میں سیاستِ حاضرہ کا رنگ بھی بھرنے لگا۔

ہم گزشتہ مضامین میں عزالدین القسام اور ان کے مسلح گروہ الکف الاسود کے بارے میں بتا چکے ہیں کہ القسام نے ہی یہ نکتہ اپنے عمل سے اجاگر کیا کہ مسلح جدوجہد دراصل سیاسی مقصد کے حصول کا ہی ایک راستہ ہے بشرطیکہ مسلح طاقت کو ذمے دارانہ انداز میں انفرادی کے بجائے اجتماعی اہداف حاصل کرنے کی نیت سے استعمال کیا جائے۔

القسام کے مسلح سیاسی جدوجہد کے نظریے سے متاثر ہو کے فلسطین کے متعدد علاقوں میں کئی مقامی گروہ ابھرے۔جیسے شمالی فلسطین میں القف الخضرہ ، یروشلم کے علاقے میں الجہاد المقدس ، اور تلکرم و قلقالیہ کے علاقے میں الشباب التحئیر نام سے انیس سو انتیس تا انیس سو پینتیس مسلح گروہ متحرک رہے۔کچھ تحلیل یا ضم ہو گئے اور کچھ انیس سو چھتیس تا انتالیس کی مزاحمتِ عظمی کا حصہ بن گئے۔

اسی طرح کئی سیاسی جماعتیں بھی وجود میں آگئیں۔مگر زیادہ تر جماعتوں کی قیادت کا انحصار قبائلی و برادری وفاداریوں پر تھا۔مثلاً حزب الدفاع الوطنی بااثر برطانیہ نواز النشیشیبی خاندان کی نمایندہ تھی۔ابتدا میں یہ پارٹی مزاحمتی تحریک کا حصہ بنی مگر پھر اس نے یہی تحریک دبانے میں برطانوی نوآبادیاتی انتظامیہ کا بھرپور ساتھ بھی دیا۔ چنانچہ جب دیگر فلسطینی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں خلافِ قانون قرار پائیں تب بھی نوآبادیاتی انتظامیہ کی وفادار حزب الدفاع الوطنی کو کام کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔یہ واحد مقامی جماعت تھی جس نے فلسطین کی تقسیم کی سب سے پہلے حمائیت کی۔

النشیشیبی خاندان کے سیاسی حریف یروشلم کے الحسینی خاندان نے الحزبِ العربی الفلسطینی کی بنیاد رکھی۔یہ صیہونی مخالف جماعت کٹر قوم پرست موقف اپنانے کے سبب جلد ہی مقبول ہو گئی۔اس جماعت کا بنیادی مطالبہ تھا کہ برطانیہ جلد از جلد عرب اکثریتی نمایندوں کو اقتدار سونپ کر رخصت ہو جائے۔

 اکتوبر انیس سو سینتیس میں برطانوی انتظامیہ نے حسینی خاندان کی الحزب العربی الفلسطینی کو کالعدم قرار دے کر کارکنوں کی وسیع پیمانے پر پکڑ دھکڑ شروع کی۔پارٹی سربراہ جمال الحسینی شام فرار ہو گئے۔ بعد ازاں برطانویوں نے انھیں پکڑ کے اپنی دوردراز افریقی نوآبادی روڈیشیا میں قید رکھا اور پھر قاہرہ منتقل کر دیا۔جب کہ الحسینی خاندان کے سب سے معروف رکن امین الحسینی کو بھی انھی حالات سے گذرنا پڑا۔

انیس سو چھتیس تا انتالیس کی مزاحمت میں امین الحسینی کا اہم کردار رہا اور انھوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو عرب ہائر کمیٹی کے پلیٹ فارم پر جمع کر کے تحریک کو منظم رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔جب کریک ڈاؤن شروع ہوا تو وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور جرمنی میں ایڈولف ہٹلر سے ملاقات کر کے برطانویوں کے خلاف مدد طلب کی۔الحزب العربی الفلسطینی نے انیس سو اکتالیس میں عراق میں برطانیہ نواز وزیرِ اعظم نوری السعید کی حکومت کا تختہ الٹنے والے جرمنی نواز فوجی افسروں کی بھی حمائیت کی مگر جلد ہی برطانیہ نے اس حکومت کو برطرف کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

ایک اور پارٹی حزبِ استقلال العربی کے نام سے متوسط طبقے کے ان فلسطینی رہنماؤں نے قائم کی جن کے عرب حکمرانوں سے قریبی تعلقات تھے۔مگر اس جماعت کو کوئی خاص عوامی پذیرائی نہ مل سکی۔حزبِ استقلال انڈین نیشنل کانگریس کی طرز پر عدم تشدد پر مبنی جدوجہد کی حامی تھی۔

ایک اور معروف فلسطینی الخالدی خاندان نے حزبِ اصلاح قائم کی۔اس کے سربراہ یروشلم کے مئیر حسین الخالدی تھے۔انھیں مزاحمتی تحریک میں حصہ لینے پر اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے اور برطانوی انتظامیہ نے چار دیگر فلسطینی رہنماؤں کے ساتھ حسین الخالدی کو بھی بحرِ ہند کے جزیرہ سیشلز بجھوا دیا اور حزبِ اصلاح کو کالعدم قرار دے دیا۔

یہاں پر فلسطینی کیمونسٹ پارٹی کا تذکرہ بھی ضروری ہے۔یہ فلسطین میں متحرک ہونے والی پہلی منظم سیاسی پارٹی تھی جو انیس سو تئیس میں قائم ہوئی۔اس کے ارکان میں صیہونیت مخالف عرب اور یہودی شامل تھے۔تاہم جب انیس سو سینتالیس میں اسٹالن نے اقوامِ متحدہ کے تحت فلسطین کی تقسیم اور اسرائیل کے قیام کی حمائیت کی تو فلسطین کیمونسٹ پارٹی بھی دو دھڑوں میں بٹ گئی۔

ایک دھڑے نے نیشنل لبریشن لیگ کے نام سے فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کی جب کہ دوسرے دھڑے نے مکئی کے نام سے کیمونسٹ پارٹی آف اسرائیل کا روپ دھار لیا۔یہ دھڑا اگرچہ عربوں کو اسرائیل میں مساوی حقوق دینے کا حامی تھا مگر اسرائیل کے قیام کو بھی جائز سمجھتا تھا۔( فلسطینی کیمونسٹ پارٹی نے انیس سو ستاسی میں پیپلز پارٹی کے نام سے پی ایل او میں شمولیت اختیار کر لی )۔

 فلسطینی خواتین کی سیاسی بیداری کا تذکرہ تاراب عبدالہادی کے بغیر نامکمل رہے گا۔تاراب نے انیس سو بیس کے عشرے میں فلسطین عرب ویمنز کانگریس کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا۔یہ تنظیم بھی صیہونیت مخالف اور فلسطین کی آزادی کی پرزور حامی تھی۔انیس سو اڑتالیس میں تاراب کو بھی اپنے وطن سے جبری ہجرت کر کے قاہرہ جانا پڑا۔جہاں انیس سو چھہتر میں ان کا انتقال ہوا۔

یہ تھا وہ سیاسی پس منظر جسے سمجھے بغیر انیس سو چھتیس تا انتالیس کی پہلی بڑی فلسطینی مزاحمت سمجھ میں نہیں آ سکتی۔             ( جاری ہے )

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں