لایموت۔ ایک شاہکار ناول

افسوس کہ امن و آشتی کے پیامی مسلمانوں کو دہشت گرد اور مجاہدین حریت کو شدت پسند کہا جا رہا ہے



معروف شاعر ادیب ماہر اقبالیات اور سیرت نگار پروفیسر خیال آفاقی جس طرح اپنی شاعری میں اس اعتبار سے ایک منفرد مقام رکھتے ہیں کہ ان کے کلام پر علامہ اقبال کا طرز سایہ فگن ہے اور ایک وسیع معنویت اپنے اندر لیے ہوئے ہے۔ اسی طرح ان کی نثر بالخصوص ناول نگاری بھی عالمگیر احساس کی حامل نظر آتی ہے۔ زیر نظر ان کا نیا ناول ’’لایموت‘‘ بھی ان کی اس وسعت نظری اور عالمی سیاسی سماج مزاج کا مظہر ہے۔

بالخصوص دور حاضر میں مسلمانوں کے لیے دو جغرافیائی مسئلے فلسطین اورکشمیر سوہانِ روح بنے ہوئے ہیں جو یہود و ہنود کی جارحیت، استعماریت اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کھلا ثبوت ہیں۔ یہ مسائل مسلمانوں کے دلوں کو مضطرب کیے ہوئے ہیں اور اس بات پر نوحہ خواں ہیں کہ اس مجرمانہ فعل پر عالمی ضمیر خاموش اور انسانی حقوق کی علمبردار طاقتیں بے حس نظر آتی ہیں۔

تاہم آج کل اسلام کے خلاف بے بنیاد الزامات اور دہشت گردی کا ارتکاب جس دیدہ دلیری سے ہو رہا ہے، اس پر مسلمان دنگ ہیں افسوس کہ امن و آشتی کے پیامی مسلمانوں کو دہشت گرد اور مجاہدین حریت کو شدت پسند کہا جا رہا ہے۔

نہایت بے باک اور بے شرم مغربی طاقتوں کی دشمنی سے عالم اسلام اچھی طرح واقف ہو چکا ہے۔ اس پروپیگنڈے میں خصوصی طور پر تاریخی ملعون مطعون قوم یہود سب سے پیش پیش ہے جو ہر طرح کے حربے استعمال کرتی اور خود پر مسلمانوں کا خون حلال کیے ہوئے ہے۔

اس کا زندہ ثبوت اسرائیل کے وہ انسان کش بے رحمانہ فضائی حملے ہیں جو غزہ کے عام فلسطینی رہائشیوں کے متعدد علاقوں پر کیے گئے جن سے 50 ہزار سے زائد معصوم بچوں، بوڑھوں، خواتین اور مردوں کو خون میں نہلا دیا گیا۔

گوکہ مذکورہ ناول ’’لایموت‘‘ کا براہ راست ان واقعات سے تعلق نہیں ہے تاہم صیہونی ذہنیت کے خلاف یہ ایک ایف آئی آر کی حیثیت ضرور رکھتا ہے۔ ناول ایک ہوائی حادثے سے شروع ہوتا ہے جو کسی سمندر میں گر کر تباہ ہو جاتا ہے تاہم زندہ بچنے والوں میں ایک نوجوان مرد اور لڑکی ہے، لڑکی یہودی ہے مرد نوجوان مسلمان ہے، ان دونوں کا ملاپ ایک جزیرے میں ہوتا ہے جہاں وہ بڑی مشکل سے جان بچا کر پہنچتے ہیں۔

دنیا سے ان کا رابطہ کٹ کے رہ گیا ہے۔ یہودی لڑکی اسلام اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتی ہے۔ سو اس وقت وہ ایک مسلم نوجوان کو کیونکر اچھی نظر سے دیکھتی۔ وہ مسلم نوجوان سے بدک رہی ہے کہ یہ ضرور اسے جنسی طور پر ہراساں کرے گا مگر نوجوان اس مشکل کی گھڑی میں جہاں اپنی سلامتی کا خواہش مند ہے انسانی ہمدردی کے طور پر اس لڑکی سے متعلق بھی تحفظ کی خواہش رکھتا ہے اور ہر ممکن اس ویران جزیرے میں زندہ رہنے کی مشترکہ کوشش کرتا ہے جس کے حسن عمل سے اس یہودی لڑکی کی کسی حد تک بدگمانی دور ہو جاتی ہے تاہم اسلام اور عام مسلمانوں کے خلاف زہر اگلنے سے باز نہیں آتی۔

مسلم نوجوان دنیاوی تعلیم کی اعلیٰ ڈگری کا حامل ہے لیکن اپنی تاریخ اور دین سے کوئی زیادہ باخبر نہیں ہے پھر بھی جس قدر اس سے بن پڑتا ہے وہ اس یہودی لڑکی کی اسلام اور مسلمانوں سے متعلق بدگمانی کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے اور لگتا ہے کہ خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے اور وہ اسے قائل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جب امدادی ٹیم ان تک پہنچ جاتی ہے اور وہ معجزاتی طور پر زندہ بچ کر کسی یورپی شہر میں پہنچ جاتے ہیں جہاں ایک ہی اسپتال میں انھیں رکھا جاتا ہے۔

یہاں لڑکی کا باپ جو یہودی ربی (ملّا) ہے بیٹی سے ملنے آتا ہے اور بیٹی اسے اس نوجوان سے متعلق بتاتی ہے کہ کس طرح اس نے اسے امید سے وابستہ رکھا تو یہودی ملّا کو یہ بیان اچھا نہیں لگتا۔ کیونکہ وہ بیٹی سے بھی زیادہ مسلمانوں سے نفرت کرتا ہے وہ بیٹی کے ساتھ نوجوان سے ملتا ہے مگر اس کا ممنون ہونے کے بجائے اس پر شک کرتا ہے کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شرافت سے رہا ہوگا۔ اس پر بیٹی باپ سے اختلاف کرتی ہے یہاں تک کہ اپنے والد سے باغی ہو کر اسلام اپنانے کی خواہش کا اظہار کرتی ہے اور یوں ناول کا ایک خوشگوار انداز میں اختتام ہو جاتا ہے۔

 ناول ’’لایموت‘‘ شروع سے آخر تک قاری کو متجسس رکھتا ہے کہ اب کیا ہوگا؟ اس ناول کی زبان شستہ دلچسپ اور بیان دل کش ہے یہ ایک منفرد موضوع پر تحریرکیا گیا ہے چنانچہ اپنی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے اردو ادب عالیہ میں ایک قیمتی اضافے کی حیثیت اختیار کرے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں