رمضان کی برکتیں اور عید کی مسرتیں

جیسے ہی جلدی جلدی سحری کرتے تو والدہ فرماتی کہ ’’ بیٹا ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے


صدام ساگر March 16, 2025

دماغ کی بند کھڑکیوں کے تالے کھولتے، سوچ کے کمروں میں پڑی ڈائریوں کے اوراق کھولتے ہی ان گنت یادوں کی پھول مہکنے لگتے ہیں، جن میں بزرگوں کی باتیں، ماں باپ کا ڈسپلن، سرزنش، نصیحتیں اور ان کے زندگی کے تجربات و واقعات۔

جہاں تک معلوم ہوتا ہے کہ میرے والد سخت طبیعت کے مالک اور والدہ نرم مزاج کی حامل ہیں۔ ایسے میں ہم جب بھی بچپن میں رمضان کے روزے رکھنے کے لیے سحری کے وقت اُٹھتے تو ہماری والدہ دیسی گھی کے پراٹھے بنانے پر ہمیں آواز دیتیں کہ ’’ سب جلدی سے اُٹھ جائیں سحری کا وقت ختم ہونے میں چند منٹ باقی رہ گئے ہیں‘‘ ہم جلدی سے بستر چھوڑ کر روزہ رکھنے کی تیاری کے لیے بھاگ اُٹھتے ۔

جیسے ہی جلدی جلدی سحری کرتے تو والدہ فرماتی کہ ’’ بیٹا ابھی آدھا گھنٹہ باقی ہے آرام سے کھانا کھاؤ۔‘‘ تقریبا چار سال کی عمر میں ہم ’’چڑی‘‘ روزہ رکھا کرتے تھے جو کچھ ہی دیر بعد افطار بھی ہو جاتا۔

بہرحال میں نے بچپن میں مکمل روزہ سات سال کی عمر میں رکھا اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا کبھی دس روزے، تو کبھی بیس رکھ لیے۔ آخر کار میں نے اپنی زندگی میں رمضان کے پورے روزے سولہ سال کی عمر میں رکھنا شروع کیے جس کا سلسلہ زندگی کے ساتھ ساتھ اب تک جاری ہے۔

روزہ رکھنے سے قبل نمازِ تروایح کے لیے ہم بچپن میں کبھی آٹھ رکعت پڑھ کر گھر بھاگ آتے تو کبھی بارہ، اسی طرح جب رمضان کے پورے روزے رکھنے کی عادت اپنائی تو تراویح میں بیس رکعت پوری ادا کرتے اور مکمل قرآن سنتے۔ نامور شاعر سرفراز شاہد کا ایک شعر شدت سے یاد آ رہا ہے کہ:

شاہدؔ سے کہہ رہے ہو کہ روزے رکھا کرے

ہر ماہ جس کا گزرا ہے رمضان کی طرح

ٍرمضان المبارک کے مہینے میں سحری کے وقت بہت سے لوگ جدید سہولیات کی وجہ سے موبائل کے الارم سے جا گ جاتے ہیں، کبھی ایسے سنہرے دور بھی ہُوا کرتے تھے جب ہم ’’اماں‘‘ کی ڈانٹ پڑنے سے، کبھی مساجد کے لوڈ اسپیکر سے گونجنے والی آوازوں سے، کبھی گلی میں ڈھول بجانے والے کی تھاپ سے، کبھی بڑی بہن کی نٹ کھٹ سی شرارتوں سے سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوتے۔

اُن دنوں ہم گھر والے سحری کے وقت اپنے عزیزوں اقارب کے گھروں پر دستک دیتے ہوئے اُن کو روزہ رکھنے کے لیے اُٹھاتے یا اُن کو فون پر اطلاع دیتے کہ سحری کا وقت ختم ہونے میں اتنا وقت رہ گیا ہے۔ اب بھی وقت اور شکلیں وہیں ہے بدلا تو صرف انسان اور اُس کی سوچ۔ وگرنہ آج بھی وہیں راستے، وہیں گلیاں، وہیں ڈھول بجانے والے، وہیں مساجد میں گونجنے والی صدائیں اور سحر و افطار کا وقت بتانے والے موجود ہیں۔

نہیں ہے تو وہ خون کے رشتوں میں احساس کی خوشبو اور سچی وفاؤں کا خلوص شامل جو کبھی پہلا ہُوا کرتا تھا۔ پہلے ہم لوگ ایک دوسرے کو ایک ساتھ سحرو افطارکرنے کی ضیافت دیا کرتے تھے، مگر اب نفسا نفسی کے دور میں انسانی رویوں میں اس قدر تبدیلی آ چکی ہے کہ ایک ساتھ بیٹھنا تو دورکی بات ایک دوسرے کو ایک نظر پیار سے دیکھنا بھی گوارا نہیں کرتے۔ ایسے لوگوں کے لیے بشیر بدرکا خیال کافی ہے:

سات صندوقوں میں بھر کر دفن کردو نفرتیں

آج انسان کو محبت کی ضرورت ہے بہت

رمضان المبارک میں سحر و افطار کے اوقات بدلتے رہتے ہیں، رمضان کے پہلے پندرہ دن نمازِ عصر ادا کرتے ہی گھر پر افطاری کا اہتمام کرنا اس دوران گھر کے دسترخوان پھلوں،کھانوں اور سموسے، پکوڑیوں سے سجا ہُوا ہوتا ہے۔

اس دوران فروٹ زیادہ اورکھانا کم کھایا جاتا ہے، پیاس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے لیمو پانی یا شربت تیارکیا جاتا ہے۔ اس ماہِ مبارک میں ہر شخص کی کوشش ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ عبادت اور دوسروں کی خدمت میں وقت گزارا جائیں۔ اس لیے رمضان میں ایک قرآن پاک نمازِ تراویح میں سننے اور قرآن جتنا آسانی سے پڑھ سکے۔

اسی طرح رمضان میں بچوں کی روزہ کشائی کے حوالے سے بہت سی مساجد اور مدارس میں تقریبات کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں بچوں کو روزہ رکھنے، نماز پڑھنے، صدقہ و زکوٰۃ، روزہ افطارکرنے جیسے موضوعات پر خاص درس دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا کی بات کریں تو رمضان کے دوران بہت سی اچھی بچوں اور بڑوں کی تصاویر اور وڈیوز دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ایسے میں کچھ لوگ رمضان کا احترام نہ کرتے ہوئے بھی بُرائی کا راستہ اپناتے دکھائی دیتے ہیں۔ بقول شاعر:

بُرائی چھپانے سے چھپ نہ سکے گی

خدا بھی تو دیکھو تمہیں دیکھتا ہے

رمضان میں زکوٰۃ اکٹھی کرنے کے لیے فلاحی ادارے خوب سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ کچھ ادارے مستحق لوگوں کی مدد کرتے ہیں تو کچھ اپنا پیٹ بھرنے کے سوا کچھ نہیں کرتے۔ زکوٰۃ دیتے وقت گلی محلوں میں کچھ لوگ سارا سارا دن مردوں، عورتوں کے ہجوم کا میلہ لگا رکھتے ہیں اور افطار کا وقت ہوتے ہی گنتی کے چند افراد میں پیسے یا راشن تقسیم کرنے پر کچھ لوگوں کو غلیظ زبان کا سہارا لینے پرگالیوں کی برسات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کل صبح پھر آنا۔ اسی آس اور اُمید پر نمائشی زکوٰۃ کے چکر میں بہت سی غریب اپنی ماں ، بہن، بیٹیوں کی آبروگنوا بیٹھتے ہیں۔

میرے خیال میں اللہ کے راہ میں مال خرچ کرتے ہوئے کسی بھی غریب عزیزوں اقارب کی محرومیوں کا تمسخر نہ اُڑایا جائیں، ایسے لوگوں کو چاہیے کہ اللہ کے حبیب حضرت محمدؐ کے فرمان کے مطابق ایک ہاتھ سے کسی کو دو اور دوسرے ہاتھ کسی کو خبر تک نہ ہو۔

رمضان سے دس دن قبل کچھ لوگ عید کی تیاریاں مکمل کر لیتے ہیں تاکہ روزے رکھنے کے دوران بازاروں کے چکر نہ لگانا پڑے۔ کچھ لوگ آدھا رمضان گزر جانے کے بعد بازاروں کا رُخ کرتے ہیں۔

عید الفطر پر ہم ہر سال اپنا قومی لباس ’’شلوار قمیض‘‘ بڑے شوق کے ساتھ سلواتے ہیں، تاکہ پہلے دن اسے پہن کر عید کی نماز ادا کی جائے، دوسرے اور تیسرے دن کے لیے بازار سے پینٹ شرٹ اور جوتوں کی خریداری کرتے ہیں جب کہ گھر کی خواتین کی زیادہ تر ڈیمانڈز آن لائن کپڑے منگوانا، جیولری ، مہندی پہلی ترجیحات ہوتی ہے۔

رمضان میں کپڑے سلائی کرنے والے ڈیلر کے دن بھی اچھے آئے ہوتے ہیں ہر شخص ٹیلر ماسٹرکو ڈھونڈ رہا ہوتا ہے کہ کہیں نہ کہیں سے ہمیں وقت پر سوٹ سلائی ہُوا مل جائیں۔ ایسے میں ٹیلر ماسٹر بھی ضرورت سے زیادہ کا معاوضہ چارج کرتے ہیں وگرنہ کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے پاس وقت نہیں ہے۔ میرے پسندیدہ شاعر ناصر کاظمی کے ایک شعر کا پہلا مصرعہ کچھ اس طرح سے یاد آ رہا ہے کہ:

نئے کپڑے بدل کر جاؤں کہاں اور بال بناؤں کس کے لیے

رمضان میں سوشل میڈیا کو پہلے کی طرح مرد حضرات کم وقت دیتے ہیں جب کہ خواتین گیارہ مہینوں کی طرح ہی وقت دیتی ہیں تاکہ ڈرامے کی نئی قسط نہ نکل جائیں۔ اس حوالے سے کبھی پھر تفصیل سے بات ہوگی۔

عیدالفطر کے موقع پر ہر شخص کی ملک و ملت کی سلامتی کے لیے دُعا ہوتی ہے کہ آنے والا ہمارا ہر دن اچھا اور یاد گار ثابت ہو۔ نمازِ عید ہم گھر کے قریب مسجد میں ادا کرتے ہیں جہاں قریبی رشتے دار اور محلے دار ایک ساتھ محبت کی خوشبو بانٹتے اور دلوں سے کدورتوں کو مٹاتے نظر آتے ہیں۔

مجھے یاد ہے کبھی ہمارے دور میں رشتے داروں اور دوستوں کو عید کارڈ بھیجنے کی روایت عام تھی جو جدید وقت کے ساتھ مستقل ختم ہو کر رہ گئی۔ اُس زمانے میں ہم عید کارڈ میں کسی کو پھول، محبت بھری باتیں بھیجا کرتے تھے۔ اب عید کارڈ کے بجائے ہم عید نماز پڑھ کر خاص خاص لوگوں کو واٹس اپ پر عید مبارک کہہ کر گزارا کر لیتے ہیں۔ قمر بدایونی کا شعر ملاحظہ فرمائیں:

عید کا دن ہے گلے آج تو مل لے ظالم

رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے

سمندر پار بچوں اور عزیزوں کی بات کریں تو عید پر اُن کو وڈیو کال پر عید مبارک کہنے اور سننے سے آنکھیں اشکِ تر ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں اُن کی موجودہ شدت سے محسوس ہونے لگتی ہے۔ آخر میں مسافروں، عام شہریوں، غریبوں کے لیے سحری و افطار کا جو اہتمام کیا جاتا ہے وہ کچھ جگہوں پر سراہنے کے قابل بھی ہے کچھ جگہوں پر نہیں بھی۔

کیوں کچھ لوگ دکھاؤے کے لیے بانٹتے ہیں تو کچھ لوگ اللہ کی رضا کے لیے۔ آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ رمضان کے مہینے میں جس طرح عبادت کو اپنا معمول بناتے ہیں، باقی گیارہ مہینوں میں بھی اللہ کے گھروں کو آباد رکھا کریں، دوسروں کو کھانا کھلاتے رہیں اور غریبوں ، بے سہاروں، عزیز رشتوں داروں کا خلوصِ نیت سے ساتھ دیتے رہیں۔ میری دُعا ہے کہ اللہ ہمارے رمضان کے روزے، عبادتیں، خدمتیں، دُعائیں اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں