
بے مقصد لمحے اور احساس چشم زدن میں محو ہوجایا کرتے ہیں مگر سماج کو باشعور دھارے پر ڈھالنے اور تاریخ بنانے والے کردار ایک پل کے لیے محو نہیں ہو پاتے۔پاکستان کی تاریخ میں جہاں کمیونسٹوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، وہیں کمیونسٹ فکر و نظریات کی آبیاری کرنے والے امام علی نازش بھی خم ٹھونک کر استقامت سے اپنے کمیونسٹ سیاسی نظریات پر قائم رہے۔
دنیا بھر میں کمیونسٹ جدوجہد ہی کے نتیجے میں مارچ خواتین کے حقوق کا جہاں مہینہ ہے، وہیں 9 مارچ کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل کامریڈ امام علی نازش کی جدائی کا دن بھی ہے، یہ دن کمیونسٹ نظریے کے ساتھیوں کے لیے غم و اندوہ کا وہ روز تھا جب سب کامریڈز جہاں اداس تھے وہیں وہ سب ایک نئے جذبے سے پر عزم بھی تھے۔
25 برس کے ماہ و سال اور کمیونسٹ نظریہ دانوں کی کج روی اور مفاد پرستانہ سوچ نے جہاں امام علی نازش کے سیاسی نظریے کو دریدہ کیا، وہیں نوجوان نسل میں کمیونسٹ تحریک کو ازسر نو منظم کرنے کے نئے زاویے بھی نکلتے جا رہے ہیں جو آخر کارکسی بڑی تحریک کا محور ضرور ہوں گے۔ کامریڈ امام علی نازش کی سیاسی تربیت، سیاسی شائستگی اور اصول پر ڈٹ جانے والا کردار آج بھی ایسی مشعل ہے کہ جس سے اس بے ترتیب سماج کو جوڑنے اور نئے حالات میں سیاسی و نظریاتی شعورکے چراغ جلانے کا کام کیا جا سکتا ہے کہ تاریخ ہمیشہ اصول نظریات اور ثابت قدمی کو ہی یاد رکھتی ہے۔
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب شرافی گوٹھ کراچی میں 1986 میں سیاسی عمل کی تقسیم جاری تھی۔ اسی دوران کمیونسٹ پارٹی کی کانگریس کے بعد شکست خوردہ دوستوں کی کم ہمتی یا رخصتی بعد پارٹی کے سیکریٹری جنرل امام علی نازش کی سربراہی میں فیصلہ کیا گیا کہ پارٹی کی تنظیم کاری کے لیے پارٹی کو سماج میں ہر سطح پر منظم کیا جائے۔
اس سلسلے میں پارٹی کے تمام طلبہ، خواتین، مزدور،کسان، ادبا اور دانشور کے علاوہ صحافت کے فرنٹس کو ازسر نو منظم کرنے کی حکمت علی طے کی گئی۔ اسی سلسلے کی کڑی میں پارٹی کی ترجمانی اورکمیونزم کے پرچارک خاطر ’’روشن خیال‘‘ پرچے کا اجرا اظہر عباس کی قیادت تحت زاہدہ حنا اور ندیم اختر کی ادارت میں شروع کیا گیا۔
پرچے کی کامیابی اور مشاورت کے لیے اس وقت ہم سب کو جون ایلیا، جام ساقی اورامام علی نازش باقاعدگی کے ساتھ اپنی موجودگی کو یقینی بناتے رہے اور قیمتی مشوروں سے ہماری حوصلہ افزائی کرتے رہے۔میری پہلی ملاقات ڈاکٹر مظہر عباس کے توسط سے امام علی نازش سے روشن خیال کے دفتر میں ہوئی تھی اور ان کی خواہش پر ہی میں روشن خیال رسالے کی ٹیم کا آخری دم تک حصہ رہا۔
میری یہ ملاقات ان کے آخری سانس تک جڑی رہی جب کہ عملی طور سے ان کے دیے گئے مارکسی اصول اور ضابطے اب تک میری اور میرے کنبے کی تربیت اور حیات کا وہ حصہ ہیں جن کو میری بیٹیاں لیلی اور مرضیہ اپنی نظریاتی بختی کا روشن خیال سرمایہ سمجھ کر کوشش کرتی ہیں کہ وہ ’’ نازش دادا‘‘ کے خواب کو زندگی میں عملی جامہ پہنا سکیں۔
امام علی نازش نے امروہہ کے علمی،تہذیبی اور خوشحال گھرانے میں آنکھ کھولی،علم و تہذیب کے تمام مدارج طے کرنے کے بعد ہندوستان کے معروف مدرسے سلطان المدارس میں پڑھنے کے لیے داخلہ لیا، جہاں ان کے ہم جماعتوں میں معروف ترقی پسند شاعرکیفی اعظمی اور علی سردار جعفری نمایاں تھے۔
مدرسے کی تعلیم کے دوران کتب بینی اور دنیا کے انسانوں کے درمیان تفریق اور غربت کی بنیاد پر بدتر برتائو نے انھیں مارکسزم کی جانب راغب کیا اور یوں کیفی اعظمی اور علی سردار جعفری کے ساتھ مل کر مدرسے میں ایک ’’مارکسسٹ اکھنڈ‘‘ بنایا اور باقاعدہ مارکس اور لینن کے نظریات کا مطالعہ کیا،اسی دوران خوشحال گھرانے کی مولوی بننے کی خواہش دم توڑ گئی۔
امام علی نازش کے جاگیردار باپ نے مدرسے کی تعلیم مکمل کرانے کے بعد بیٹے کو اجتہادی عالمانہ تعلیم کے لیے نجف عراق روانہ کیا جہاں امام علی نازش نے عربی اور فارسی پر عبور حاصل کیا اور اجتہاد مکمل کرنے کے بعد عالم کی دستار بندی سے پہلے کمیونزم برپا کرنے کا عزم لیے ہندوستان لوٹ آئے۔
یہ دور دنیا میں سوشلسٹ سماج قائم کرنے کا وہ رجحان تھا جس نے ہندوستان کے ہر نوجوان کو اپنی گرفت میں لے رکھا تھا۔ ترقی پسند خیالات فرسودگی کو اپنے توانا جذبے اور روشن خیال فکر سے شکست دے رہے تھے،ہندوستان کے ہر نوجوان میں بھگت سنگھ کے سوشلسٹ خیالات جوش و جذبے کا سبب تھے،اس ماحول میں سجاد ظہیر اور دیگر دوستوں کی نظریاتی تنظیم انجمن کی وہ نشستیں ہوا کرتی تھیں جہاں مخدوم،جاں نثار اختر،ساحر لدھیانوی،کیفی اعظمی،پریم چند،کرشن چندر، مولانا چراغ حسن حسرت،جوش،فیض اور دیگر اکابرین کمیونسٹ سماج کا خواب سجائے انسانی بقا اور ایک انصاف بر مبنی سماج کے قیام میں نوجوان شعرا و ادیب کا با شعور حوالہ تھے۔
اسی دوران ہندوستان میں سیاسی بیداری کی لہر نے انگریزوں کی غلامی قبول نہ کرنے کا جب تہیہ کیا تو انگریز سرکار نے متحدہ ہندوستان کی طاقت اور نظریاتی سوچ کی پختگی کے خوف سے ہندوستان کی تقسیم کا جال بنا اور یوں ہندوستان کی مضبوط کمیونسٹ تحریک کو بٹوارے پر مجبور کیا،اس مرحلے پر کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا نے سجاد ظہیرکی سربراہی میں امام علی نازش کو پاکستان آباد کرنے کا کہا اور امام علی نازش اپنی نو بیاہتا بیوی کی فرمائش پر پاکستان منتقل ہوگئے اور سرحدوں کی تقسیم کے باوجود دونوں آخری دم تک ایک ساتھ رہے۔
نازش نے اوجھا میں تمام ساتھیوں کے سامنے آخری ہچکی لی تو نہ ان کا کوئی بینک اکاؤنٹ تھا اور نہ کوئی جمع پونجی۔ ہاں! ان کی جیب سے سو کا ایک نوٹ ضرور برآمد ہوا تھا۔ امام علی نازش ایسے عوام دوست، اور کمیونسٹ آدرش پر مکمل اترنے والے اس سیاستدان کی مثال تھا جو صرف عوام کے حق اور اس کو انصاف دلانے کی امنگ و جستجو رکھتا ہو، جو عوام کے جمہوری حقوق حاصل کرنے کی لگن میں نہ مراعات کا خواہاں ہو نہ دولت مند بننے کا طلب گار...آج بھی امام علی نازش کمیونسٹ سماج قائم کرنے کا وہ مضبوط حوالہ ہے جن کے کمیونسٹ نظریے پر چل کر ہم اب بھی اپنی سیاسی و نظریاتی صفوں کو درست کر سکتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔