
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ گردشی معیشت کو فروغ دینے سے پاکستان کو معاشی، ماحولیاتی اور سماجی مسائل اور بحرانوں پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ملک میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ جس میں کاروباری بڑھ سکیں اور معیشت ترقی کرسکے، ترقی یافتہ ممالک اور بہت سے ترقی پذیر ممالک آج لینیئر معیشت سے نکل کر گردشی معیشت کی طرف جارہے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ گردشی معیشت سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر روزگار کے مواقع پیدا ہونگے، جیسا کہ فصلوں کی باقیات کو جلانے سے ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ شدید ہوتا جارہا ہے، لیکن اگر فصلوں کی باقیات کو جلانے کے بجائے ایوی ایشن فیول اور ڈیزل میں تبدیل کر دیا جائے تو اس سے نہ صرف آلودگی کا مسئلہ حل ہوگا بلکہ نئی ملازمتیں بھی جنم لیں گی، کئی نئی صنعتوں کا جنم ہوگا، تحقیق اور تخلیق کے نئے میدان جنم لیں گے، جس سے روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔
ممتاز سائنسدان اور گردشی معیشت کے ماہر ڈاکٹر عدیل غیور نے اس حوالے سے کہا کہ ماہرین اور ٹیکنوکریٹس کی نگرانی میں کثیر شعبہ جاتی، پالیسی پر مبنی نقطہ نظر کے ذریعے ماحولیاتی، معاشی اور سماجی چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سرکلر اکانومی سے اسٹریٹجک طور پر فائدہ اٹھا سکتا ہے۔
جس کیلیے بنیادی توجہ سیکٹر وائز ہونا چاہیے، جیسا کہ خاص طور پر زراعت، ٹیکسٹائل، تعمیرات، پیٹرو کیمیکلز اور قابل تجدید توانائی جیسے سیکٹر تاکہ پالیسی سے بہترین فائدہ اٹھایا جاسکے۔
انھوں نے کہا کہ اس صلاحیت کو مکمل طور پر حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسیوں کو ہموار کیا جائے اور سرمایہ کاری کو قابل تجدید اور سبز ٹیکنالوجیز میں منتقل کیا جائے، جو اقتصادی خود انحصاری کے حصول کے لیے انتہائی اہم ہیں۔
کلائمیٹ ایکشن سینٹر (سی اے سی) کے ڈائریکٹر یاسر حسین نے کہا کہ گردشی معیشت ابھرتی ہوئی سبز معیشت کا حصہ ہے، گردشی معیشت مواد کی گردش ہے جب وہ صنعت سے صنعت اور مصنوعات کی طرف منتقل ہوتے ہیں اور فطرت کی حفاظت/دوبارہ تخلیق کرتے ہوئے فضلہ، آلودگی اور کاربن کے اخراج کی پیداوار کو کم کرتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔