
جعفر ایکسپریس کے سانحے نے نڈھال ہی کر ڈالا تھا کہ ڈاکٹر خلیل طوقار کی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ ڈاکٹر صاحب ان دنوں ہوتے تو پاکستان میں ہیں فی الاصل ترکیہ میں وہ چلتا پھرتا پاکستان ہیں۔ گزشتہ تین چار دہائیوں میں ترکیہ میں پاکستانی ادب، اقبال، اردو اور پاکستان حتیٰ کہ کشمیر کے بارے میں جتنا کام انھوں نے کیا ہے، شاید ہی کسی نے کیا ہو۔ ڈاکٹر صاحب نے ایک کتابچہ میرے سپرد کیا اور کہا کہ دیکھیے، کچھ ایسی بات اس میں ہے جو آپ کے دل کے قریب ہو گی۔ عنوان اس کتاب بے کا ہے، ' استقلال مارشی' یعنی نغمہ آزادی ۔
اس نغمے کے ساتھ میری بہت سی خوش گوار یادیں وابستہ ہیں۔ ان یادوں کا تذکرہ بھی دل نشیں ہے لیکن مناسب ہو گا کہ پہلے کچھ ذکر اس نغمہ نگار کا کر لیا جائے۔ یہ 2016-17 کی بات ہوگی، ڈاکٹر خلیل طوقار ان دنوں لاہور میں تھے اور وہاںانھوں نے ترک مرکز ثقافت یونس ایمرے انسٹی ٹیوٹ کی پاکستان شاخ قائم کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ میں اقبال اور محمت عاکف ایرصوئے پر ایک سیمینار کرنے جا رہا ہوں، تمھیں بھی اس میں شرکت کرنی ہے، صرف شریک نہیں ہونا، مقالہ بھی پیش کرنا ہے۔ اب مجھے اعتراف کر لینا چاہیے کہ ترکیہ اور ترکوں سے تمام تر تعلق خاطر کے باوجود میں محمت عاکف ایرصوئے کو نہیں جانتا تھا۔ یہ درست ہے کہ ہمارے اقبال رومی کو اپنا مرشد جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود میں رومی کے سوا کسی دوسرے کو اقبال کا ہم پلہ سمجھنے پر تیار نہیں تھا لیکن میرے اس یار نے عاکف ایرصوئے کا باب کھولا تو میرے دل میں بدگمانی کی چھوٹی سی ایک لہر اٹھی اور میں یہ سمجھا کہ یہ اقبال کا مرتبہ گھٹانے کی کوشش ہے۔ میری رائے کبھی نہ بدلتی اگر ایک روز اس شاعر کا کلام میرے ہاتھ میں نہ ہوتا۔
یہ محمد عاکف ایرصوئے کے ترکی کلام کا اردو ترجمہ تھا جو آرسی ڈی کی دین تھا۔ لیجیے کیا یاد آ گیا۔ ایک زمانہ آرسی ڈی کا بھی تھا جب ہمارے بزرگوں یعنی پاکستان، ترکیہ اور ایران نے مل کر آگے بڑھنے کا خواب دیکھا تھا یوں ریجنل کوآپریشن فار ڈیویلپمنٹ یعنی آر سی ڈی وجود میں آیا۔ اس ادارے نے بہت سے کام مادی ترقی کے بھی کیے ہوں گے کبھی ان کی تفصیل بھی سامنے آئے گی لیکن ایک کام ایسا کیا جس نے برادر ملکوں کی روح کو قریب کر دیا۔ یہ کام رکن ملکوں کے ادب کا ترجمہ یعنی ترکی اور ایرانی ادب کا اردو میں اور اردو ادب کی ان دو زبانوں میں منتقلی تھا۔ آر سی ڈی تو مرور ایام کا شکار ہو کر تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن اس کی شائع کی ہوئی کتابیں آج بھی لو دیتی ہیں۔ میرے پاس اس ادارے کا شائع کیا ہوا صرف عاکف ایرصوئے کا کلام نہیں ہے بلکہ یونس ایمرے کا کلام بھی ہے جو رومی کے تقریبا ہم عصر تھے۔
عاکف ایرصوئے کے کلام کا میں نے مطالعہ کیا تو ششدر رہ گیا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب سانحہ اے پی ایس کے زخم ابھی تازہ تھے اور ہم سوچتے تھے کہ آخر ہم میں ناراضی، تخریب اور تشدد کے اتنے بہت سے جراثیم کہاں سے آگئے؟ یہ عاکف ایرصوئے کا بہ ذریعہ ڈاکٹر خلیل طوقار کا مجھ پر احسان ہے کہ میں نے اس موضوع پر سوچا اور میں نے یہ جانا کہ اصل اقبال تو کوئی اور ہے جس تک ہم پہنچ ہی نہیں پائے یا پہنچنے ہی نہیں دیا گیا۔ عاکف ایرصوئے کا ترجمہ وہ دامن تھا جسے تھام کر میں اس بحر بے کنار کی تہہ میں اترا۔ اقبال نے جیسے شاہین اور مرد مومن کے کردار تخلیق کیے تھے، ایسا ہی ایک کردار عاکف ایرصوئے کا بھی تھا، عاصم۔ عاکف ایرصوئے کو پڑھتے چلے جائیے، دانائی کی ان گنت باتیں ہیں جو اس شاعر نے عاصم کو مخاطب کر کے کہی ہیں۔ ایسی ہی نظم تو میرے دل میں نقش ہو کر رہ گئی۔ یہ نظم عاصم کی ایک پر تشدد سرگرمی کا بیان ہے۔ ہوا یہ کہ عاصم جو ایک پرجوش نوجوان ہے، شراب اور اس کے نشے سے متنفر ہے اور چاہتا ہے کہ مسلم معاشرہ اس کی تباہ کاری سے محفوظ رہے لہٰذا وہ ایک شراب خانے پر حملہ کر کے وہاں توڑ پھوڑ کے علاوہ اور شرابیوں کی مرمت بھی کر دیتا ہے۔ عاکف ایرصوئے اس طرز عمل پر پریشاں ہو کر ایک نظم کہتے ہیں:
عاصم!
مری سن،
میری طرف دیکھ، مری مان
اس راہِ جنوں خیز سے بہتر ہے پلٹ آ
یہ کاوش بے سود ہے
اس کاوشِ بے سود سے حاصل نہیں کچھ بھی
یہ بند گلی ہے
دیوار سے ٹکرا کے نہ کر اپنی جبیں خوں!
اس وحشتِ خود سر سے یہ بہتر ہے کہ باز آ!
اسی نظم میں وہ ترک نوجوانوں کو ہدایت کرتے ہیں کہ تمھارا کام اچھے اور برے کی شناخت ہے لیکن ایک منظم معاشرے میں کسی شہری کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے۔ اگر ایسا کیا جائے گا تو معاشرہ فساد سے بھر جائے گا۔ اس نظم نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور میں نے سوچا کہ کاش، اقبال نے بھی ایسی کوئی نصیحت ہمیں کی ہوتی۔ اب تک میں اسی اقبال کو جانتا تھا جس کے بارے میں اب تک ہمیں بتایا گیا تھا لیکن اس نظم کے مطالعے کے بعد میں نے اقبال کو از سر نو دریافت کیا، وہ اقبال جو کہتا ہے
دہر میں عیش و آرام ، آئیں کی پابندی میں ہے
موج کو آزادیاں سامانِ شیون ہو گئیں
یا پھر:
وا نہ کرنا فرقہ بندی کے لیے اپنی زباں
چھپ کے ہے بیٹھا ہوا ہنگامہ محشر یہاں
وصل کے اسباب پیدا ہوں تری تحریر سے
دیکھ !کوئی دل نہ دکھ جائے تیری تقریر سے
ہمارے سماج میں مسلمان اور کافر کے فرق میں بھی بڑی نزاکتیں پائی جاتی ہیں لیکن اگر اقبال سے پوچھیں تو وہ کہتے ہیں
حرفِ بد را برلبِ آوردن خطا است
کافرو مومن ہمہ خلقِ خدا است
یعنی مسلمان تو رہے ایک طرف غیر عقیدے کے فرد کے بارے میں بھی تمھاری زبان سے کچھ برا نہ نکلے کیوں کہ کافر ہوں یا مسلمان، دونوں ہی اللہ کی مخلوق ہیں۔
اتنی تفصیل اس لیے بیان کی کہ یہ محمت عاکف ایرصوئے تھے جن کی وجہ سے میں اصل اقبال تک پہنچا جو صرف حریت اور جہاد کا درس نہیں دیتے، عقائد سے بلند ہو کر احترام آدمیت، بقائے باہم اور معاشرے کو باہم جوڑ کر اسے مضبوط بنانے کا سبق بھی دیتے ہیں۔ محمت عاکف ایرصوئے کا تعارف مجھ پر گویا احسان تھا۔ ڈاکٹر خلیل طوقار نے اب ایک احسان اور کیا ہے۔ استقلال مارشی کا اردو میں ترجمہ کر کے نہ صرف یہ کہ ترکیہ کے بارے میں ہماری ایک غلط فہمی کا ازالہ کر دیا بلکہ ہم لوگوں کو جو گزشتہ کچھ عرصے سے جعفر ایکسپریس اور اس جیسے سانحات کو اپنی جان جان پر جھیل کر ہلکان ہو چکے ہیں، حوصلہ ملا ہے۔ترکیہ عظیم عالمی جنگوں کے دوران میں تقریباً اسی قسم کے مسائل سے دوچار تھا جن کا ہمیں ان دنوں سامنا ہے، یہی زمانہ ہے جب عاکف ایرصوئے نے ترکیہ کا قومی ترانہ یعنی استقلال مارشی تحریر کیا۔ یہ ترانہ پاکستان کے قومی ترانے کی طرح نظریاتی ترانہ ہے جس میں وہ دشمن کو غیر محرم قرار دے کر اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ وہ میرے پاک وطن کی مساجد کو کبھی چھونے کی ہمت نہ کر پائے گا۔ وہ مزید کہتے ہیں
یہ آذانیں جو تیرے مذہب کی گواہی دے رہی ہیں
ابد تک میرے وطن کی فضاں میں یوں ہی گونجتی رہیں
ہم آپ کمال اتاترک کے مذہبی رجحانات کے بارے میں جانے کیا کچھ کہتے رہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ترانہ مصطفی کمال اتاترک کے دور میں لکھا گیا اور خود انھوں نے ہی اس کی منظوری بھی دی۔ اس ترانے کی ایک اور بڑی خوبی دکھی قوم کو حوصلہ دینا ہے تاکہ وہ درپیش چیلنجوں سے نمٹ کر اپنا مقام حاصل کر سکے۔ وہ کہتے ہیں
بے شک طلوع ہوگی وہ شفق جس کا تجھ سے وعدہ کیا ہے رب ذوالجلال نے
خدا جانے آنے والا کل یا شاید اس سے بھی بہت پہلے
ڈاکٹر خلیل طوقار نے ہماری تاریخ کے اس نازک مرحلے پر استقلال مارشی کا اردو ترجمہ کر کے یقینا کارنامہ کیا ہے، حالیہ صدمے کے موقع پر ہمیں ایک ایسے ہی جذباتی سہارے کی ضرورت تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایکو آف فلسطین
چند ہفتے قبل شائع ہونے والے 'ایکو آف فلسطین' کانفرنس کے موضوع پر کالم کا ذکر کرنا ہے۔ اس کالم میں؛ میں نے مسئلہ فسلطین کے حل کے لیے علامہ اقبال کے افکار کی روشنی میں کچھ تجاویز پیش کی تھیں جس پر ملا جلا ردعمل سامنے آیا تھا۔ میں نے لکھا تھا کہ جماعت اسلامی کے نائب امیر محمد اسامہ رضی نے ان کے بارے میں کہا تھا کہ یہ تجاویز اہم ہیں۔کالم کی اشاعت کے بعد انھوں نے توجہ دلائی ہے کہ انھوں نے تجاویز کو اہم قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ یہ گفتگو اتنے بڑے پلیٹ فارم پر نہیں ہونی چاہئے تھی۔ یہ بات درست ہے، انھوں نے ایسا ہی کہا تھا۔ریکارڈ کی درستی کے لیے یہ تذکرہ ضروری تھا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔