مولانا فضل الرحمن کو صدمے پہ صدمہ

مولانا حامد الحق حقانی شہید بھی حضرت مولانا فضل الرحمن کے قریبی اور معروف ہم مسلک ساتھی تھے


tanveer.qaisar@express.com.pk

حضرت مولانا فضل الرحمن بیرونِ ملک دَورے سے واپس آ چکے ہیں ۔ اِس دَورے کے دوران ہی انھیں کئی صدموں کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ وہ بیرونِ ملک ہی تھے کہ ’’کیچ‘‘(بلوچستان)کے ممتاز عالمِ دین ، مفتی شاہ میر بزنجو، کو7اور8مارچ2025کی درمیانی شب شہید کر دیا گیا ۔ مفتی صاحب مذکور نمازِ عشاء اور تراویح سے فارغ ہُوئے ہی تھے کہ مسلّح دہشت گردوں نے انھیں گولیاں مار دیں ۔ شدید زخمی حالت میں انھیں مقامی (تربت) اسپتال منتقل کیا گیا ۔ مگر وہ جانبر نہ ہو سکے ۔

شہیدمفتی شاہ میر صاحب ، جے یو آئی (ایف) کے مشہور عالمِ دین ، مقامی سطح پر جماعت کے سیکریٹری جنرل اور قبلہ مولانا فضل الرحمن کے معتمد دوستوں میں سے تھے ۔ پہلے بھی دوبار اُن پر قاتلانہ حملے ہُوئے تھے۔ ٹارگٹ کلرز نے انھیں ہدف بنا کر یقیناً ملک کو علمی و دینی لحاظ سے تو گزند پہنچایا ہی ہے، مولانا فضل الرحمن صاحب اور جے یو آئی کو بھی سخت نقصان، صدمہ اور دھچکا پہنچایا ہے ۔

حیرانی کی بات ہے کہ کئی بھارتی اخبارات نے بھی مفتی شاہ میر کے قتل کی خبر نمایاں طور پر شایع کی ہے ۔ مثلاً’’انڈین ایکسپریس‘‘ اور’’این ڈی ٹی وی ورلڈ‘‘نے یوں خبر شایع کی :’’ بلوچستان (پاکستان) کے علاقے تربت میں معروف مذہبی شخصیت، مفتی شاہ میر، قتل کر دیے گئے۔ یہ وہی شاہ میر تھے جنھوں نے بھارتی نیوی کے افسر ، کلبھوشن یادیو، کو گرفتار کرانے میں مدد فراہم کی تھی ۔‘‘

پاکستان دشمن بھارتی جاسوس ،کلبھوشن یادیو، کو2017میں بلوچستان سے رنگے ہاتھوں گرفتار کیا گیا تھا ۔ لمبی سزا پانے کے بعد وہ اب بھی پاکستانی جیل میں ہے ۔ بھارتی اخبارات کی جانب سے یہ خبر خصوصی طور پر شایع کرنے کا کیا یہ مطلب نہیں ہے کہ مفتی شاہ میر بزنجو کی شہادت میں بھارت کا ہاتھ ہے ؟اِس سے پہلے بھی بھارتی خفیہ ایجنسیاں پاکستان میں ٹارگٹ کلنگ کر چکی ہیں، اس لیے یہ شبہ بیجا نہیں ہے کہ مفتی صاحب مذکور کی شہادت میں بھی ملعون بھارت ہی کا کردار ہو۔

ابھی ایک ہفتہ قبل بلوچستان ہی میں مولانا فضل الرحمن کے 2قریبی سیاسی و مذہبی ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا تھا ۔ یہ سانحہ 2 مارچ 2025 کو وقوع پذیر ہُوا۔ دو مارچ کو بلوچستان کے ضلع ’’خضدار‘‘ کے ’’زہری‘‘ علاقے سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی (ایف) کے دو معروف علمائے کرام ( وڈیرہ غلام سرور اور مولوی امان اللہ) گاڑی میں سوار اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ راستے میں نہ معلوم افراد نے اُن پر گولیاں برسا دیں ۔ دونوں علمائے کرام موقع ہی پر شہید ہو گئے۔

لگتا ہے جمعہ کا دن جے یو آئی (ایف) کے علمائے کرام اور سیاستدانوں کے لیے بھاری ثابت ہو رہا ہے ۔مفتی شاہ میر بھی جمعہ کی رات شہید کیے گئے ہیں اور جب 26فروری2025 کو اکوڑہ خٹک کی ممتاز ترین اسلامی درسگاہ کے مشہور عالمِ دین، مولانا حامد الحق حقانی، شہید کیے گئے ، اُس روز بھی جمعہ ہی تھا۔ مولانا حامد الحق حقانی شہید بھی حضرت مولانا فضل الرحمن کے قریبی اور معروف ہم مسلک ساتھی تھے ۔ مولانا حامد بھی اُس وقت شہید کیے گئے جب مولانا فضل الرحمن ملک سے باہر تھے ۔ اُن کی شہادت پر مولانا فضل الرحمن صاحب بجا طور پر دلگرفتہ ہیں ۔

اِسی لیے انھوں نے حامد الحق حقانی کی شہادت پر غمزدہ لہجے میں سانحہ کی مذمت کرتے ہُوئے یوں بیان دیا:’’ مادرِ علمی ، دارالعلوم حقانیہ ، پر (دہشت گردوں ) کے حملے پر دل رنجیدہ اور زخمی ہے۔ دارالعلوم حقانیہ اور برادرم مولانا حامد الحق حقانی پر حملہ میرے گھر اور میرے مدرسے پر حملہ ہے۔‘‘بیرونِ ملک سے واپسی پر مولانا فضل الرحمن فوراً مولانا حامد حقانی شہید کی تعزیت کے لیے دارالعلوم حقانیہ پہنچے اور وہاں سیکڑوں لوگوں کے سامنے خطاب کرتے ہُوئے کہا:’’علما کے خلاف بندوق اُٹھانا جہاد نہیں ، دہشتگردی ہے ۔‘‘ پھر انھوں نے خود کش بمباروں کو مخاطب کرتے ہُوئے سخت لہجے میں فرمایا:’’ تم مجاہد نہیں ، قاتل ہو۔‘‘

یہ الفاظ ہی مولانا فضل الرحمن کے دِلی جذبات کی ترجمانی کررہے ہیں ۔ یوں ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کے لگائے گئے چرکوں اور زخموں کے سبب مولانا فضل الرحمن صاحب کو جو صدمے پہ صدمے پہنچے ہیں ، ان کی نوعیت اور شدت کتنی اور کیسی ہے ۔ مولانا فضل الرحمن کا دہشت گردوں کے خلاف لہجہ بتا رہا ہے کہ اُن کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ہے ۔کیا جے یو آئی (ایف) اور حضرت مولانا فضل الرحمن کو کسی کی نظرِ بَد کھا گئی ہے ؟ ایک سال قبل، 8فروری 2024کے عام انتخابات میں جے یو آئی (ایف) کے گڑھ، خیبر پختونخوا، میں پی ٹی آئی کے مقابل مولانا فضل الرحمن صاحب کی پارٹی کو خاصا بڑا سیاسی و انتخابی دھچکا اور غیر متوقع صدمہ پہنچا تھا ۔

مولانا صاحب اِس دھچکے کے اثرات سے ابھی تک سنبھل نہیں پائے ہیں ۔ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ بارے اُن کے تلخ سیاسی بیانات اِنہی اثرات کا شاخسانہ کہے جا سکتے ہیں ۔مثال کے طور پر عام انتخابات کے تین ماہ بعد ( اپریل2024) مولانا فضل الرحمن صاحب نے ’’پشین‘‘ ( بلوچستان) میں ایک بڑے سیاسی اجتماع سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا:’’اِس بار اسمبلیاں بیچی اور خریدی گئیں ۔ بتایا جائے کہ بلوچستان اسمبلی 70ارب روپے میں خریدی گئی یا 80ارب روپے میں؟۔‘‘ اور ابھی حال ہی میں ( فروری2025) مولانا فضل الرحمن نے نہائت تلخ لہجے میں قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہُوئے بلوچستان کے ’’پانچ سات اضلاع‘‘ بارے اپنے جن شدید خدشات وخطرات کا کھلے الفاظ میں اظہار فرمایا تھا، وہ نہائت غیر معمولی تھے۔

حقیقت اور سنجیدگی کے تقاضے یہ ہیں کہ مولانا فضل الرحمن صاحب بلوچستان بارے ، بار بار، جن پُر تشویش خیالات کا اظہار کررہے ہیں ، ان کی طرف مقتدر و طاقتور ترین حلقے توجہ مبذول کریں ۔ چند دن قبل ہی بلوچستان سے ’’داعش‘‘ کے ایک عالمی شہرت یافتہ دہشت گرد ، شریف اللہ، کی پاکستانی سیکیورٹی اداروں کے ہاتھوں گرفتاری کا واقعہ بتاتا ہے کہ بلوچستان کو کیسے کیسے لوگوں نے اپنی دُھر بنا رکھا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ بلوچستان میں مولانا صاحب کے جن قریبی اور معتمد ، ہم مسلک ساتھیوں کو حالیہ ایام میں بیدردی سے شہید کیا گیا ہے، اِن سانحات نے مولانا صاحب کا دل لخت لخت کررکھا ہے ؛ چنانچہ وہ خود کہتے سنائی دیتے ہیں:’’ بلوچستان کے حالات سنگین ہیں۔ مَیں حد درجہ مایوس اور مضطرب ہُوں ۔‘‘

کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بلوچستان بارے مولانا فضل الرحمن صاحب نے قومی اسمبلی میں اپنے جس اضطراب کا اظہار کیا تھا، ان کی طرف فیصلہ سازوں کی عدم توجہی برتنے کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ جعفر ایکسپریس ٹرین کاسانحہ 11مارچ 2025کو پیش آ گیا ہے ؟ اِس میں 61کے قریب افراد کام آئے جن میں18سیکیورٹی فورسز کے جوانوں کی شہادت بھی شامل ہے ۔ اِس سانحہ کی شدت اسقدر ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اور وزیر اعلیٰ بلوچستان کو اکٹھے ہی، 14مارچ کو، پریس کانفرنس میں صحافیوں کے رُو برو آنا پڑا ہے ۔اور اب15مارچ کو خبر آئی ہے کہ جنوبی وزیرستان کی ایک مسجد پر بم حملے میں جے یو آئی( ایف) کے ممتاز عالمِ دین ، رہنما اور ضلعی امیر ، مولانا عبداللہ ندیم ، شدید زخمی ہو گئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کے لیے ایک اور صدمہ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں