
قیام پاکستان کے وقت بلوچستان پانچ آزاد ریاستوں میں تقسیم تھا‘ قلات سب سے بڑی ریاست تھی‘ اس کے پاس بلوچستان کا 20 فیصد رقبہ تھا جب کہ باقی 80 فیصد علاقہ خاران‘ بیلا‘ مکران اور برٹش بلوچستان میں تقسیم تھا‘ قلات ریاست 1405 میں بنی اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی جغرافیائی حدود افغانستان میں قندہار‘ ایران میں بندر عباس اور کرمان تک پھیل گئیں‘ کراچی بھی اس کا حصہ ہوتا تھا‘ اس زمانے میں قلات میں بلوچ اور براہوی دونوں قبائل آباد تھے لہٰذا قلات کو بلوچ براہوی سلطنت کہا جاتا تھا‘ انگریز نے 1876میں کوئٹہ پر قبضہ کیا اور یہاں چھاؤنی بنا لی‘انگریز نے بعدازاں کوئٹہ سے ملحقہ علاقے خان آف قلات سے لیز پر لے لیے اور یوں برٹش بلوچستان وجود میں آ گیا۔
بلوچستان کا نام اس سے قبل تاریخ میں موجود نہیں تھا‘ انگریز کا فوکس پشتون علاقوں کی طرف تھا لہٰذا وہ افغان سرحد کے ساتھ ساتھ پشتون علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھاتے چلے گئے‘ کوئٹہ کے بعد زیارت اور فورٹ سنڈیمن ان کے بڑے مرکز تھے‘ ڈیرہ بگٹی‘ کوہلو‘ سبی‘ چاغی‘ لورا لائی اور پشین بھی ان میں شامل تھے‘ باقی تمام ریاستیں اور علاقے خودمختار رہے‘ بہرحال 1947میں انگریز نے ہندوستان کی 565 پرنسلی اسٹیٹس کی طرح بلوچستان کی ریاستوں کو بھی دو آپشن دیے‘ بھارت میں شامل ہوجائیں یا پھر پاکستان کے ساتھ مل جائیں‘ برٹش بلوچستان (یعنی کوئٹہ) نے جون 1947میں پاکستان کے حق میں قرارداد پاس کر دی‘ نواب آف خاران نے لیڈ لی اور یہ پاکستان میں شامل ہو گئے۔
چند دن بعد ریاست بیلا اور مکران بھی پاکستان میں شامل ہو گئی یوں قلات پیچھے رہ گئی‘ خان آف قلات میر احمد یار خان اپنے سرداروں کو قائل کر رہے تھے لیکن اس میں بہت وقت ضایع ہو گیا‘ اس دوران آل انڈیا ریڈیو نے قلات کے بھارت میں شامل ہونے کی خبر نشر کر دی‘ اس سے افراتفری پھیل گئی‘ خان آف قلات نے قائداعظم سے ملاقات کی اور 30 مارچ 1948 کو پاکستان میں شمولیت کا اعلان کر دیا‘ اس اعلان میں ان کا خاندان اور دوسرے سرداروں کی رضامندی شامل نہیں تھی چناں چہ میر احمد یار خان کے بھائی پرنس عبدالکریم خان نے بلوچستان نیشنل لبریشن کمیٹی (بی این ایل سی) کے نام سے گوریلا تنظیم بنائی اور بغاوت شروع کر دی۔
پاکستان نے بی این ایل سی کو کچلنے کے لیے بلوچستان میں فوج داخل کر دی اور اس کے بعد بلوچستان میں کبھی امن قائم نہ ہو سکا‘ اس زمانے میں مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ تھا‘ باقی صوبے چھوٹے تھے چناں چہ الیکشن کی صورت میں مشرقی پاکستان کے ایم این اے زیادہ تعداد میں اسمبلی آ جاتے تھے اور یوں حکومت بنگالیوں کے پاس چلی جاتی تھی اور یہ اسٹیبلشمنٹ کو سوٹ نہیں کرتا تھا چناں چہ سکندر مرزا کے دور میں ون یونٹ بنا دیا گیا جس کے بعد مشرقی پاکستان ایک صوبہ اور باقی چار صوبے مل کر دوسرا صوبہ بن گئے‘ بلوچستان نے اسے تسلیم نہیں کیا اور یوں یہاں دوسری مرتبہ بغاوت شروع ہو گئی‘ اس بغاوت کو کچلنے کے لیے فیلڈ مارشل ایوب خان نے بلوچستان میں دوسری مرتبہ فوج چڑھا دی‘ قلات پر قبضہ ہو گیا اور خان آف قلات کا محل لوٹ لیا گیا‘ اس کے بعد پے در پے آپریشن ہوتے چلے گئے یہاں تک کہ نوبت جعفر ایکسپریس پر قبضے تک پہنچ گئی۔
ہمیں آگے بڑھنے سے قبل دو حقیقتوں کا ادراک کرنا ہوگا‘ پہلی حقیقت بلوچستان کی جغرافیائی صورت حال ہے‘ بلوچستان ایک بنجر اور بیابان علاقہ ہے جس کی وجہ سے ماضی میں یہاں کسی بڑی طاقت نے قبضے کی کوشش نہیں کی‘ سکندر اعظم سے لے کر برطانیہ تک کبھی کسی بڑی فوج نے یہاں سے گزرنے کی غلطی نہیں کی‘ اس کی وجہ چارے‘ پانی اور خوراک کی کمی تھی‘ ماضی میں فوجیں گھوڑوں پر سفر کرتی تھیں اور گھوڑوں کو چارہ اور پانی درکار ہوتا تھا اور بلوچستان میں یہ دونوں نہیں تھے لہٰذا بلوچستان کو ماضی میں کسی بڑی یلغار کا سامنا نہیں کرنا پڑا‘ تمام طاقتوں بشمول مغل اور برطانیہ انھیں آزاد تسلیم کرتے رہے اور انھیں ایران اور افغانستان کے بفرزون کی حیثیت سے وظیفہ بھی دیتے رہے اور یہ مجبوری بلوچوں کے ڈی این اے کا حصہ بن چکی ہے۔
یہ جانتے ہیں ہم پر کوئی حملہ آور ہو گا اور نہ مستقل طور پر یہاں رہ سکے گا چناں چہ یہ ہمیشہ دوسروں کی اس کم زوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں‘ دوسری حقیقت ایران کی صفوی حکومت سے لے کر دہلی کے مغلوں اور روس کے زاروں سے لے کر تاج برطانیہ کے نمایندوں تک ماضی کی تمام حکومتیں اور بادشاہ بلوچستان کے سرداروں سے ڈیل کرتے رہے ‘ یہ سرداروں کو دے دلا کر راضی کرلیتے تھے اور یوں بلوچستان ان کے ہاتھ میں رہتا تھا‘ انگریز نے بھی خان آف قلات سے ہزاروں مربع میل کا علاقہ کرائے پر لے رکھا تھا اور یہ انھیں اس کا کرایہ دیتے تھے چناں چہ بڑی طاقتوں اور حکومتوں سے وصولی سرداروں کے ڈی این اے میں شامل ہو گئی ہے۔
حکومت پاکستان بھی یہ غلطی کرتی رہی‘ اس نے ہر دور میں سرداروں کو ہاتھ میں رکھا‘ یہ کبھی ایک سردار کو اقتدار دے کر دوسروں کو کنٹرول کرتی تھی اور کبھی دوسرے سرداروں کو آگے لا کر پہلے سرداروں کو قابو کر لیتی تھی‘ بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے جس کی پوری اسمبلی کابینہ میں شامل ہوتی ہے‘ تمام ایم پی اے وزیر ہوتے ہیں‘ اپوزیشن لیڈر نام کا ہوتا ہے اور یہ بھی صرف پروٹوکول انجوائے کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔
صوبے کا ترقیاتی بجٹ بھی یہ سب آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ آپ المیہ دیکھیے عبدالقدوس بزنجو صرف 544 ووٹ لے کر ایم پی اے بنے (ٹوٹل رجسٹرڈ ووٹ 57666 تھے) اور یہ ان 544 ووٹوں کے ذریعے بعدازاں وزیراعلیٰ بن گئے‘ لوگ انھیں سلیپنگ وزیراعلیٰ کہتے تھے کیوں کہ یہ اپنی شبینہ مصروفیات کی وجہ سے دن بارہ بجے اٹھتے تھے اور اس کے بعد اگلی مصروفیات کا بندوبست شروع کر دیتے تھے اور یہ کھیل بلوچستان میں ہزار سال سے جاری ہے یعنی سرداروں کو ہاتھ میں رکھیں‘ ان کے مطالبات پورے کرتے رہیں اور سسٹم چلاتے رہیں‘ اس بندوبست میں سردار امیر سے امیر ہوتے چلے گئے جب کہ عوام غریب سے غریب ہوتے چلے گئے۔
آپ یہاں دوسرا المیہ بھی دیکھیے‘ بلوچستان کا 90 فیصد حصہ بی ایریا کہلاتا ہے‘ اس ایریا میں پولیس نہیں ہے‘ لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری لیویز کے پاس ہے اور یہ لیویز سرداروں اور نوابوں کی ذاتی فوج ہوتی ہے‘ سردار حکومت کے ساتھ سودا کرتے ہیں‘ آپ ہمیں ہزار فوجیوں (لیویز) کی تنخواہوں اور رہائش کے اخراجات دے دیں اور ہماری فوج (لیوی) لاء اینڈ آرڈر کی ذمے داری اٹھا لے گی‘ حکومت انھیں رقم دے دیتی ہے اور یہ حکومت کو اپنی لیوی کی فہرست دے دیتے ہیں اور یوں یہ رقم سیدھی سردار کی جیب میں چلی جاتی ہے‘ یہ رقم 90 ارب روپے تک پہنچ چکی ہے چناں چہ اگر یہ کہا جائے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے (اے ایریا جہاں پولیس ہے) پر حکومتی رٹ موجود ہے تو یہ غلط نہیں ہو گا‘ اب صورت حال یہ ہے بلوچستان کے صرف دس فیصد علاقے میں پولیس ہے۔
90فیصد علاقہ سرداروں اور ان کی قبائلی فوج کے قبضے میں ہے اور اسمبلی اور حکومت بھی ان کی جیب میں ہے‘ این ایف سی ایوارڈ کے ذریعے صوبے کو پچھلے دس برسوں میں ہزاروں ارب روپے ملے لیکن یہ رقم عام بلوچ پر خرچ نہیں ہوئی‘ یہ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو گئی‘ سردار ایک دوسرے کو گرا کر حکومت حاصل کرنے کی کوشش میں بھی مصروف رہتے ہیں‘ ہم اگر 1973سے آج تک کا ڈیٹا دیکھیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچ جائیں گے بلوچستان میں اقتدار کی باقاعدہ بندر بانٹ ہوتی ہے‘ سرداروں کے مختلف گروپ سال یا دو سال کی دیہاڑی لگاتے ہیں‘ ایک گروپ اقتدار میں آتا ہے‘ صوبے کو دل کھول کر لوٹتا ہے‘ اس کے بعد رخصت ہو جاتا ہے اور پھر اس کی جگہ دوسرا گروپ آ جاتا ہے اور رہی سہی دیگ وہ کھا جاتا ہے۔
ریاست بڑی حد تک اس کھیل کا حصہ ہے‘ یہ خاموشی سے یہ کھیل دیکھتی ہے اور اگر خدانخواستہ کبھی کھیل رک جائے تو یہ اس میں کود کر اسے دوبارہ اسٹارٹ کرا دیتی ہے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا بلوچستان میں فرسٹریشن پھیل گئی۔بلوچستان میں اس فرسٹریشن کی تین وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ سوشل میڈیا ہے‘ بلوچستان پاکستان کے اہم علاقوں سے کٹا ہوا تھا‘ عام بلوچ کو لاہور‘ کراچی اور اسلام آباد کی ترقی کا اندازہ نہیں تھا لیکن جب موبائل فون آیا اور اس کے ساتھ سوشل میڈیا آ گیا تو محروم بلوچ نوجوانوں کو معلوم ہوگیا بلوچستان کے خشک پہاڑوں کی دوسری طرف جنتیں آباد ہیں‘ اس سے ان کے اندر کی محرومی بڑھ گئی‘ دوسری وجہ مواصلاتی ذرایع میں اضافہ تھا‘ جنرل مشرف کے دور میں بلوچستان میں سڑکیں بنیں‘ کوسٹل ہائی وے کے ذریعے بلوچستان کو سندھ سے ملا دیا گیا۔
کے پی اور پنجاب کے ساتھ رابطہ سڑکیں بھی بہتر ہوگئیں لہٰذا بلوچ نوجوانوں کو ملک کے دوسرے علاقے دیکھنے کا موقع مل گیا یوں انھوں نے اپنے حقوق کی بات کرنا شروع کر دی اور تیسری وجہ بلوچ سرداروں کو محسوس ہوا یہ نوجوان جلد یا بدیر ہم سے سوال کرنا شروع کر دیں گے چناں چہ انھوں نے ان کے سوالوں کو ریاست‘ فوج اور پنجاب کی طرف موڑ دیا‘ یہ انھیں خود کہنے لگے آپ فوج‘ پنجاب اور ریاست سے پوچھیں‘ ہمارے حصے کی نوکریاں اور ترقی کہاں ہے؟ نوجوان سادے تھے لہٰذا انھوں نے سرداروں اور اپنے سیاست دانوں سے پوچھنے کے بجائے ریاست سے پوچھنا شروع کر دیا اور یہ صورت حال بھارت کو سوٹ کرتی تھی لہٰذا یہاں سے بھارت بلوچستان میں کود گیا۔ (جاری ہے)
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔