غزوۂ بدر

 حق و باطل کا پہلا فیصلہ کن معرکہ ظلم و عدل کے باب میں نظریات اور اصول اہم ہوتے ہیں نہ کہ خونیں ناتے اور رشتے داریاں


احمد دین حداد March 18, 2025

مدینہ منورہ سے اسّی میل کے فاصلے پر ’’بدر‘‘ ایک گاؤں تھا، جہاں حق و باطل کے درمیان پہلا بڑا معرکہ بپا ہُوا، اسی مناسبت سے اسے غزوۂ بدر کا نام دیا گیا۔ یہ لڑائی سترہ رمضان سن دو ہجری کو لڑی گئی، جس میں تین سو تیرہ مسلمان اور ایک ہزار کفار شامل ہوئے۔

سیرت و تاریخ کی مستند کتب کے مطابق مشرکینِ مکہ کے پاس سات سو اُونٹوں کے علاوہ درجنوں گھوڑے اور سیکڑوں کی تعداد میں تیر و تلوار اور جنگی اسلحہ موجود تھا، جب کہ اس کے مقابلے میں مسلم لشکر کے پاس صرف ایک سو ستّر اُونٹ، دو گھوڑے اور آٹھ تلواریں تھیں۔ اب ہم میدانِ بدر کے جزوی واقعات سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اس جنگ کے نتائج کا ایک نظر جائزہ لینے کے بعد اُن حکمتوں اور اسباق کا کھوج لگانے کی کوشش کرتے ہیں جو دورِ حاضر میں برپا حق و باطل اور ظالم و مظلوم کی کش مکش کے ضمن میں راہ نما اصولوں کا درجہ رکھتے ہیں۔ غزوۂ بدر کے نتیجے میں ستّر کفارِ مکہ ہلاک ہوئے اور اسی قدر گرفتار کرکے مدینہ منورہ لائے گئے، جب کہ صرف چودہ مسلمان درجۂ شہادت پر فائز ہوئے۔

اس تمہید کے تناظر میں غزوۂ بدر کے اسباب و نتائج کا تحلیل و تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالٰی کے نزدیک حتمی نتائج اور ناکامی و کا م یابی کے لیے تعداد کی کمی و زیادتی اور مال و دولت اور وسائل کی قلّت و کثرت ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور اس بابت اصل اور بنیادی اہمیت معیار کی ہے، وگرنہ بے سر و سامان تین سو تیرہ کی اقلیت کا مادی و جنگی ہتھیاروں سے لیس ایک ہزاری اکثریت سے کیا مقابلہ تھا۔۔۔۔ ؟

قرآن حکیم میں ارشادِ باری تعالی کا مفہوم ہے: ’’بارہا! ایک قلیل سا گروہ ایک کثیر اور بڑے گروہ پر اﷲ تعالٰی کے حکم سے غالب آیا ہے اور اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ (سورۂ بقرہ) گویا نہتّے، کم زور اور مظلوم طبقات کو ظالموں اور کافروں کی اکثریت اور مادی شان و شوکت سے مرعوب ہوکر مایوس نہیں ہونا چاہیے بل کہ صبر و استقامت کے ساتھ حق و صداقت اور عدل و انصاف کے ثبات و قیام کی جدوجہد کو بہ ہر صورت جاری رکھنا چاہیے۔ معرکہ بدر کا ایک اہم سبق یہ بھی ہے کہ جہاں مخالفانہ اکثریت و قوّت سے خوف زدہ ہوکر حق مشن کو ترک نہیں کرنا، وہاں باطل طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے کم از کم اِس قدر مادی وسائل اور قوّت ضرور حاصل کرنا لازمی امر ہے کہ دشمنوں پر رعب و دبدبے کا باعث بن سکے۔

قرآن حکیم سورۂ انفال کے مطابق، مفہوم: ’’اور ان دشمنوں کے مقابلے کے لیے جس قدر امکانی قوّت اور سرحدوں کی حفاظت کا سامان مہیّا کرسکو کرو، جس کے ذریعے تم اﷲ کے اور اپنے دشمنوں کو خوف زدہ کرتے رہو اور ان کے علاوہ دوسروں کو بھی جنہیں تم نہیں جانتے۔ اﷲ انہیں جانتا ہے۔‘‘

غزوۂ بدر کے پیچھے نبی اکرم ﷺ کی پندرہ سالہ اجتماعی و انقلابی محنت موجود ہے اور ہر ممکن افرادی و مادی قوّت تیار کرچکنے کے بعد اِس اجتماعیّت کو بدر کے میدانِ کارزار میں اتارنے سے قبل آقائے نام دار ﷺ اپنے رب کے حضور سر بہ سجود ہوئے اور عرض کیا: ’’اے اﷲ! اگر آج مسلمانوں کی جماعت مٹ گئی تو اس کے بعد تیری زمین پر تیرا کوئی نام لیوا نہ رہے گا۔‘‘

نبی اکرم ﷺ نے بدر کی گرم جنگ سے پہلے دین اسلام کے حق، نظریہ اور آفاقی اصولوں پر تیرہ سالہ مکی دور میں صحابہ کرامؓ کی منظم و تربیت یافتہ جماعت تشکیل دی اور اس مثالی جماعت کو بیسیوں مرتبہ کٹھن اور جاں گسل آزمائشوں سے گزار کر کندن بنا دیا، جس کے بعد مدینہ منورہ میں ریاستی نظام وجود پذیر ہُوا اور اس مرکزی وحدت و نظام کے تحت قتال اور گرم جہاد کی اجازت دی گئی۔ اس سے پہلے مشرکینِ مکہ کے بے پناہ مظالم اور بعض صحابہؓ کی شدید خواہش کے باوجود ’’کْفّْو اَیدِیکْم‘‘ کے تحت برداشت اور عدمِ تشدد کے سخت نظم و نسق کو قائم رکھا گیا۔

سورۂ بقرہ کے اندر طالوت و جالوت کے معرکے میں بھی بنی اسرائیل اپنے نبی سے جنگ لڑنے سے قبل بادشاہ مقرر کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور پھر جالوت کا مقابلہ کرنے کے لیے طالوت کو ان پر حقِ حکم رانی تفویض کیا جاتا ہے تب جنگ و قتال کی نوبت آتی ہے۔ حسنِ اتفاق ہے کہ مفسرین و مؤرخین کے مطابق بدری مجاہدین کی طرح طالوت اور حضرت داؤدؑ کے لشکر کی تعداد بھی تین سو تیرہ ہی تھی، جنہوں نے نظریۂ توحید و عدل پر منظّم ہو کر ظالم و مشرک جالوتی اکثریت کو شکستِ فاش دی، جس کے نتیجے میں عظیم الشان داؤدی سلطنت وجود میں آئی۔

غزوۂ بدر سے ایک اور سبق یہ حاصل ہوتا ہے کہ معرکۂ حق و باطل اور کش مکشِ ظلم و عدل کے باب میں نظریات اور اصول اہم ہوتے ہیں نہ کہ خونیں ناتے اور رشتے داریاں۔ اسی طرح یہ بھی واضح رہے کہ تمام محبتوں اور عقیدتوں کے مقابلے میں خدا اور اُس کے رسولؐ کی محبت و عقیدت مقدّم اور بالا تر ہے۔ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کوئی اُس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا، جب تک اپنے والدین، اپنی اولاد اور تمام انسانوں سے زیادہ مجھے محبوب نہ رکھے۔‘‘ بلاشبہ! آج کے دور میں نبوی مشن کو اوّلین ترجیح اور مقصد حیات بنائے بغیر محبت رسولؐ کے بلند بانگ دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں۔ شمع رسالت ﷺ کے پروانوں نے جنگِ بدر میں حق و انصاف کی خاطر اپنے ہی سگے بھائیوں اور خون کے رشتوں کے مدِمقابل آکر ایک نئی تاریخ رقم کر ڈالی۔

حضرت ابوبکرؓ کو اپنے ہی بیٹے کا سامنا تھا جس نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ کافروں کا ایک سردار عتبہ میدان میں نکلا تو اُس کے بیٹے حضرت حذیفہؓ اپنے ہی باپ کے مقابلے میں سامنے آئے اور حضرت عمر فاروقؓ کی تلوار اپنے ہی ماموں کے خون سے سرخ ہوئی۔ اسی طرح اسیرانِ جنگ میں کسی رشتے داری اور تعلق کو مدنظر نہیں رکھا گیا، اور ان سے باقی قیدیوں کی طرح قانون کے مطابق برابری کا سلوک کیا گیا۔ بعد ازاں جب بدر کے قیدیوں سے رہائی کے لیے فدیہ کا مطالبہ کیا گیا اور جو فدیہ دینے کے قابل نہ تھے اُن کو تاکید کی گئی کہ دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائیں اور جو اس کے اہل بھی نہ تھے، اُنہیں ویسے ہی آزاد کرکے اُن پر احسان کیا گیا۔ اب یہاں پر جنگی قیدیوں سے حسنِ سلوک اور تعلیم و تعلم کے باب میں رحمت اللعالمینؐ اور کائنات کے معلّم اعظمؐ کا اُسوۂ حسنہ آج کے اس سائنسی دور میں مسلم ممالک کے علمی و اخلاقی زوال کی نشان دہی کرتے ہوئے ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنے کا درس دے رہا ہے۔

غزوۂ بدر میں اﷲ تعالٰی نے مومنین کی مدد فرمائی جس میں بارش کا بروقت برسنا، مسلمانوں کے دلوں میں اطمینان و سکون نازل کرنا اور فرشتوں کا نازل کرنا شامل ہے۔

قرآن حکیم میں اﷲ رب العالمین نے فرمایا: ’’یقیناً خدا نے بدر میں تمہاری مدد کی جب تم کم زور تھے، پس اﷲ سے ڈرو تاکہ تم شُکر گزار بن جاؤ۔‘‘ (سورہ آل عمران)

اب یہاں پر یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ عالم مادی میں ہم کوشش کے مکلّف اور روادار ضرور ہیں جو کہ دارالاسباب اور دارالعمل ہے اور ہمیں یہاں جدوجہد کرنے اور اسباب اختیار کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے لیکن نتائج پیدا کرنے پر ہم پوری طرح قادر نہیں ہیں، بل کہ عالمِ مادی کے اُوپر اﷲ تعالٰی کا ایک ماورائی اور غیبی نظام بھی کام کر رہا ہے جو کہ مادی نظام پر غالب اور بالادست ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بدر میں کم وسائل کی حامل ایک محدود سی اقلیت اپنے مدمقابل مادی و افرادی وسائل سے لیس اکثریت کو خاک چاٹنے پر مجبور کر دیتی ہے، اسی کو قرآن حکیم خدائی مدد قرار دیتا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ نصرتِ الٰہی کے لیے سچائی اور عدل کی علم برداری پہلی اور جہدِ مسلسل دوسری لازمی شرط ہے۔ از روئے قرآن: ’’اگر تم اﷲ کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔‘‘

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں