
چیمپیئنز ٹرافی کرکٹ ٹورنامنٹ کا میزبان اس دفعہ پاکستان تھا مگر سارے مزے بھارت لوٹ کر لے گیا۔ ایک تو بھارت کی ٹیم کی کارکردگی بہت اعلیٰ تھی اور پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ دبئی اسٹیڈیم میں اختتامی تقریب میں پاکستان کے نمایندوں کو اسٹیج پر نہیں بلایا گیا۔
اگرچہ چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بار بار یہ دعوے کرتے رہے کہ چمپیئنز ٹرافی کے تمام میچ پاکستان میں ہوں گے اور اگر بھارت نے اپنی ٹیم پاکستان نہیں بھیجی تو بھارت کرکٹ کی دنیا میں تنہائی کا شکار ہوجائے گا، صحافیوں نے اسی وقت انھیں یہ مشورہ دیا تھا کہ وہ جذباتی رویہ اختیار نہ کریں۔ آئی سی سی بھارت کے مؤقف کو نظرانداز نہیں کرسکی۔
اس وقت کونسل کے صدر بھی بھارت کے وزیر داخلہ امیت شا کے صاحبزادہ ہیں اور ایسا ہی ہوا۔ چمپیئنز ٹرافی کے آدھے میچ دبئی میں ہوئے اور فائنل بھی دبئی میں ہوا۔ بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ اگلے کئی برسوں میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں میچ نہیں کھیلیں گی۔ ادھر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ رسالہ ’’دی اکنامکس‘‘ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال کے ایک سروے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب بھارت میں غربت کی شرح میں حیرت انگیزکمی ہوئی ہے اور اس وقت صرف 1فیصد گھرانے عالمی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
رپورٹ میں آئی ایم ایف کے سابق ڈائریکٹر سرجیت اسٹیٹ یونیورسٹی آف نیویارک کے پروفیسرکرن تھامس نے بھارتی معیشت کے حالیہ اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ تخمینہ اخذکیا ہے کہ بین الاقوامی طور پر ماہرین نے خطِ غربت کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی آمدنی 2.15 ڈالر فی دن کا معیار طے کیا۔ اس تناسب سے بھارت کے ہر خاندان کی روزانہ آمدنی 2.15 ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ اس رپورٹ میں سٹی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا سان ڈیاگو کے تین ماہرین اور ٹام ووکل نے دنیا کی پانچ ابھرتی ہوئی معیشتوں میں چین، انڈونیشیا، میکسیکو، جنوبی افریقہ اور بھارت کے غربت سے نکلنے کے راستوں پر تحقیق کی ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ غربت کے خاتمے کے لیے صنعتی انقلاب ناگزیر ہے۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اب بھی بھارت کے 40 فیصد سے زائد مزدور زراعت کے شعبے میں وابستہ ہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ یہ کسان اپنا آبائی پیشہ چھوڑے بغیر خط غربت سے علیحدہ ہوسکتے ہیں۔ یہ محققین ایک سادہ اور ناقابلِ تغیر حقیقت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہر شخص کی عمر ایک سال بڑھتی ہے۔ جو شخص 1990میں 40 سال کا تھا وہ 10سال بعد 50 کا ہوگا۔ معاشی تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ جیسے جیسے لوگ عمر میں بڑھتے ہیں ان کی معاشی حالت بہتر ہوتی جاتی ہے۔
آج کے نوجوان گزشتہ نسلوں کے نوجوانوں کے مقابلے میں بہتر حالت میں ہیں۔ مسٹر بھلا اور بھاسن کا مؤقف ہے کہ بھارت کے لیے اب بین الاقوامی غربت کی سب سے نچلی حد 2.15 ڈالر فی دن اپنی افادیت کھوچکی ہے۔ چونکہ پوری آبادی اب اس حد سے اوپر آچکی ہے اس لیے یہ پیمانہ مستقبل میں ہونے والی ترقی کو ٹھیک طرح سے نہیں ناپ سکے گا۔ اس لیے مسٹر بھلا اور بھاسن ایک غربت کی نئی حد متعارف کرانے کی تجویز دیتے ہیں جو اتنی زیادہ ہو کہ ملک کی ایک چوتھائی یا ایک تہائی آبادی کو احاطہ میں لے سکے، اگرچہ اس نئی تعریف کے مطابق غریبوں کے پاس جوتے، رضائیاں اورکھانے کی کافی مقدار میں خوراک ہوسکتی ہے لیکن وہ محرومی سے مکمل طور پر آزاد نہیں ہوسکتے۔
معاشیات کے موضوع پر بین الاقوامی میڈیا کے لیے رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی اشرف خان نے اس رپورٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے UNDP کی 2023کی رپورٹ کا حوالہ دیا ہے جس کے مطابق بھارت میں 229 ملین افراد کے خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 2021میں 2.15 ڈالر فی دن آمدنی والے افراد جو خطِ غربت کے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ ان کی تعداد میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی تھی۔
ان کی رپورٹوں میں بھارت میں غربت کے خط کے نیچے زندگی گزارنے والے افراد کی تعداد میں کمی ظاہر کر رہے ہیں۔ جب 1947میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا تو بھارت شدید مذہبی فسادات کی لپیٹ میں آگیا۔ ان میں ایک اندازے کے مطابق 24 لاکھ کے قریب افراد جاں بحق ہوئے۔ مرنے والوں میں مسلمان، ہندو اور سکھ سب شامل تھے۔ ان فسادات کے نتیجے میں 14.5 ملین افراد دربدر ہوئے تھے اور 7.5 ملین مسلمان بھارت اور پاکستان ہجرت کر گئے تھے۔ پاکستان کے 7 ملین ہندو اور سکھ بھارت چلے گئے تھے۔
نہرو حکومت میں مولانا ابو الکلام جیسے جید سیاسی رہنما شامل تھے۔ اس حکومت نے ایک سیکولر ریاست کے جمہوری ریاست کے تصور کو عملی شکل دی۔ ملک سے جاگیرداری ختم کردی گئی اور تمام ریاستیں بھی ختم کی گئیں۔ نہرو حکومت نے ایک غیر جانبدارانہ خارجہ پالیسی اور مخلوط معیشت کے فلسفے کو عملی جامہ پہنایا۔ مولانا ابو الکلام نے بھارت کی تعلیمی پالیسی ترتیب دی، یوں اس پالیسی کے تحت خواندگی کی شرح میں اضافہ، سائنس و ٹیکنالوجی کے اداروں کے قیام پر زور دیا گیا۔
بھارتی حکومت نے برطانیہ، امریکا اور سوویت یونین سے خوش گوار تعلقات قائم کیے۔ نہرو حکومت نے جدید ممالک کے قرضوں کو ٹیکنالوجی کی منتقلی سے منسلک کیا، یوں ایک بنیادی سیاسی معاشی نظام کی بنیاد پڑی۔ نہرو کی بیٹی مسز اندرا گاندھی نے وزیر اعظم بننے کے بعد سوشلسٹ اکنامی کو اپنایا۔ تمام بینک قومی تحویل میں لے لیے گئے۔ ان کے صاحبزادے گاندھی اپنی والدہ کے قتل کے بعد وزیر اعظم بنے تو انھوں نے بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مراکز کے قیام پر خصوصی توجہ دی۔
یہ وہ وقت تھا جب جنرل ضیاء الحق ان کے رفقاء اور دائیں بازوکی جماعت امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے پروجیکٹ سے منسلک ہوکر جہاد کے نام پر اربوں ڈالر کما رہے تھے۔ گزشتہ صدی کے آخری عشرے میں جب سابق وزیر اعظم نرسما راؤ کے دور میں ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر خزانہ کے عہدے پر تعینات کیے گئے تو بھارت کی معیشت زوال پذیر ہوئی۔ من موہن سنگھ نے فری مارکیٹ اکنامی کی پالیسی اختیارکی۔ حکومت کے خسارے کو تقریباً ختم کردیا۔ جب ڈاکٹر من موہن سنگھ وزیر اعظم بنے تو انھوں نے امریکا سے US-India Civil Nuclear Agreementکیا جو انگریزی میں 123 کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔
بھارت نے اس معاہدے کے تحت اپنی ایٹمی تنصیبات بین الاقوامی معاہدے کے لیے کھول دیں اور بھارت کے متوسط طبقہ کے لیے امریکا اور یورپ کے دروازے کھل گئے۔ بھارت نے معیاری نظامِ تعلیم کی بناء پر ملٹی نیشنل کمپنیوں میں بھارتی شہری اہم پوسٹوں پر تعینات ہونے لگے اور بھارت کا متوسط طبقہ جوکبھی غریب تھا خوشحال ہوگیا۔
2023کی ایک رپورٹ کے مطابق بھارت میں متوسط طبقے کی آبادی 432 ملین افراد پر مشتمل ہے۔ امریکا کے ایک سابق صدر نے بھارت کی مڈل کلاس کو دنیا کی سب سے بڑی مڈل کلاس قرار دیا۔ متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب ان ہی وجوہات کی بناء پر بھارت کے تجارتی پارٹنرز میں شامل ہوئے۔ بھارت پاکستان سے 2 سو سال آگے بڑھ گیا ہے۔ بھارت کو اس وقت سب سے بڑا خطرہ مذہبی انتہا پسندی کے سیلاب کا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ پاکستانی ریاست حقائق کو محسوس کرے اور سیکیورٹی اسٹیٹ کے بجائے سوشل ویلفیئر اسٹیٹ بنانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے، یہ حقائق تلخ ہیں مگر حقائق ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔