
یہ ہمارے پڑوس میں ایک چوہدری صاحب ہیں جاوید چوہدری جو پورے کے پورے اور پکے پکے میرتقی میر ہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر کہیں سے کوئی ایسی بات لے آتے ہیں جس سے ہمیں رلا دیتے ہیں
میر صاحب رلا گئے سب کو
کل وے تشریف یاں پر لائے تھے
دو بچوں کی وہ کہانی۔اب بھی یاد کرکے جھرجھری آجاتی ہے کیا واقعی اب بھی دنیا میں ایسے انسان پائے جاتے ہیں جو لالچ میں چنگیز و ہلاکو کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں اور وہ بھی اس ملک میں۔جسے بنانے والوں نے دی تھی قربانی لاکھوں جانوں کی۔ کہ کافروں کے ظلم وستم سے دور اپنے بچوں کے لیے ایک امن و آشتی کا گہوارہ بنائیں گے جہاں محبت اخوت اور بھائی چارے کے پھول اگیں گے انصاف و عدل کا بول بالا ہوگا اور جنت کا ماحول ہوگا۔
بہشت آن جا کہ آزارے نہ باشد
کسے را باسکے کارے نہ باشد
لیکن ہوا کیا؟ہمیشہ کی طرح’’اشراف‘‘ تاک میں تھے مورچوں میں بیٹھے تھے اور اصلی بنانے والے مخلص تو سادہ دل لوگ تھے جب تک ان کو پتہ چلتا اشراف ہراول میں پہنچ کر قبضہ جماچکے تھے اور اصلی لوگوں کو ادھر ادھر کرکے قافلے کو یوٹرن دے چکے تھے۔
دنیا میں ہمیشہ جب بھی کوئی تحریک اٹھتی ہے انقلاب برپا ہوتا ہے تو جن اشراف کے خلاف اٹھتا ہے وہ پہلے تو اسے کمی کمین لوگوں کی شور پشتی قرار دیتے ہیں یا پھر بزور دبانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن پھر بھی انقلاب کامیاب ہوتا نظر آتا ہے تو بڑے کمال کے ساتھ اس میں شامل ہوجاتے ہیں اور ہراول دستہ میں پہنچ جاتے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اسے اپنی ڈب پر لے آتے ہیں۔جو کچھ ہوچکا وہ تو ہوچکا۔ہمارے چوہدری کے مطابق ان دو بچوں پر ظلم کی انتہا کرنے والے، والے پکڑے گئے ہیں۔لیکن کیا واقعی ’’پکڑے‘‘ گئے ہیں ؟اس ملک میں جو قوانین چلتے ہیں جن کو انگریزوں نے ’’تعزیرات ہند‘‘ کا نام دیا تھا اور اب مشرف بہ پاکستان ہو کر تعزیرات پاکستان کہلاتے ہیں وہ ایک ایسی موم کی ناک ہیں جن کو کوئی بھی گرم ہاتھ جس طرف چاہے موڑ سکتا ہے ۔
ہمارا ایک بہت ہی معزز محترم اور بزرگ عزیز ایک دن ہمارے پاس کچھ معزز مہمانوں کے ساتھ آگئے، مہمانوں کے لباس اور انداز و اطوار سے لگتا تھا کہ’’خواص‘‘ ہیں عوام نہیں۔مسئلہ یہ تھا کہ ان کا کوئی آدمی قتل کے جرم میں ماخوذ ہوا تھا۔اور اس قتل میں خود مقتول نے اپنے ’’بیان نزع‘‘ میں اس شخص کا نام لیا تھا،اب قانون کی کتابوں میں’’بیان نزع‘‘ کی اہمیت بہت زیادہ ہے لیکن کمال کرنے والے اگر کمال نہ کریں تو باکمال کیسے کہلائیں، ان لوگوں کا کہنا تھا کہ’’بیان نزع‘‘ کے وقت جو ڈاکٹر موجود تھا اگر وہ ہمارے وکیل کے سوال پر مطلوبہ بیان دے دے تو باقی کام وکیل کا ہے۔ ڈاکٹر سے وکیل یہ سوال کرے گا کہ سکرات مرگ کے وقت مرنے والے کا دماغ سو فیصد درست ہوتا ہے یا اس میں کوئی بگاڑ بھی ہوسکتا ہے، ڈاکٹر نے صرف اتنا کہنا ہے کہ دماغ متاثر بھی ہوسکتا ہے۔
اتفاق سے وہ ڈاکٹر ہمارا گہرا دوست بھی تھا اور ہماری طرح پاگل بھی، چنانچہ ان لوگوں نے اس پر اپنا سارا زور تمام کیا تھا لیکن وہ ان کی مرضی کا بیان دینے کو تیار نہیں تھا، پاگل جو تھا اور اب یہ لوگ اس پاگل کو مجھ پاگل کے ذریعے رام کرنا چاہتے تھے۔ظاہر ہے کہ ہم بھی پاگل تھے چنانچہ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارا وہ بزرگ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہوگیا کہ پاگل ان کی مرضی کی مرضی نہیں کرسکا تھا۔خلاصہ اس بکواس کا یہ ہے کہ شک زندہ اور شک پیدا کرنے والے پایندہ۔آپ دیکھ لیں گے کہ کیا ہوتا ہے اس طرح کے کیسوں میں۔ہم ابھی سے ان کو چشم تصور سے ان کو ہاروں سے لدے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔