
انسٹی ٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کے تحت جاری ہونے والے اعداد و شمار پاکستان کےلیے لمحہ فکریہ ہیں۔ گلوبل ٹیرارزم انڈیکس 2025 کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
یہ اعداد و شمار 2011 سے 2024 کے درمیان کے ہیں اور 2025 کے آغاز سے ہی حالیہ دہشت گردی کی نئی لہر نے اس پہ مہر ثبت کرنا شروع کردی ہے۔ اور اعداد و شمار پریشان کن بھی ہیں۔ 1099 واقعات میں ایک ہزار سے زائد افراد جاں سے گئے اور پندرہ سے زائد زخمی ہوئے۔ ہونے والی اموات پہلے سے 45 فیصد زائد ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق دہشت گردی میں اضافہ طالبان کے افغانستان میں حکومت سنبھالنے کے بعد سے زیادہ ہوا۔ بلوچستان اور خیبرپختونخوا ہی سب سے زیادہ متاثر ہیں۔ لیکن حالیہ قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی سے خیبر پختونخوا کی حکومت ہی غیر حاضر رہی۔ اس دورانیے میں سب سے مہلک حملہ بھی بی ایل اے کا رہا اور یہی کڑیاں جعفر ایکسپریس حملے سے آن ملیں۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جو نقصان پاکستان نے اٹھایا، وہ شاید ہی کسی اور ملک نے اٹھایا ہو۔ یہ نقصان نہ صرف جانی ہے بلکہ مالی بھی ہے اور پاکستان کی معیشت کو دہشت گردی نے بے پناہ نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی طاقتوں نے اپنے مفادات کی جنگ میں بھی ہمیشہ پاکستان کو تختہ مشق بنائے رکھا ہے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حالیہ دہشت گردی کے واقعات نے سول و عسکری قیادت کو ایک مرتبہ پھر سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کردیا ہے۔
ممتاز عالم دین حامد الحق کی خودکش حملے میں شہادت، نوشکی میں سیکیورٹی فورسز پر حملے، بنوں میں دہشت گردی کی کارروائی، بولان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے اور قیمتی جانوں کا ضیاع، مفتی منیر شاکر کا ایسی ہی کارروائی میں جاں سے جانا، اور اسی طرح کی دیگر کارروائیوں نے پاکستان میں دہشت گردی کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے۔ اور اس حوالے سے تمام حلقے اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ 2025 کے آغاز سے آنے والی اس نئی لہر نے دہشت میں اضافہ کرنا شروع کردیا ہے اور کچھ بعید نہیں کہ غیر ملکی سرمایہ کاری پر کاری ضرب لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ سب اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ ملک دشمن عناصر پاکستان میں دوبارہ انتشار پیدا کرنے کے درپے ہیں۔ یہ دہشت گردانہ حملے نہ صرف معصوم جانوں کے ضیاع کا باعث بن رہے ہیں بلکہ ملک کی داخلی سلامتی، معیشت، اور عالمی ساکھ پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ ایسے وقت میں جب پاکستان کو داخلی استحکام اور اقتصادی ترقی کی اشد ضرورت ہے، دہشت گردی کی اس نئی لہر نے حکومت، عوام اور سیکیورٹی اداروں کےلیے نئے چیلنج کو جنم دیا ہے۔
اس تشویشناک صورتحال کے پیش نظر، قومی سلامتی سے متعلق پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بھی منعقد ہوا، جس میں سیاسی و عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس میں دہشت گردوں کے خلاف مزید سخت اقدامات پر زور دیا گیا، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا محض اجلاس اور بیانات دینا کافی ہے؟ کیا ہم واقعی دہشت گردی کے مکمل خاتمے کےلیے تیار ہیں؟
اگر حالیہ دہشت گردی کی لہر کا تجزیہ کیا جائے تو چند بنیادی عوامل واضح ہوتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد وہاں مختلف شدت پسند گروہوں کو تقویت ملی ہے۔ طالبان حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آرہے ہیں۔
پاکستانی حکام بارہا افغان طالبان سے مطالبہ کرچکے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں یا انہیں پاکستان کے حوالے کریں، لیکن اس پر کوئی سنجیدہ پیش رفت نہیں ہورہی۔ افغانستان میں شدت پسند گروہ پہلے سے زیادہ متحرک ہوچکے ہیں اور حالیہ جعفر ایکسپریس کے ہینڈلرز کے تانے بانے بھی افغان سرزمین پر جاکر ملتے ہیں اور کالعدم تنظیمیں وہاں پر فعال ہیں جو پاکستان میں بھی حملے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔
امریکا نے افغانستان سے عجلت میں انخلا کرکے پورے خطے کو عدم استحکام کی طرف دھکیل دیا۔ امریکا کےلیے افغانستان کی غیر یقینی صورتحال ایک سفارتی چال بھی ہوسکتی ہے، تاکہ وہ پاکستان اور چین کے خلاف اپنا دباؤ برقرار رکھے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکا کے ماضی کے کردار کو دیکھتے ہوئے بھی خیال یہی ہے کہ امریکا آج بھی جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کو اپنے فائدے کےلیے استعمال کرسکتا ہے۔ افغانستان میں امریکی موجودگی ختم ہوچکی ہے، لیکن وہ اب بھی وہاں مختلف گروہوں کے ذریعے اثر و رسوخ رکھتا ہے۔ طالبان کو امداد کی فراہمی بھی اس کی ایک مثال تھی۔ پاکستان کو اس حوالے سے محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی بیرونی قوت کے مقاصد اور عزائم ہمیشہ خطے میں اپنے مفادات کے گرد گھومتے ہیں۔
پاکستان کے اندرونی سیاسی حالات بھی اس بڑھتی ہوئی دہشت گردی کی ایک بڑی وجہ ہیں۔ سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے قومی سلامتی کے مسائل پر قیادت متحد نہیں ہو رہی۔ مضبوط حکومتی حکمت عملی کا فقدان دہشت گردوں کو دوبارہ متحرک ہونے کا موقع دے رہا ہے۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سیاسی قیادت ایک پیج پر نہ آسکی اور تحریک انصاف نے اس میں شرکت نہیں کی۔ معاشی بحران کی وجہ سے سیکیورٹی اداروں کو درپیش مسائل نے ان کے کام کو مزید مشکل بنادیا ہے۔ جب ریاست کمزور نظر آتی ہے تو دشمن عناصر اور دہشت گرد تنظیمیں اسے موقع سمجھ کر مزید حملے کرنے کی جرأت کرتی ہیں۔ اگر پاکستان کے اندرونی حالات اسی طرح عدم استحکام کا شکار رہے تو یہ دہشت گردی کی نئی لہر کو مزید تقویت دے سکتے ہیں، جو نہ صرف عوام کےلیے بڑا خطرہ ہے بلکہ ریاست کے وجود کےلیے بھی نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
ماضی میں کیے گئے بڑے فوجی آپریشنز، جیسے ضرب عضب اور ردالفساد، کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دہشت گردوں کے نیٹ ورکس مکمل طور پر ختم نہیں کیے جاسکے۔ یہ تنظیمیں نئے ناموں اور نئی حکمت عملیوں کے ساتھ دوبارہ فعال ہورہی ہیں۔ انٹیلی جنس اداروں کے درمیان مزید بہتر کوآرڈینیشن اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے، تاکہ دہشت گردوں کی منصوبہ بندی کو بروقت ناکام بنایا جاسکے۔ دہشت گردوں کے سلیپر سیلز ختم کرنے کےلیے انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید مضبوط کرنا ہوگا، کیونکہ اگر دہشت گردوں کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع ملتا رہا تو وہ مزید مہلک حملے کرسکتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس جیسا منظم حملہ ہمارے لیے ایک ویک اپ کال ہونا چاہیے۔
یہ حقیقت ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف بے شمار قربانیاں دی ہیں، لیکن حالیہ حملے ثابت کرتے ہیں کہ ہمیں مزید سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ 2014 میں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جو نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا، اسے مکمل طور پر بحال کرنا ہوگا۔ مدارس کی رجسٹریشن اور اصلاحات کو مزید سخت کیا جائے۔ سوشل میڈیا پر دہشت گردی کا پرچار کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ دہشت گردوں کے مالی وسائل کو مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ ہر اس عنصر پر کڑی نظر رکھنی ہوگی جو دہشت گردی کو فروغ دینے میں ملوث ہوسکتا ہے، چاہے وہ اندرونی ہو یا بیرونی۔
افغان طالبان پر سخت دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کریں۔ امریکا، چین اور روس جیسے ممالک کو پاکستان کی مدد کےلیے تیار کیا جائے۔ ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ مشترکہ انسدادِ دہشت گردی حکمت عملی بنائی جائے۔
پاکستان کو ایک مؤثر سفارتی حکمت عملی اختیار کرنی ہوگی تاکہ عالمی طاقتوں کو باور کرایا جاسکے کہ خطے میں استحکام کے بغیر کوئی بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں ہونے والی کسی بھی دہشت گردی کی سرگرمی کا براہ راست اثر پاکستان پر پڑتا ہے، اس لیے پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں سفارتی دباؤ کا عنصر لازمی طور پر شامل کرنا ہوگا۔
دہشت گردوں کے نیٹ ورکس کو جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی سے ختم کیا جائے۔ ڈرون ٹیکنالوجی، مصنوعی ذہانت، اور ڈیجیٹل سرویلنس کو بروئے کار لایا جائے۔ حساس علاقوں میں سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تکنیکی مہارت اور ڈیجیٹل ٹولز کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے۔ دشمن اب صرف روایتی حملے نہیں کرتا بلکہ سائبر اسپیس کو بھی بطور ہتھیار استعمال کر رہا ہے، اس لیے پاکستان کو اپنی سیکیورٹی پالیسی میں جدید حربوں کو اپنانا ہوگا تاکہ دہشت گردوں کے منصوبے ناکام بنائے جاسکیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ سیاسی اختلافات کو قومی سلامتی کے معاملات سے الگ رکھا جائے۔ دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف بلا تفریق کارروائی کی جائے۔ یہ وقت کسی بھی سیاسی انتشار یا مصلحت کا نہیں بلکہ یکجہتی اور قومی سوچ اپنانے کا ہے۔ جب تک سیاسی قیادت دہشت گردی کے خلاف ایک مؤقف اختیار نہیں کرے گی، اس وقت تک دشمن کو کمزور کرنے میں کامیابی نہیں ملے گی۔ دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کےلیے ریاست، عوام اور سیاسی قیادت کو ایک پیج پر آنا ہوگا تاکہ ملک دشمن عناصر کو شکست دی جاسکے۔
پاکستان نے ماضی میں دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑی ہے، لیکن حالیہ دہشت گرد حملے ہمارے سیکیورٹی نظام میں کمزوریوں کو اجاگر کر رہے ہیں۔ اگر ہم نے فوری اقدامات نہ کیے تو دہشت گردی ایک بار پھر ہمارے ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن سکتی ہے۔ ریاستی اداروں، سیاسی قیادت، اور عوام کو ایک صفحے پر آنا ہوگا تاکہ دشمن قوتوں کے عزائم کو ناکام بنایا جاسکے۔ پاکستان کو اب فیصلہ کن اقدامات اٹھانے ہوں گے، کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کوئی سمجھوتہ ممکن نہیں۔ اس جنگ میں ہر وہ شخص ذمے دار ہے جو ملک کے دفاع اور استحکام کےلیے کردار ادا کرسکتا ہے۔ دہشت گردی کے اس رِستے ہوئے ناسور کا علاج ہم نے آج ہی کرنا ہوگا۔ اگر آج ہم نے اپنی کمزوریوں پر قابو نہ پایا تو کل ہمیں اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔