
پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے محکمہ زکوٰۃ کی ناقص کارکردگی پر برہم ہو کر محکمہ زکوٰۃ کو ہی ختم کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ وزیر اعلیٰ کی برہمی کی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت بلوچستان اپنے صوبے میں غریبوں میں زکوٰۃ تقسیم کرنے کے لیے تیس کروڑ روپے سالانہ فراہم کرتی ہے مگر یہ زکوٰۃ تقسیم کرنے والے محکمہ زکوٰۃ بلوچستان پر حکومت سالانہ ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرتی ہے۔
محکمہ کے پاس 80 سرکاری گاڑیاں ہیں اور محکمے نے دو سال سے صوبے کے غریبوں کو زکوٰۃ تقسیم ہی نہیں کی۔ایک محاورہ ہے کہ ٹکے کی گڑیا اور ایک آنہ منڈوائی کا مگر بلوچستان میں اس محکمے کا حال یہ ہے کہ تیس کروڑ زکوٰۃ تقسیم کرنے والا محکمہ اپنے اوپر سالانہ ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے خرچ کرا کے بھی دو سال سے صوبے کے غریبوں میں زکوٰۃ تقسیم نہیں کر سکا ہے۔
یہ حال ملک کے سب سے زیادہ غریب صوبے کا ہے جس کے عوام کی غربت کے باعث حکومت صرف تیس کروڑ روپے مختص کرتی ہے مگر بلوچستان کا اس قدر نااہل محکمہ زکوٰۃ دو سال سے غریبوں میں تیس کروڑ روپے بھی تقسیم نہیں کر سکا اور حکومت نے دو سالوں میں اس بے کار محکمے پر تین ارب بیس کروڑ روپے خرچ کر دیے اور محکمے کے افسران 80 سرکاری گاڑیوں میں گھومتے اور غریب حصول زکوٰۃ سے بھی محروم رہ گئے۔
زکوٰۃ کی سرکاری تقسیم کا یہ معاملہ صرف بلوچستان صوبے کا نہیں بلکہ سندھ، پنجاب اور کے پی میں بھی اور جب سے حکومت نے زکوٰۃ سرکاری طور پر تقسیم کرانے کا یہ سلسلہ شروع کیا تھا یہ تب سے ہی کرپشن کا شکار ہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں زکوٰۃ کی سرکاری تقسیم شروع ہوئی تھی۔ جنرل ضیا خود نمازی پرہیزگار شخص تھے جو طویل عرصہ اقتدار میں رہے مگر ان پرکرپشن کا کوئی الزام نہیں تھا اور وہ غریبوں کا خیال بھی کرتے تھے اور غریبوں کی مدد کے لیے انھوں نے زکوٰۃ کی تقسیم کے لیے زکوٰۃ کمیٹیاں بنوائی تھیں اور یہ زکوٰۃ کمیٹیاں لوگوں کے ووٹ سے منتخب کرائی جاتی تھیں۔
جنرل ضیا الحق مذہبی شخص تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ زکوٰۃ مذہبی معاملہ ہے جس کی پکڑ بہت سخت ہے اس لیے زکوٰۃ کمیٹیوں کے چیئرمین اور ارکان غریبوں میں زکوٰۃ کی تقسیم حقیقی اور منصفانہ بنائیں گے مگر ایسا نہیں ہوا۔ زکوٰۃ کمیٹی والوں نے زکوٰۃ کی تقسیم کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا لیا۔ زکوٰۃ کمیٹیوں کے الیکشن ہی خون ریز بنا دیے گئے جہاں لڑائی جھگڑے بلکہ قتل تک کی متعدد وارداتیں ہوئیں جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اس مذہبی معاملے سے کتنے مخلص تھے۔زکوٰۃ کمیٹی والوں نے مستحقین کی بجائے اپنے ملازموں اور جاننے والوں میں زکوٰۃ تقسیم کی اور مستحقین تک زکوٰۃ نہ پہنچی بلکہ غیر مستحقین نے زکوٰۃ کو بھی سرکاری مال سمجھ کر خوب خرد برد کی اور جنرل ضیا کا جو مقصد تھا وہ پورا نہیں ہوا تھا۔
زکوٰۃ شرعی طور پر حقیقی طور پر صرف غریبوں اور مستحقین کا حق ہے اور غریبوں کی مدد کے لیے ہی استطاعت رکھنے والوں پر فرض کی گئی ہے جو خوف خدا رکھنے والے افراد ہی اپنے مال کی زکوٰۃ شرعی طور پر نکالتے اور اپنی مرضی سے تقسیم کرتے ہیں جس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے مگر حکومت نے بینکوں کے ذریعے ہر سال لوگوں کے سیونگ اکاؤنٹس سے جبری طور پر زکوٰۃ کٹوتی کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ زکوٰۃ اس رقم پر کٹنی چاہیے جو ایک سال تک بینک میں پڑی ہو۔ سیونگ اکاؤنٹ زیادہ تر تاجروں کے نہیں بلکہ عام لوگوں کے ہوتے ہیں جو بچت یا گھریلو ضرورت کے لیے وہ بینکوں میں جمع کراتے ہیں اور سیونگ اکاؤنٹ اب اسلامی بینکنگ میں بھی ہیں جہاں منافع فکس نہیں ہوتا اور کمی بیشی کے ساتھ ملتا ہے مگر حکومت نے اسلامی یا غیر اسلامی نفع کو بھی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور لوگوں کو دونوں طرح سے جو منافع ملتا ہے اس پر حکومت ہولڈنگ ٹیکس وصول کر رہی ہے۔
بینکوں میں ہر سال زکوٰۃ غیر شرعی طور جبری طور کاٹی جا رہی ہے، یہ اگر سال پر جمع رہنے والی رقم پر کاٹی جائے تو جواز بنتا ہے مگر ایک ماہ جمع رہنے والی رقم پر بھی زکوٰۃ حکومت وصول کر لیتی ہے اور یہ زکوٰۃ جبری طور پر کاٹ کر حکومت جس طرح یہ تقسیم کرتی ہے وہی وجہ کرپشن ہے کہ بلوچستان میں تیس کروڑ روپے زکوٰۃ تقسیم کرنے والوں کو تنخواہ اور مراعات کی مد میں ایک ارب ساٹھ کروڑ روپے سالانہ خرچ ہو رہے ہیں۔دیگر صوبوں میں بھی یہی حال ہے تو غریبوں تک یہ زکوٰۃ پہنچتی ہی نہیں بلکہ خرد برد اور ضایع کرائی جا رہی ہے اور حکومت بدنام ضرور ہوتی ہے۔
ملک میں غریبوں کی مدد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام چل رہا ہے جس کے تحت ضرورت مندوں کی تعداد اور صرف ایک ہزار روپے تین ماہ بعد بڑھانے کا اعلان وزیر اعظم نے کیا ہے اور اس پروگرام کی جو تفصیلات گزشتہ سالوں میڈیا میں آئیں وہ نہایت شرم ناک تھیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے افسروں کی بیگمات اور عزیزوں نے جو کچھ کیا وہ ان بڑے افسروں کے لیے بھی ڈوب مرنے کا مقام تھا اور مزید مذاق حکومت نے کیا۔ جن افسروں کے گھر والوں نے غریب بن کر رقم وصول کی ان افسروں کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی نہیں ہوئی بلکہ ان افسروں کو کہا گیا کہ وہ وصول کی گئی رقم واپس کر دیں۔
غریبوں کا حق کھانے والے ان افسروں کو برطرف اور ان کی بیگمات کو اس شرم ناک جرم پر گرفتار ہونا چاہیے تھا مگر ایسا نہیں ہوا۔ حکومت نے جبری طور پر ہر سال بینکوں کے ذریعے یہ زکوٰۃ کٹوتی اور تقسیم مذاق بنا رکھی ہے اور زکوٰۃ کی رقم ضایع ہو رہی ہے اور مستحقین تک نہیں پہنچ رہی تو اس کا کیا فائدہ۔ زکوٰۃ لوگ اپنی مرضی سے شرعی طور پر نکالتے ہیں تو یہ انھی کا حق ہے کہ وہ اپنی زکوٰۃ اپنی مرضی سے تقسیم بھی کریں اور وہ مستحق تک پہنچانا بھی انھی کی ذمے داری ہے حکومت کا اس سے کوئی تعلق ہی نہیں ہونا چاہیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔