
اگرچہ آبادی کے لحاظ سے صوبہ بلوچستان، پاکستان کا سب سے چھوٹا صوبہ ہے لیکن قدرتی دولت اور وسائل کے معاملے سے دیکھا جائے تو بلوچستان وطن عزیزکا سب سے زرخیز اور مالا مال صوبہ ہے۔ پھر یہاں گوادر بندرگاہ کی تعمیر اور چین کے تعاون سے شروع ہونے والے عظیم منصوبے سی پیک کی وجہ سے مستقبل قریب میں بلوچستان ملک کی معاشی ترقی میں نہ صرف اہم کردار ادا کرنے جا رہا ہے بلکہ مقامی لوگوں کو روزگار کی فراہمی کے پہلو بہ پہلو ان کی زندگیوں میں چھائے غربت، پسماندگی، بے بسی، مایوسی، بے چینی، جہالت اور افلاس کے اندھیروں کو دور کر کے ان کے گھروں میں خوشحالی اور مالی استحکام کا موجب بھی بن سکتا ہے۔
ہمارے دشمن اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ سی پیک کی تکمیل سے پاکستان خطے کا اہم ترین ملک بن جائے گا، اس کی معیشت مستحکم ہوجائے گی جس سے اس کی سلامتی و استحکام ہوگا۔ اسی سبب وطن دشمن قوتوں نے پاکستان کے اس اہم ترین صوبے کو ٹارگٹ کر رکھا ہے۔
سب جانتے ہیں کہ بھارت نے اول دن سے ہی پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے اور اس کے وجود کو مٹانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور افغانستان جس نے پاکستان کے قیام کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا آج کل بھارت کا ہم پیالہ و ہم نوالہ بن کر اس کی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کو پاکستان میں دہشت گردی کو ہوا دینے میں سہولت کاری کا کردار ادا کر رہا ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ دو برس سے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پے درپے ہونے والے واقعات کے تانے بانے افغانستان میں موجود فتنہ الخوارج کے شرپسند عناصر سے ملتے ہیں جن کی نشان دہی حکومتی سطح پر بار بارکی جا چکی ہے افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی باور کرایا جا چکا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے روکے۔ گزشتہ ہفتے جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں بھی دہشت گرد افغانستان میں موجود اپنے سرپرستوں سے مسلسل رابطے میں تھے جیساکہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کا انکشاف کیا تھا۔ مقام اطمینان کہ تمام 33 دہشت گردوں کو پاک فوج کے بہادر جواں ہمت اہلکاروں نے بڑی مہارت و احتیاط کے ساتھ نشانہ بنا کر ہلاک اور تین سو سے زائد مغویوں کو بازیاب کرا لیا۔
دہشت گرد عناصر چیک پوسٹوں، تھانوں، فوجی تنصیبات، بسوں اور ٹرکوں وغیرہ پر حملے کرتے رہے ہیں۔ لوگوں کو شناختی کارڈ دیکھ کر گولیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ قبل ازیں دہشت گردوں نے ہوائی جہاز تک اغوا کیے لیکن ٹرین اغوا کرنے کا پاکستان میں یہ پہلا واقعہ ہے جس کی بازگشت پوری دنیا میں سنی گئی۔پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کے ایک خفیہ جاسوس کل بھوشن یادیو کو بلوچستان ہی سے گرفتارکیا گیا تھا جس نے برملا پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہونے کا اعتراف کیا تھا۔
اس کے بعد اصولی طور پر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اقوام متحدہ اپنی ذمے داری پوری کرتے ہوئے اس ڈوزیئر پر غور و فکر کرکے اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق بھارت کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی جاتی کہ وہ عالمی قوانین کا احترام کرے لیکن افسوس کہ جس طرح مقبوضہ کشمیر پر اقوام متحدہ میں حق خود ارادیت کی قراردادیں نصف صدی سے زائد عمل درآمد کے انتظار میں ہیں اور کشمیری مائیں بہنیں، بیٹیاں، بچے، بوڑھے اور جوان ’’آزادی‘‘ کی جنگ لڑ رہے ہیں اور بھارت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے ان کی آواز دبانے میں ناکام چلا آ رہا ہے۔ بعینہ بلوچستان کو علیحدہ کرنے اور پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا اس کا خواب پورا نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان ڈوزیئر بھی کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی طرح بے اثر رہے گا جو المیہ ہے۔
ہمیں اپنی جنگ خود لڑنی ہے۔ دہشت گردوں نے بڑی تیزی کے ساتھ بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی مذموم کارروائیاں شروع کردی ہیں۔ جعفر ایکسپریس حملے کے فوری بعد دہشت گردوں نے پنجگور میں پولیس چوکی اور نوشکی میں سیکیورٹی فورسزکے قافلے پر حملہ کیا، اسی طرح ایک زیر تعمیر ڈیم پر حملہ کرکے سات مزدوروں کو اغوا کرکے لے گئے، کے پی کے میں ٹانک میں چیک پوسٹ پر حملہ کیا تاہم سیکیورٹی فورسز نے بروقت کارروائی کرکے اسے ناکام بنا دیا اور دس خوارج کو جہنم واصل کر دیا۔
لکی مروت اور بنوں میں بھی دہشت گردوں نے چوکیوں پر حملے کیے جنھیں پولیس فورسز نے ناکام بنایا۔ پشاورکی ایک مسجد میں بم دھماکہ کرکے معروف عالم مفتی منیر شاکرکو شہید کر دیا۔ قبل ازیں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ میں جمعے کی نماز میں خود حملہ کرکے نامور عالم دین مولانا حامد الحق، جو مولانا سمیع الحق کے صاحبزادے تھے کو شہید کردیا گیا تھا۔ بیرونی مداخلت کے باعث بلوچستان کے حالات تیزی سے بگڑتے جا رہے ہیں۔ بھارت بلوچستان میں بنگال کی تاریخ دہرانا چاہتا ہے۔
پاکستان کے ترجمان دفتر خارجہ کا یہ بیان کہ افغانستان میں جدید امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان اور ہمارے شہریوں کے لیے خطرے کا باعث ہے۔ انتہائی غور طلب اور فوری کارروائی کا متقاضی ہے۔ پوری دنیا جانتی ہے کہ 2022 میں جب امریکا رسوا کن انداز میں افغانستان سے نکلا تھا تو اربوں ڈالرکا فوجی ساز و سامان افغانستان ہی میں چھوڑگیا۔
امریکی محکمہ دفاع کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا تقریباً 7.2 ارب ڈالر کا فوجی ساز و سامان افغانستان میں رہ گیا ہے جس میں تین لاکھ اٹھاون ہزار پانچ سو تیس رائفلیں، 64 ہزار مشین گنیں، 25,327 گرینیڈ لانچر اور 22,174 مختلف سطحوں پر چلنے والی گاڑیاں شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہی وہ اسلحہ ہے جنھیں کالعدم ٹی ٹی پی سمیت مختلف دہشت گرد تنظیمیں بلوچستان اور کے پی کے میں اپنی دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال کر رہی ہیں۔ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے مختلف علاقوں میں سرچ آپریشن کے دوران خوارج سے جو اسلحہ برآمد کیا اس کی کڑیاں افغانستان کے بازاروں میں ملنے والے اسلحے سے ملتی ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں آج بھی امریکی اسلحہ استعمال کیا جا رہا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلے پر سیاسی و عسکری قیادت سر جوڑ کر بیٹھے، بلوچوں کی آواز سنے، ان کے مسائل کا ادراک اور ان کے حل کے لیے جامع، ٹھوس اور دور رس نتائج کے حامل جلد فیصلے کرے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ مٹھی سے ریت کی طرح سرکتا بلوچستان کوئی گہرا گھاؤ لگا جائے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔