
(تحریر: سہیل یعقوب)
آپ نے اکثر شادی کی تقاریب میں یہ آواز سنی ہوگی کہ کھانا کھل گیا ہے۔ اس کے بعد کے جو مناظر ہوتے ہیں اس پر وثوق سے یہ کہنا مشکل ہے کہ کھانا کھل گیا ہے یا لوگ کھول دیے گئے ہیں۔ آج کل تو ویسے بھی رمضان المبارک کا مہینہ ہے، سحری اور افطار میں بڑے بڑے ہوٹلوں اور کلبوں میں بھی اب یہ مناظر عام طور پر نظر آنے لگے ہیں۔
ویسے بھی اس تحریر کی تحریک فیصل مسجد میں افطار کی ایک ویڈیو بنی ہے جس میں لوگوں کو باقاعدہ افطار یا کھانے پر ٹوٹ پڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس کے بعد اس ویڈیو کا ایک فرض فعل کی طرح تمام گروپ میں اشتراک کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میں نے اس ویڈیو کے جواب میں یہ تحریر کیا تھا کہ مجھے نہیں پتہ کہ یہ ویڈیو اصلی ہے یا جھوٹی لیکن جب قوم کی تربیت ہی نہ کی گئی ہوں تو بھوک میں لوگوں کا یہ ردعمل خاصا فطری نظر آتا ہے۔ اس لیے برائے مہربانی اس ویڈیو کا اشتراک روکا جائے اور جو کوئی اس کا اشتراک کرے اس کی بھی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے کیونکہ افطار کے نام پر یہ ہمارے مذہبی شعار کی تضحیک کے مترادف ہے۔
ماں کی گود بچے کی پہلی درسگاہ ہوتی ہے اور عام طور پر تمام ہی بچوں کو اس درسگاہ سے یہ سبق ضرور ملتا ہے کہ کھانا ضرورت کے مطابق اپنی رکابی میں لو اور آخر اپنی پلیٹ کو مکمل طور پر صاف کرو۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر لکھا گیا تھا کہ ہم پانی پوری کھانے جاتے ہیں تو پوریاں ختم ہونے پر پانی بھی پی جاتے ہیں لیکن دعوتوں میں کھانے کا جو ضیاع دیکھنے کو ملتا ہے اس پر دل کڑھتا ہے۔
لوگوں کا یہ ضرورت سے زیادہ کھانا لینا ہی اصل فساد کی جڑ ہے کہ جس کے بعد وہ طوفان بدتمیزی شروع ہوتا ہے کہ الامان الحفیظ۔ چاہے کھانا لینا ہو یا راشن، ہم قطار کے بجائے اپنے زور بازو پر زیادہ یقین رکھتے ہیں۔ آپ کو پتہ ہے کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کا نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ گیا ہے۔ ایک پڑوسی اسلامی ملک کی تصویر اشتراک کی گئی تھی کہ جہاں راشن میدان میں رکھا ہوا تھا اور لوگ آکر اپنی ضرورت کا سامان لے جاتے تھے، نہ کوئی دھکم پیل اور نہ کوئی تصویر کا جھنجھٹ۔ کیا ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوسکتا؟
اسکول کو عام طور پر دوسری درسگاہ قرار دیا جاتا ہے لیکن آج کل کے تجارتی ماحول میں انگریزی سکھانا کاروباری ضرورت ہے لیکن تربیت کسی کی بھی ترجیحات میں شامل نہیں۔ نہ اساتذہ کی اور نہ ہی والدین کی یہ ترجیح ہے۔ وائس آف امریکا کی ستمبر 2024 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے اسکول سے باہر ہے۔ ایسے ماحول میں مسجد کا منبر ایک اہم اور کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے لیکن وہاں سے بھی ماضی کے قصے کہانیوں کا پرچار ہوتا ہے اور قوم کے آج کے مسائل پر کم ہی توجہ دی جاتی ہے۔
کسی بھی قوم کا مزاج جاننا ہو تو اس کی سڑکوں پر ٹریفک کا نظام دیکھ لیجیے یا پھر دعوتوں میں ان کے کھانے کے انداز دیکھ لیجیے۔ بدقسمتی سے ان دونوں مواقع پر ہمارے اطوار نہ صرف ناقابل تقلید بلکہ ناقابل نظارہ ہوتے ہیں۔ کہیں تو من حیث القوم ہم سے غلطی ہوئی ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ ایک ملین ڈالر کا سوال ہے کہ جس میں ہمارے حکمرانوں سے لے کر عوام تک سب کی دلچسپی ملین ڈالر میں ہے۔
کچھ بنیادی باتوں کی جانب اس تحریر میں آگہی کی سعی کی گئی ہے۔ ہمارے یہاں سیڑھیوں پر لوگ آمنے سامنے آجاتے ہیں حالانکہ اس کا طریقہ بہت سادہ ہے آپ چاہے سیڑھیاں چڑھ رہے ہوں یا اتر رہے ہوں آپ بائیں طرف رہیں کبھی ٹکراؤ نہیں ہوگا۔ سڑک پر پیدل چلتے ہوئے بچوں اور عورتوں کو سڑک کی جانب نہیں ہونا چاہیے۔ سب سے اہم بات اگر ہم قطار کی پابندی سیکھ لیں تو ہمارے آدھے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ قطار توڑنا کسی کا حق غصب کرنے کے مترادف ہے۔ اب اگر لوگ دعوتوں میں قطار میں رہیں اور صرف اتنا کھانا لیں جو ان کی ضرورت کے مطابق ہو، تو یہ سارا نظام ایک الگ تصویر دے گا بلکہ ایک حقیقی تصویر دے گا کہ جو اس قوم کی ہونی چاہیے۔
آخر میں حکومت کےلیے ایک تجویز کہ جہاں حکومت اتنے اچھے اقدامات کررہی ہے، وہاں قوم کی تربیت کےلیے ایک ٹیلی ویژن چینل کا آغاز کرے۔ ویسے بھی اس وقت ملک بہت سارے فضول چینلز ہیں، اگر ایک تعلیمی چینل کا آغاز ہوجائے تو قوم کی تربیت بھی ہوسکتی ہے۔
بہت عرصے پہلے امریکا میں بچوں کا ایک پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس کا نام تھا Barney & Friends یہ پروگرام اتنا دلچسپ ہوتا تھا کہ بچوں کے ساتھ بڑے بھی اس کو یکساں دلچسپی سے دیکھتے تھے اور سب مل کر تربیت حاصل کرتے تھے۔ ہمارے یہاں بھی کسی زمانے میں کلیاں اسی قسم کا پروگرام ہوا کرتا تھا۔ ہرچند کہ اب فاروق قیصر ہمارے درمیان نہیں رہے لیکن اس طرز پر فضول نہیں بلکہ دلچسپ پروگرام ضرور بنائے جاسکتے ہیں۔ ہمارا کام آگہی دینا تھا اور حل بتانا تھا، سو ہم نے کیا۔ اب آگے حکومت جانے اور ان کی ترجیحات جانے کہ قوم کی تربیت ان کی ترجیحات میں ہے یا نہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔