
تیونس: شمالی افریقی ملک تیونس میں سیاسی بحران مزید شدت اختیار کر گیا ہے، جہاں صدر قیس سعید نے وزیر اعظم کامل مدوری کو عہدے سے برطرف کر دیا۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک شدید معاشی بحران اور بڑھتے ہوئے مہاجرین کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔
برطرفی کے بعد سارہ زعفرانی کو نیا وزیر اعظم مقرر کر دیا گیا ہے، جو اس سے قبل تیونس کی وزیر برائے تعمیرات اور رہائش کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہیں۔ وہ گزشتہ دو سالوں میں تیونس کی تیسری وزیر اعظم ہیں، جو ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی عدم استحکام کی عکاسی کرتا ہے۔
قیس سعید نے جمعے کو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں خطاب کے دوران حکومت کے مختلف وزراء کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ "سرکاری ادارے مجرمانہ گروہوں کے زیر اثر ہیں، اور وقت آ گیا ہے کہ بدعنوانی کے ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔"
تیونس اس وقت شدید اقتصادی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے، جہاں جی ڈی پی کی شرح 1.4 فیصد تک محدود ہو چکی ہے اور عوام کو چینی، چاول اور کافی جیسے بنیادی اشیائے خورد و نوش کی قلت کا سامنا ہے۔ فروری میں وزیر خزانہ سیہام بوغدیری کو بھی برطرف کر دیا گیا تھا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر سعید کو حکومتی کارکردگی پر شدید تحفظات ہیں۔
تیونس کو بڑھتی ہوئی مہاجرین کی آمد کا بھی سامنا ہے، جہاں ہزاروں افریقی مہاجرین یورپ جانے کی امید میں تیونس میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جنوبی شہروں امرہ اور جبنیانہ میں ان کے کیمپ قائم ہیں، جبکہ مقامی آبادی اور مہاجرین کے درمیان جھڑپوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے تیونسی حکومت پر نسل پرستی کے الزامات عائد کیے ہیں اور کہا ہے کہ حکومت مہاجرین کو سیاسی مسئلہ بنا کر پیش کر رہی ہے۔
صدر سعید نے 2021 میں پارلیمنٹ تحلیل کر کے ایمرجنسی اختیارات سنبھال لیے تھے اور وہ مسلسل بدعنوانی کے خلاف سخت کارروائی کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ تاہم، اپوزیشن جماعتیں ان کے اقدامات کو آمریت قرار دے رہی ہیں اور تیونس کی جمہوری روایات کو خطرے میں ڈالنے کا الزام عائد کر رہی ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔