پی او بی، روشنی کا سفر

انسانی احساسات کا وہ پہلو جو معذوری، محرومی اور نارسائی کے نتیجے میں اُبھر کر سامنے آتا ہے



THREE DAYS TO SEE ہمارے بی اے کی نصاب میں شامل ان چند ایک کہانیوں میں شامل تھی جس نے لیکچر کے دوران آنکھیں نم کردیں۔ انسانی احساسات کا وہ پہلو جو معذوری، محرومی اور نارسائی کے نتیجے میں اُبھر کر سامنے آتا ہے، سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے اور کبھی کبھی زندگی بدل دینے والے فیصلوں کا محرک بن جاتا ہے۔ اسی طرح دو اور کہانیاں بھی ہمارے نصاب میں تھیں جنھیں اپنے اساتذہ کی زبانی سننے کی کیفیت آج تک ذہن پر نقش ہے۔

ان میں ایک RED SHOES تھی۔ ڈنمارک کے شاعر اور مصنف ہانس کرسٹین اینڈرسن کی لکھی اس کہانی نے ہمیں دہلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کہانی میں ایک متکبر اور خود سر لڑکی جب ناچنے کے شوق میں ہر چیز کو نظرانداز کر دیتی ہے تو اس کے پاؤں کے جوتے ناچنا شروع کر دیتے ہیں اور وہ کوشش کے باوجود ناچنا بند نہیں کر پاتی۔ ایک اور کہانی A DOLL'S HOUSE  تھی جس میں ایک انتہائی امیر گھرانے کی بچی کے پاس گڑیا کا گھر ہے جس میں اصلی گھر کی طرح ہر چیز موجود ہے۔

اس کھلونے کی مالک بچی اپنے محلے کی دو انتہائی غریب لڑکیوں کو وہ گھر دکھانا چاہتی ہے لیکن والدہ اجازت نہیں دیتی۔ ایک دن وہ چوری چھپے ان دو غریب بچیوں کو اندر بُلا کر گڑیا کا گھر دکھاتی ہے، لیکن اس دوران اس کی ماں وہاں آ جاتی ہے اور غریب بچیوں کو دھتکار کر گھر سے نکال دیتی ہے۔ گھر سے نکالے جانے کے بعد کھلونے کے بارے میں دونوں بہنوں کی گفتگو پڑھنے والے کو رلا کر رکھ دیتی ہے۔

اپنے ماضی کی یہ یادیں THREE DAYS TO SEE یاد آنے کے ساتھ ذہن میں تازہ ہوئیں۔ اور THREE DAYS TO SEE کی یاد (POB)  Prevention of Blindness Trust کے ذکر سے آئی۔ پی او بی سے ہماری شناسائی ڈاکٹر انتظار بٹ کے توسط سے ہوئی جو اس ٹرسٹ کے بانی ارکان میں سے ایک ہیں۔ ’تھری ڈیز ٹو سی‘ کی مصنفہ ہیلن کیلر اپنے بچپن میں ٹائیفائیڈ بخار بگڑ جانے کے باعث بینائی سے محروم ہو گئی تھیں۔ اس خاتون نے شدید جدوجہد کر کے تعلیم حاصل کی اور ایک کامیاب مصنفہ بنیں۔ یہ کہانی بینائی کے بغیر زندگی گذارنے کے ذاتی تجربے کا بیان ہے۔

اس کہانی میں ہیلن کیلر بتاتی ہے کہ اگر مجھے محض تین دن کے لیے بینائی مل جائے تو میں ان تین دنوں کو کس طرح گزاروں گی۔ ذرا تصور کریں کہ اگر کسی ایسے شخص کی آنکھوں کی روشنی لوٹ آئے جو مکمل یا جزوی طور پر اندھیروں میں ڈوب چکا ہو تو اس کی کیا کیفیت ہوگی۔ اس کا تجربہ تو محض چند سیکنڈ کے لیے آنکھیں بند کرنے سے ہی ہو جاتا ہے۔ مجھے وہ رات اچھی طرح یاد ہے جب گوجرانوالہ ریلوے اسٹیشن پر میں نے پہلی بار نظر کی عینک لگا کر اپنے ارد گرد نظر دوڑائی تھی تو میرے احساسات کیا تھے۔ ان دنوں ایک ٹرین پشاور پسنجر کے نام سے چلا کرتی تھی‘ جس کے ذریعے اپنے کالج کے بچوں کا ٹور لے کر پنڈی پہنچنا تھا۔ اسٹیشن پر کھڑے کھڑے عینک بنوانے کا فیصلہ ہوا کیونکہ دور سگنل کی بتیاں مجھے بہت دُھندلی دکھائی دیتی تھیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں نے پہلی مرتبہ عینک لگا کر نظر اٹھائی تو یوں محسوس ہوا جیسے ساری دنیا کئی گنا زیادہ روشن ہو گئی ہے۔ یہ تو انتہائی عام سی بات ہے لیکن ان کا تصور کریں جن کی زندگیاں رفتہ رفتہ مکمل اندھیرے کی جانب سرک رہی ہوتی ہیں اور ان کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے کہ چند ہزار روپے سے آپریشن کرا لیں۔ POB انھی لوگوں کی زندگیاں روشن کر رہا ہے۔

اس ٹرسٹ کا آغاز 2007 میں پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن کے چند ڈاکٹروں نے کیا تھا۔ ٹرسٹ کا ایک مکمل اسپتال پہلے ہی کراچی میں مصروف عمل ہے جب کہ دوسرا بڑا منصوبہ لاہور میں تکمیل کے آخری مراحل میں ہے۔ POBکی طبی خدمات اس حد تک بلا معاوضہ ہیں کہ اسپتالوں میں کیش کاوئنٹر سرے سے موجود ہی نہیں۔ ٹرسٹ نہ صرف یہ کہ ملک کے بے وسیلہ علاقوں میں بلکہ غزہ اور افریقہ کے غریب ممالک میں فری آئی کیمپس کے ذریعے لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا چکا ہے۔

دنیا کے 23ممالک اور پاکستان کے 58اضلاع میں لگائے جانے والے کیمپس میں اب تک 27لاکھ 60ہزار مریضوں کا معائنہ اور 4لاکھ 16ہزار آپریشن کیے جا چکے ہیں۔ ملک کی 20جیلوں میں 10ہزار قیدیوں کا معائنہ اور آپریشن کے علاوہ لاہور اور کراچی میں مجموعی طور پر 5مقامات پر ماہانہ 1000سے زائد مریضوں کے آپریشن کیے جا رہے ہیں۔ ٹرسٹ کی کارکردگی کی بنا پر کراچی والا اسپتال ایف سی پی ایس پارٹ 2کی ٹریننگ کی سہولت بھی فراہم کر رہا ہے۔ POBملک کے200 اسکولوں میں 70700 بچوں کے معائنے کے بعد ضرورت مند بچوں کو عینکیں فراہم کر چکا ہے۔ اب ٹرسٹ کا ہدف یہ ہے کہ ہر سال 30,000آپریشنز کو ممکن بنایا جائے۔

ٹرسٹ اپنی سرگرمیوں کے ذریعے نہ صرف یہ کہ مریضوں کی زندگیوں کو بدل رہا ہے بلکہ اندرون اور بیرون ملک نئے چراغ بھی روشن کر رہا ہے۔ غزہ میں حالیہ تباہی و بربادی کے دوران ٹرسٹ کی ٹیم نے مریضوں کے علاج کے ساتھ دو درجن کے قریب مقامی ڈاکٹروں کو تربیت بھی دی۔ اسی طرح افغانستان جانے والی ٹیم نے وہاں ڈاکٹروں کو سکھایا اور پھر افغان ڈاکٹر پشاور آئے اور یہاں سے تربیت لے کر اپنے وطن واپس چلے گئے۔ سندھ‘ بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں42ہزار سے زائد افراد ٹرسٹ کی خدمات سے مستفید ہوئے۔

اس بارے میں غیر معمولی بات یہ ہے کہ ملک بھر سے 250 ڈاکٹر ٹرسٹ کو بلا معاوضہ خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس طرح کے طبی کیمپ نو آموز ڈاکٹروں کی تربیت کے لیے لگائے جاتے ہیں کہ وہاں ان مریضوں پر اپنا ہاتھ سیدھا کر لیں، لیکنPOB کے معیار کا یہ عالم ہے کہ کچھ عرصہ پہلے جب ملتان میں بہت سے مریضوں کے آپریشنز میں مسائل سامنے آگئے تو جن دو تنظیموں کو معاملہ سنبھالنے کے لیے بلایا گیا ان میں ایک POB تھی۔

اس سلسلے میں ہماری بات POBکے جنرل سیکریٹری ڈاکٹر زاہد لطیف سے ہوئی تو انھوں نے بتایا کہ لاہور میں جو اسپتال مکمل ہو چکا ہے اس میں ضروری آلات کے لیے مزید 40کروڑ روپے درکار ہیں۔ وہ اس یقین کا اظہار کر رہے تھے کہ اسی ماہ مقدس میں یہ ضرورت بھی پہلے کی طرح کار خیر میں حصہ ڈالنے والوں کی مدد سے پوری ہو جائے گی۔

ٹرسٹ نے اس حوالے سے ایک اور مہم بھی چلا رکھی ہے جس کے تحت لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ 12ہزار روپے عطیہ سے ایک مریض کی بینائی بحال ہو سکتی ہے۔ پوری دنیا میں عظیم تبدیلیاں حکومتیں نہیں عام لوگ لے کر آئے ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ جد و جہد واضح مقصد پر مرتکز ہو۔ پی او بی روشنی کا سفر ہے جس میں ہر کوئی شامل ہو سکتا ہے۔ اگر ہم بے وسیلہ لوگوں کے دست و بازو بننے کا عہد کر لیں تو POB جیسے ادارے رہنمائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں