
سیاسی ترجیحات اس دور میں بھی تعلیم کے شعبے پر اثرانداز ہو رہی ہیں۔ ملک بھرکی بیشتر سرکاری یونیورسٹیاں شدید مالیاتی بحران کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت نے برطانیہ سے ملنے والے 190 ملین پونڈ سے اسلام آباد میں ایک نئی دانش یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کردیا۔
یہ یونیورسٹی اسلام آباد کے سیکٹر H-6 میں 100ایکڑ پر تعمیر ہوگی۔ اس یونیورسٹی کا پہلا سیشن 14، اگست 2026کو عملی طور پر متحرک ہوجائے گا۔ اسلام آباد سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ لندن سے ملنے والی رقم سے ملک کے مختلف حصوں میں دانش اسکول قائم ہونگے۔
وفاقی وزیر تعلیم ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے بھی کراچی اور حیدرآباد میں مختلف یونیورسٹیوں کے کیمپس کے قیام کا بیانیہ اپنی عوامی رابطہ مہم میں شامل کیا ہوا ہے۔
اعلیٰ تعلیم کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ سرکاری یونیورسٹیوں کوگرانٹ دینے والے ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (H.E.C) نے گزشتہ مالیاتی سال کے بجٹ کے لیے 125 بلین روپے وفاقی حکومت سے مانگے تھے مگر وفاقی حکومت نے ایچ ای سی کو صرف 65بلین روپے فراہم کیے۔ ایچ ای سی نے گزشتہ سے پیوستہ برسوں میں بھی بجٹ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تھا مگرگزشتہ پانچ برسوں سے اسلام آباد کا وفاقی بجٹ بنانے والی اتھارٹی نے ایچ ای سی کے مطالبہ کو پورا کرنے کے بجائے مزید بجٹ کم کردیا۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تمام سرکاری یونیورسٹیوں کو فراہم کی جانے والی Recurring Grant میں کمی کی گئی۔ 2018-19کے وفاقی بجٹ میں فی طالب علم یہ رقم 67,528 روپے تک محدود ہوگئی تھی۔
2023-24میں فی طالب علم 50,956 روپے تک محدود ہوگئی۔ قومی اسمبلی کی تعلیم کی ذیلی کمیٹی کو گزشتہ دنوں بتایا گیا تھا کہ ایچ ای سی کو جی ڈی پی کا صرف 2 فیصد سے کم حصہ مل رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے منتخب اراکین نے یہ گزارش کی تھی کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو جی ڈی پی کا 4 فیصد حصہ مہیا کیا جائے مگر یہ گزارش قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور وزارت تعلیم کے درمیان گردش کرنے والے فائل کے صفحات کے درمیان مقید ہوگئی۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دور سے ایچ ای سی کے بجٹ میں کمی کا سلسلہ شروع ہوا جس کی بناء پر 160کے قریب یونیورسٹیوں میں مالیاتی بحران شدت اختیارکرگیا۔
اس بحران کا شکار تمام یونیورسٹیاں ہوئیں مگر وفاق کی یونیورسٹیوں کے علاوہ بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں یہ بحران زیادہ شدید ہوگیا۔ وفاق کے زیرِ انتظام قائد اعظم یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی اور علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اس بحران سے براہِ راست متاثر ہوئیں۔ ان یونیورسٹیوں میں سب سے زیادہ بحران وفاقی اردو یونیورسٹی میں ہے۔ بجٹ کی کمی کی بناء پر اساتذہ و عمال کو تنخواہوں کی ادائیگی میں بے قاعدگی سے اساتذہ و عمال تنخواہوں اور رینٹل سیلنگ سے محروم ہیں۔
ریٹائر ہونے والے اساتذہ و عمال کی پانچ ماہ کی پنشن باقی ہے۔ 2017میں ریٹائر ہونے والے اساتذہ اور عمال کو واجبات ادا نہیں کیے گئے۔ قائد اعظم یونیورسٹی اور علامہ اقبال یونیورسٹی میں مالیاتی بحران کی بناء پر تعلیمی معیار متاثر ہوا ہے ۔ جب ان وفاقی اردو یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریٹائرڈ اساتذہ نے تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگیوں کے لیے احتجاج شروع کیا اخبارات میں خبریں شایع ہوئیں اور صورتحال کی گونج پاکستان کی سینیٹ کی تعلیم کی ذیلی کمیٹی میں سنی گئی تو وفاقی وزارت نے ان تینوں یونیورسٹیوں کے مالیاتی بحران پر قابو پانے کے لیے وزارت خزانہ کو 2.5 ملین روپے کی خصوصی گرانٹ کی منظوری کی استدعا کی۔
اگرچہ اس رقم سے تینوں وفاقی یونیورسٹیوں کا مالیاتی بحران مکمل طور پر ختم نہیں ہوگا مگر وزارت خزا نہ اور وزیراعظم ابھی تک اس سمری کے مستقبل کے بارے میں کسی فیصلے پر نہیں پہنچ سکے۔ جب تحریک انصاف کی حکومت نے ایچ ای سی کے فنڈز میں خاطرخواہ کمی کی تو پھر وفاقی کابینہ کے سامنے سرکاری یونیورسٹیوں پر فنڈزکی کمی کا معاملہ آیا تو عقل مند بیوروکریسی کے کسی اہلکار نے یہ تجویز دی کہ یونیورسٹیوں کو مالیاتی طور پر خودکفیل ہونا چاہیے، یوں یونیورسٹیوں کو ہدایات جاری کی گئیں کہ اخراجات پورے کرنے کے لیے طلبہ کی فیسوں میں خاطرخواہ اضافہ کریں اور پھر بھی معاشی صورتحال بہتر نہ ہو تو سرکاری یونیورسٹیوں کی زمینوں کی فروخت کی جائے۔
اس وقت ڈاکٹر بنوری ایچ ای سی کے چیئرمین تھے۔ انھوں نے ان دونوں تجاویز کی شدید مخالفت کی۔ ڈاکٹر بنوری کی یہ دلیل تھی کہ سرکاری یونیورسٹیوں میں متوسط اور نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ ان طلبہ کے والدین کے لیے اتنی زیادہ فیسیں ادا کرنا مشکل ہوگا۔ ڈاکٹر بنوری کا استدلال تھا کہ چھوٹے شہروں کی یونیورسٹیوں میں فیسوں سے اضافے سے طلبہ کی تعداد کم ہوگی۔
اسی طرح ڈاکٹر طارق بنوری نے اپنے وسیع تجربہ کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں کی زمینوں کی فروخت سے ایک طرف یونیورسٹیاں قیمتی اثاثوں سے محروم ہوجائیں گی تو دوسری طرف مختلف شہروں میں سرگرم لینڈ مافیا کے اہلکار زمینوں کی بندر بانٹ میں حصہ لینے لگیں گے مگر ڈاکٹر بنوری کا یہ بیانیہ اسلام آباد کی بیوروکریسی کے لیے ناقابلِ قبول تھا۔ اس بناء پر ڈاکٹر طارق بنوری کو ایچ ای سی کی قیادت سے محروم ہونا پڑا۔ طلبہ اور اساتذہ کے احتجاج پر یونیورسٹیوں کی قیمتی زمینوں کی فروخت کا معاملہ داخل دفتر ہوا۔
میاں شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ حکومت نے ایچ ای سی پر زور دیا کہ سرکاری یونیورسٹیوں کے مختلف کورس کی فیسوں میں کئی گنا اضافہ کردیا جائے۔ بعض یونیورسٹیوں میں 100 سے 200فیصد تک فیسیں بڑھادی گئیں جس سے نچلے متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے طلبا و طالبات کو اپنی تعلیم نامکمل چھوڑنی پڑی۔ مگر سرکاری یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح میں خاطرخواہ اضافہ نہ ہوا بلکہ بعض یونیورسٹیوں میں داخلوں کی شرح گرگئی۔
یونیورسٹیوں کا بحران تیز ہوگیا۔ خاص طور پر بلوچستان، اندرونِ سندھ، جنوبی پنجاب اور خیبر پختون خوا کی یونیورسٹیوں میں فیسوں کے اضافے سے منفی نتائج سامنے آئے۔ ملک کی سرکاری یونیورسٹیوں کی اساتذہ کی انجمنوں کی فیڈریشن FAPUASA کے صدر ڈاکٹر امجد مگسی نے حکومت کے دانش یونیورسٹی کے قیام پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو نئی یونیورسٹیوں کے قیام سے پہلے موجودہ یونیورسٹیوں کے بحران کو حل کرنا چاہیے۔
انھوں نے کہا کہ ماہِ رمضان میں بلوچستان اور بہاولپور یونیورسٹیاں میں اساتذہ اور عمال کو تنخواہ ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس وقت پورے ملک میں 13فیصد طلبہ یونیورسٹیوں میں داخلہ کے لیے جاتے ہیں، اگر حکومت نے مالیاتی بحران پر توجہ نہ دی تو یونیورسٹیوں میں داخلہ حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد مزید کم ہوجائے گی۔ وزیر اعظم کو اعلیٰ تعلیم کے مسائل کی گہرائی کو محسوس کرتے ہوئے نئی یونیورسٹی کے قیام کے بجائے 190ملین پونڈز کی رقم سرکاری یونیورسٹیوں کے حالات بہترکرنے پر خرچ کرنی چاہیے۔ دانش کا تقاضا یہ ہے کہ پہلے سے موجود یونیورسٹیوں کو بچایا جائے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔