آسان فارمولا

اب اگر قدرت نے ہمارے نصیب میں ہار لکھ دی ہے تو بھی تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے


شہلا اعجاز March 23, 2025

بھارت میں ایک ایسا واقعہ ہوا کہ جس نے عام عوام کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا دی۔ بھارت کے پنجاب میں پٹیالہ شہر میں تیرہ مارچ کو پارکنگ کے معاملے پر تنازع شروع ہوا۔ گاڑی تھی کرنل پشپندرکی، پولیس اہل کاروں نے کرنل صاحب سے ان کی گاڑی ہٹانے کو کہا، گفتگو تلخی کی حد میں تھی جس پر کرنل صاحب کو اعتراض ہوا، یاد رہے دہلی ہیڈ کوارٹر میں کرنل پشپندرکی تعیناتی ہے۔

پولیس اہل کاروں نے فوج کے حاضر سروس کرنل کو گاڑی سے اتارا اور ان کو اپنے انداز میں تشدد کا نشانہ بنایا۔ یہ واقعہ اس وقت لوگوں میں مقبول ہوا جب اس کی وڈیو وائرل ہوئی جس میں صاف نظر آ رہا تھا، سادہ کپڑوں میں ملبوس اہل کار کرنل پشپندرکو گاڑی سے نیچے اتار کر دیسی انداز میں لاتیں اور تھپڑ مار رہے تھے۔ 

اس مار کٹائی میں کرنل صاحب کے جوان صاحب زادے بھی زد میں آگئے، اس تشدد کے باعث کرنل صاحب کے ہاتھ پر پلاستر چڑھ گیا دونوں زخمی باپ بیٹے اسپتال پہنچ گئے۔  بعد کی کہانی میں واقعے کی اطلاع پولیس حکام کو ہوئی اور انھوں نے بارہ پولیس اہل کاروں کو معطل کرکے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

یہ واقعہ ہم لوگوں کے لیے حیران کن اور پریشان کن ہے ۔چیمپئنز ٹرافی 2025 میں انڈیا کی کامیابی نے بہت سی باتوں کو واضح کیا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہمارے مقابلے میں بھارت ڈٹ جانے والا ہے یا ہوگیا ہے کیونکہ اس سیریز کی ابتدا سے ہی جو باتیں اچھل رہی تھیں کہ بھارت پاکستان کی سرزمین پر نہیں کھیلنا چاہتا اب اس میں وہ سیکیورٹی رسک کا بہانہ بنائیں یا اپنی کسی اندرونی سیاسی چال کا کوئی شاخسانہ ہو، پر انھوں نے کر دکھایا۔

اس پرکتنا ہی واویلا کیا گیا لیکن جیسے ہمارے سارے دعوے بیانات، اعتراضات پھسپھسے رہے اور وہ جم کر کھڑے رہے۔ اس سے پہلے بھی بھارت میں کھیلوں کے ہونے والے مقابلوں میں ان کی ہٹ دھرمی برقرار رہی تھی اور انھوں نے پاکستانی کھلاڑیوں کو ویزا جاری نہیں کیا تھا وہ جم کر ہماری مخالفت میں کھڑے تھے اور ہم پھر پھسپھسے رہے۔

کیا واقعی بھارت مضبوط ہو رہا ہے یا ہم کمزور ہوئے جا رہے ہیں۔پاکستانی کرکٹ کے حوالے سے ایک طویل بحث برسوں سے چلی آ رہی ہے،باہمی تنازعات، کھلاڑیوں کے انتخاب، بورڈ کا رویہ سب نے مل ملا کر کرکٹ ٹیم کو تجرباتی ملغوبہ بنا دیا تھا جو ہنوز تجرباتی چوہے کی مانند جاری ہے خدا جانے اس تجرباتی چوہے پر کب تک عمل چلتا رہے گا یا مستقبل میں بھی چچا، ماموں اور پھوپھو کے بیٹے ہی لائن میں لگے رہیں گے۔

ایک تو ہماری نوجوان نسل کو بچپن سے لے کر ابھی تک نلی پائے اور کوفتہ بریانی کی ایسی لت لگی ہے کہ چاہے کرکٹ کا میدان ہو یا گلی محلے کے چوبارے، زبان کے چٹخارے کون چھوڑے اور جناب کھیل تو کھیل ہوتا ہے جس کو ایک جیتتا ہے تو ایک ہارتا ہے اب اگر قدرت نے ہمارے نصیب میں ہار لکھ دی ہے تو بھی تقدیر سے کون لڑ سکتا ہے پر ہماری معصوم عوام کو یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، بلاوجہ ہمارے ننھے منے کھلاڑیوں کو سنائے چلے جا رہے ہیں۔

سنیل گواسکر کا ایک زمانے میں طوطی بولتا تھا اپنے زمانے کے ماہر بلے باز، سنیل جب پچ پر آتے تو جیسے چپک کر رہ جاتے تھے۔ زبردست اوپننگ کے ماہر جنھیں 2012 میں کرکٹ کے لیے کرنل سی کے نائیڈو لائن اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا تھا صرف یہ ہی نہیں ان کی جھولی میں بڑے چھوٹے کئی ایوارڈ اور اعزازات ہیں ان کے نام پر ایک اسٹیڈیم کا نام بھی رکھا گیا ہے،  ان کے صاحب زادے روین جو کرکٹ کے کھلاڑی ہیں، گیارہ ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیل چکے ہیں لیکن بھارتی سلیکشن ٹیم کے مطابق وہ اس معیار پر پورے نہ اترے اور ٹیم میں ان کی جگہ نہ بن پائی اور یوں روین ٹیم سے باہر ہو گئے۔

سنیل گواسکر اپنے تمام اختیارات اور تعلقات چلانے میں ناکام رہے اور یہ ہی ان کی سب سے بڑی ناکامی ہے کہ وہ اپنے بیٹے کے لیے کچھ نہ کر پائے، اب بتائیے کیا فائدہ روین کے اے ٹیم میں شامل ہونے کا جب انھیں ٹیسٹ ٹیم میں جگہ ہی نہ مل سکی۔

کرکٹ کے میدان کے جوش و خروش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ نجانے کیا کچھ ہونے والا ہے۔ اس کرکٹ کے بخار نے سڑکوں پر ٹریفک کو کبھی کسی روڈ سے توکبھی دوسرے روڈ سے ایسے بند کرایا کہ جس سے دفاتر، اسکولز اور اسپتال جانے والے ضرورت مند پریشان ہی ہوتے رہے پر یہ ہی کہہ کر دلاسوں سے خود کو بہلاتے رہیں کہ اپنے بچے کھیل کر ملک کا نام روشن کریں گے۔

ایسا نہیں ہے کہ نام روشن نہیں کیا، بہت کیا اور کیا خوب کیا کہ لوگ سوچ میں پڑگئے کہ آخر پہلے ایسے کیوں نہیں کیا گیا۔ بلاوجہ ہی ماضی میں کھلاڑیوں نے جان لگا کر میچزکھیلے اور جیت کر بھی لوٹے پر کیوں، بھئی ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے ہمیں ہار کا حصہ شیئر کرنے میں شرم کیسی۔ پہلے تو مارکیٹنگ کا ایسا دور بھی نہ تھا اب تو بڑے بڑے اشتہارات میں کوئی دیوار سے لٹک کر بسکٹ کھاتا نظر آ رہا ہے تو کوئی موبائل استعمال کر رہا ہے تو کوئی مشروب پی رہا ہے۔

ایک بات تو طے ہے کہ ان شرارتی بچوں کی بتائی گئی اشیا استعمال کرنے میں فائدہ نہیں ہے، نتیجہ چیمپئن ٹرافی میں ناکامی ثبوت ہے۔بات کہاں سے کہاں جا پہنچی۔ سیاست تو ہر ادارے میں ہوتی ہے پاکستان میں بھی اور بھارت میں بھی پر اس سیاسی گراف پر ہم اتنے اونچے ہوگئے ہیں کہ اب ہمارے سر آسمان پر بادلوں سے ٹکرا رہے ہیں اور ہمیں زمین صاف دکھائی نہیں دیتی، اب ظاہر ہے ہم اتنا اونچا اڑ رہے ہیں تو ہمارے قدم زمین پر کہاں ٹکنے والے ہیں اور بھارت ابھی تک زمینی سفر میں مبتلا ہے لہٰذا اس کے قدم ذرا جمے ہیں لہٰذا یہ ایک انتہائی آسان سا فارمولا ہے کہ بھارت مضبوط نہیں ہو رہا بلکہ ابھی تک زمینی سفرکر رہا ہے اور ہم تو ہواؤں میں اڑ رہے ہیں، کمزور نہیں ہیں۔بقول شاعر:

آج اپنی ذلت کا سبب یہی ہے شاید

سب کچھ ہے یاد مگر خدا یاد نہیں

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں