
ہمارا خطہ کشمکش کے ایک نئے عہد میں داخل ہو گیا ہے۔ اس کی ایک نشانی تو بلوچستان میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ کا سانحہ بھی ہے لیکن اس معاملے کو سمجھنے کے لیے زیادہ ضروری یہ ہے کہ صورت حال کی بڑی تصویر دیکھے کی کوشش کی جائے۔
یوں پاکستان میں دہشت گردی کا سلسلہ گزشتہ تین چار دہائیوں سے جاری ہے لیکن حالیہ چند ہفتوں کے دوران میں اس کی شدت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ زیادہ متعین بات یہ ہو گی کہ صدر جمہوریہ ترکیہ رجب طیب اردوان کے حالیہ دورہ پاکستان کے بعد اس کی شدت بڑھی ہے۔ کئی اہم راہنماؤں کو شہید کر دیا گیا ہے جب کہ بلوچستان میں ایک مسافر ٹرین کو اغوا کر کے بڑے پیمانے پر جانی نقصان کیا گیا۔ انسانی جان کا نقصان ہمیشہ ہی تکلیف دہ ہوتا ہے لیکن لیکن ایک پوری مسافر ٹرین کے اغوا نے صورت حال کو بگاڑ کی نئی بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ دہشت گردی کی تازہ لہر کا پس منظر کیا ہے اور صدر رجب طیب اردوان کے دورے کے بعد اس میں اضافہ کیوں ہوا ہے؟ یہی اس وقت کااہم ترین سوال ہے جس کا جواب حاصل کر لیا جائے تو یوں سمجھئے کہ ہم مسئلے کی بنیاد تک پہنچ جائیں گے۔خطے کی موجودہ اسٹریٹجک صورت حال کو سمجھنے کے لیے صدر اردوان کا دورہ پاکستان کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں، پاکستان اور ترکیہ کی قیادت کی ملاقاتیں اور تبادلہ خیال معمول کی بات ہے لیکن لمحۂ موجود میں اس کی اہمیت غیر معمولی ہے۔
یہ گزشتہ برس کی بات ہے جب صدر اردوان اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان ڈی ایٹ کانفرنس کے موقع پر قاہرہ میں ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات میں انھوں نے وزیراعظم سے کہا کہ قدرت نے ایک اہم موقع پر آپ کو پاکستان کی قیادت سونپی ہے۔ یہ ایسا وقت ہے جب دنیا پرانے جھگڑوں اور مسائل سے جان چھڑا کر ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے۔ اس پس منظر میں کوشش کی جا رہی ہے کہ پرانے طول طویل راستوں کے بجائے کچھ نئے راستے دریافت کر کے انھیں پروان چڑھایا جائے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ابتدائی سطح پر ایک ڈائیلاگ میکنزم تشکیل دیا جائے جس میں تین ایسے برادر ملک شامل ہوں جن کا باہمی اعتماد اور تعاون مثالی ہو۔ انھوں نے تجویز کیا کہ اس میکنزم پاکستان اور ترکیہ کے ساتھ آذر بائیجان کو شریک کر لیا جائے تو ہم اس خواب کی تعبیر تک جلد پہنچ سکتے ہیں۔
صدر رجب طیب اردوان کا حالیہ دورہ پاکستان اس تجویز کے فالو اپ میں تھا۔ اس دورے کے فورا وزیر اعظم شہباز شریف کا دورہ آذربائیجان بھی اسی پس منظر میں تھا جس میں سہ فریقی ڈائیلاگ میکنزم کو حتمی شکل دی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اس میکنزم کی افادیت کیا ہو گی؟ یہ سوال میں جمہوریہ ترکیہ کے سفیر عزت مآب ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو سے پوچھا۔
ڈاکٹر عرفان نذیر اوغلو محض ایک سفیر نہیں بلکہ خواب دیکھنے والے وژنری اور پاکستان کے درد مند دوست بھی ہیں۔ میرے سوال پر انھوں نے کہا کہ پاکستان اور ترکیہ جیسے دوست، کوئی شبہ نہیں ہے کہ تاریخ کے ایک ایسے مرحلے پر آ کھڑے ہوئے ہیں جہاں وہ اپنی بصیرت اور قوت عمل کو بروئے کار لا کر نہ صرف دونوں برادر اقوام کے لیے ترقی اور خوشحالی کو یقینی بنا سکتے ہیں بلکہ اس خطے کی قسمت بھی تبدیل کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر اوغلو جو بات کہہ رہے ہیں، اس کی تفصیل یہ ہے کہ اس خطے کو ترکیہ کو بہ راستہ پاکستان گریٹر یوریشیا سے ملا دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک کاریڈور بنانے کی تجویز ہے جسے مڈل کاریڈور کا نام دیا جا رہا ہے۔ یہ کاریڈور پاک چین اقتصادی راہداری کی معاونت بھی کرے گا اور اپنی انفرادی حیثیت سے برقرار رکھتے ہوئے خطے کے لیے بھی سود مند ثابت ہو گا۔
اب سوال یہ ہے کہ اس معاملے کا پاکستان میں پیدا ہونے والی دہشت گردی کی لہر سے کیا تعلق ہے؟ حالیہ دنوں میں دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مہتمم مولانا حامد الحق حقانی کا قتل لرزا دینے والا واقعہ ہے۔ اسی طرح کوئٹہ ایئرپورٹ کے قریب جمعیت علمائے اسلام ف کے راہ نما مفتی عبد الباقی نور زئی کا قتل توجہ طلب ہے۔ ان دونوں اہم شخصیات کا سبب ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا ہے؟ یہ سبب سمجھ میں آ جائے تو دہشت گردی کی حالیہ لہر کے مضمرات نسبتاً آسانی کے ساتھ سمجھ میں آ سکتے ہیں۔
مذہبی طبقہ خاص طور پر دارالعلوم حقانیہ اور جمعیت علمائے اسلام جیسی دینی جماعتیں اس خطے میں اس سرگرمی کی پشتی بان رہی ہیں جسے جہاد کا نام دیا گیا تھا۔ گزشتہ تین چار دہائیوں کے دوران میں اس جہاد کی جو جو شکلیں، مقاصد اور نتائج سامنے آئے ، ان کی وجہ سے خود جہادیوں کے سرپرستوں کی آنکھوں پر پڑے ہوئے بہت سے پردے اٹھ گئے ہیں اور ان کی سمجھ میں آ گیا ہے کہ مذہب کے نام پر جاری ان سرگرمیوں کا تعلق مذہب سے نہیں ہے بلکہ ان کی وجہ سے مذہب ہی بدنام نہیں ہوا بلکہ پاکستان سمیت یہ خطہ بھی مستقل طور پر عدم استحکام کا شکار ہو گیا ہے۔
اس طبقے کی سمجھ میں یہ حقیقت بھی آ گئی ہے کہ پردے کے پیچھے کون ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں لہٰذا یہ طبقہ اب ماضی کی جذباتیت سے اوپر اٹھ کر زمینی حقائق کے مطابق فیصلے کر رہا ہے۔ اس طرح مذہب کے نام پر سرگرم عمل عسکریت پسند پاکستان کے دینی طبقے کی حمایت سے محروم ہو رہے ہیں۔ اب وہ اس خوف کا شکار ہیں کہ آنے والے دنوں میں ان کی مقبولیت کی بنیاد ڈھے جائے گی۔ اس پس منظر میں ان کی اضطراری حکمت عملی یہ ہے کہ دینی طبقات کو خوف و ہراس میں مبتلا دیا جائے۔پاکستان کے مذہبی طبقات سی پیک اور گوادر کے عظیم مستقبل کے بارے میں بھی پر عزم ہیں اور وہ اس کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے حق میں نہیں ہیں۔ انھیں ٹارگٹ کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے۔
صورت حال کے اس پہلو پر غور کرتے ہوئے یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ ٹی ٹی پی نامی عسکریت پسند ہوں یا لسانی اور نسلی بنیادوں پر علیحدگی کے پرچارک، ان کے درمیان اتحاد ہو چکا ہے۔ ان کی بہت سی سرگرمیاں ایک دوسرے کی مدد میں ہوتی ہیں۔ جعفر ایکسپریس کے واقعے میں افغانستان کی دلچسپی کی وجہ بھی یہی تھی۔
حاصل بحث یہ ہے کہ یہ تمام منفی قوتیں اس خطے کو زمینی اعتبار سے دیگر خطوں سے منسلک کر کے اقتصادی سرگرمیوں کی فروغ کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کے درپے ہیں اور اس مقصد کے لیے انھیں کوئی اور استعمال کر رہا ہے۔ جعفر ایکسپریس کے اغوا کا مقصد بھی یہی تھا کہ چین سمیت ان تمام قوتوں کو خوف زدہ کر کے یہاں سے نکال دیا جائے۔ کیا ایسا ہو سکے گا؟ جواب ہے کہ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ منصوبے اور ان کے پس پشت پاکستان سمیت تمام قوتیں اس سلسلے میں نہایت سنجیدہ ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ وہ سر دھڑ کی بازی لگا چکیں ہیں اور پیچھے ہٹنے کو قطعا تیار نہیں۔ اسی وجہ سے ہم ایک نئی کشمکش کے دروازے پر جا کھڑے ہوئے ہیں۔
بریگیڈئیر محمد یوسف کی' آخر شب کے مسافر'
زندگی کی رائیگانی کا احساس ہو جائے تو حساس آدمی کو شاعر بن جانا چاہئے۔ممکن ہے کہ بریگیڈئیر محمد یوسف(ریٹائرڈ) کے ساتھ بھی یہی کچھ بیتاہو۔ وہ اچھے خاصے فوجی رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد روایت کے مطابق دفاعی اور تزویراتی امور میں قوم کی راہ نمائی بھی کی ہے ۔ خوشی ہے کہ موضوعات اور حالات کے سنگینی کے باوجود ان کا حساس دل دھڑکتا رہا اور وہ چپکے چپکے شعر کہتے رہے اور اب بالآخر وہ صاحب دیوان ہو گئے ہیں اور 'آخر شب کے مسافر' نام سے ان کا مجموعہ منصۂ شہود پر آگیا ہے۔ خوشی ہوئی کہ وہ فرماں بردار نکلے اوراحمد ندیم قاسمی کی ہدایت مطابق شعر کہتے رہے۔ گو ان کے مجموعے کے نام سے ذہن کسی اور طرف جاتا ہے لیکن شعر انھوں نے خوب کہے ہیں۔ان کے اشعار گواہی دیتے ہیں کہ اپنی پیشہ وارانہ ذمے داریوں کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنے اندر سے اٹھنے والی آواز پر توجہ دی ہے
برس رہی ہے اداسی تمام چہروں پر
غموں کے دیس سے کوئی سفر پہ آیا ہے
فصیل شہر نے دھوکا دیا، بجا لیکن
محافظوں سے بھی ہم نے فریب کھایا ہے
اگر کسی شاعر کا نوشتہ تجربے اور ہڈ بیتی کے پیچیدہ عمل گزر کر وجود میں آئے تو وہ اسی قسم کا ہونا چاہئے۔ بریگیڈئیر صاحب کا شمار اب مستند شاعروں میں کیا جائے گا، اس پر وہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔علامہ عبد الستار عاصم اور ان کی قلم فاؤنڈیشن نے یہ مجموعہ روایت کے مطابق خوب صورتی سے شائع کیا ہے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔