
آج صبح جب میں فجر کی نماز کے لیے مسجد پہنچا تو حیرت میں ڈوب گیا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی غیر معمولی واقعہ پیش آیا ہو۔ مسجد، جو عام دنوں میں آدھی بھری بھی نظر نہیں آتی تھی، آج مکمل طور پر نمازیوں سے بھری ہوئی تھی۔
پہلی صفوں میں جگہ پانے کے لیے لوگ جلدی پہنچے ہوئے تھے، اور قرآن کی تلاوت کی گونج ہر طرف پھیلی ہوئی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے سب کے دل کسی روشنی کی طرف کھنچے چلے آ رہے ہوں، جیسے گناہوں کا بوجھ اتارنے کی کوشش ہو رہی ہو۔
گھر سے جب آفس جانے کے لیے نکلا تو باہر کا منظر بھی بدلا ہوا تھا۔ سڑکوں پر وہ معمول کی بے ترتیبی اور شور شرابہ نہیں تھا، بلکہ ایک عجیب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔
دکانیں، جو عام دنوں میں صبح سویرے کھل جایا کرتی تھیں، حیرت انگیز طور پر بند تھیں۔ پان، گٹکا اور سگریٹ کے عادی لوگ، جو ہر جگہ کسی نہ کسی بہانے اپنی عادت پوری کرتے نظر آتے تھے، آج ضبط کیے ہوئے تھے۔
نہ کوئی سگریٹ کے کش لگا رہا تھا، نہ کوئی چائے کے ہوٹل پر بیٹھا وقت ضائع کر رہا تھا۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر یہ سب کیا ہو رہا ہے؟ کیا شہر میں کوئی نیا قانون نافذ ہو گیا ہے؟ کیا لوگوں کو کسی نئی تبدیلی کا احساس ہو چکا ہے؟ ہر طرف سکون تھا، ہر چہرے پر عجب سی سنجیدگی اور وقار تھا۔ یہ سب میرے لیے ناقابلِ یقین تھا۔
پھر اچانک مجھے احساس ہوا— آج رمضان کا پہلا روزہ تھا! وہ مہینہ جس کا آنا ہی لوگوں کو بدل دیتا ہے۔ وہ برکتوں بھرا مہینہ جو نہ صرف عبادات بلکہ انسان کے پورے وجود کو ایک نئی طہارت، نئی روشنی اور نئی امید عطا کرتا ہے۔ شام کو جب بازار کا رخ کیا تو منظر بالکل الٹ تھا۔
جو لوگ کچھ دیر پہلے نماز میں آنکھوں میں آنسو لیے گناہوں سے توبہ کر رہے تھے، وہی لوگ اب پھلوں کے دام بڑھا رہے تھے، گاہکوں سے جھوٹ بول رہے تھے، منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کا بازار گرم کر رہے تھے۔ ایک طرف افطار کے لیے کھجوریں ہاتھ میں لیے ذکر اذکار میں مصروف لوگ، اور دوسری طرف وہی کھجوریں تین گنا مہنگی بیچنے والے تاجر۔ رکشے والے، جو روزے کی حالت میں بھی پورے دن کا کرایہ ایک گھنٹے میں وصول کرنے کی کوشش میں تھے۔
مال کا ذخیرہ کرنے والے وہ سرمایہ دار جو سستی اشیاء روک کر مہنگے داموں فروخت کرنے کی تیاری میں تھے۔ میں سوچ میں پڑ گیا— یہ کیسا تضاد ہے؟ رمضان صرف عبادات کا مہینہ بن چکا ہے، اعمال درست کرنے کا نہیں۔
ہمارے معاشرے میں دین کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے: 1. عبادات (نماز، روزہ، ذکر اذکار، حج و عمرہ) 2. اعمال (ایمانداری، انصاف، سچائی، دیانت داری، دوسروں کے حقوق کی پاسداری) ہم نے دین کو اس حد تک محدود کر دیا ہے کہ ہم ایک دوسرے کی عبادات پر نظر رکھتے ہیں اور انہی کے بارے میں مشورے اور فتوے دیتے رہتے ہیں،"جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے اعمال پر نظر رکھیں اور انہی اعمال کی بنیاد پر کسی شخص کے ایمان اور دینداری کا جائزہ لیں۔" عبادات اور اعمال کا تعلق ہم نے عبادات اور اعمال کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے، حالانکہ اسلام میں "اعمال" صرف عبادات تک محدود نہیں، بلکہ پورے طرزِ زندگی کا احاطہ کرتے ہیں۔
اعمال وہ تمام کام ہیں جو انسان کی نیت، رویے اور کردار کو ظاہر کرتے ہیں، چاہے وہ کسی کے ساتھ اچھا سلوک ہو، ایمانداری ہو، انصاف ہو یا کسی کے ساتھ دھوکہ دہی، ظلم اور بددیانتی۔ ہمارے ہاں "اچھے اخلاق" کا مطلب صرف نرم لہجے میں بات کرنا سمجھا جاتا ہے، جبکہ حقیقی اخلاق کا تقاضا ہے کہ انسان سچ بولے، وعدہ پورا کرے، کسی کا حق نہ مارے، ملاوٹ نہ کرے، رشوت سے بچے، اور لوگوں کے ساتھ انصاف کرے۔ محض مسکرا کر بات کر لینا اور میٹھے الفاظ بولنا اچھے اخلاق کا مکمل معیار نہیں ہو سکتا، اگر انسان کے معاملات میں بددیانتی، جھوٹ اور خیانت شامل ہو۔ اسلام میں اعمال اور اخلاق کو الگ نہیں رکھا گیا، بلکہ عبادات کا مقصد ہی انسان کو نیک اعمال اور بہتر اخلاق کی طرف لے جانا ہے۔
اگر کوئی شخص پانچ وقت کی نماز پڑھتا ہے، روزے رکھتا ہے، مگر اس کے معاملات میں خیانت، دھوکہ دہی، ظلم، اور جھوٹ شامل ہو تو اس کی عبادت کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ یہ تضاد صرف رمضان تک محدود نہیں، بلکہ ہماری ساری زندگی میں سرایت کر چکا ہے۔ عام دنوں میں بھی ہماری مسجدیں نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں، لیکن ساتھ ہی ساتھ بے ایمانی، جھوٹ، دھوکہ دہی، رشوت، چوری، بددیانتی اور ظلم و زیادتی بھی عروج پر ہوتی ہے۔
یہ وہ تضاد ہے جسے ہمیں ختم کرنا ہوگا۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا ہمارا دین صرف نماز، روزے اور ظاہری عبادات تک محدود ہے؟ یا پھر ہمارے اعمال بھی اس کے مطابق ہیں؟ کیا ہم صرف رمضان میں نیک بننے کے عادی ہو چکے ہیں؟ یا ہم سال کے باقی دنوں میں بھی دین کے اصولوں پر چلتے ہیں؟ کیا ہم اس رمضان صرف عبادات کریں گے یا اپنے معاملات بھی درست کریں گے؟
آئیے، اس رمضان کو حقیقی اصلاح کا ذریعہ بنائیں، نہ کہ محض ایک وقتی تبدیلی! اللّٰہ ہماری عبادات کو قبول فرمائے، ہمارے روزے اور نمازوں کو ہمارے اعمال کے ساتھ جوڑنے کی توفیق دے، ہمیں اچھے اخلاق اپنانے کی ہمت دے، اور ہمیں اس تضاد سے نکلنے کا شعور عطا فرمائے۔
تحریر عبد الباسط خان
صاحب تحریر کراچی کے رہائشی ہیں۔ پڑھنا، لکھنا اور سیاحت کا شوق رکھتے ہیں۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات کے بارے میں ان کی ایک کتاب ’’چاند ہتھیلی پر‘‘ شائع ہوچکی ہے۔ موسیقی، فلموں اور شاعری کا شوق رکھتے ہیں۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔