’’ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ‘‘

افراد کی تعمیر، معاشرے کی تشکیل اور اداروں کی ترقی کے لیے کیوں ضروری ہے؟


ایاز مورس March 25, 2025

ترقی یافتہ افراد، معاشرے اور ادارے مسلسل تعلیم و تربیت کے ذریعے نئے افکار، مثبت سوچ اور نئے رجحانات کی تلاش میں رہتے ہیں۔ بطور لکھاری اور ٹرینر، میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری ذمے داری ہے کہ ایسے موضوعات پر لکھوں جو عام لوگوں کے لیے مفید ثابت ہوں۔

میری کوشش ہوتی ہے کہ تعلیم و تربیت سے متعلق ایسے موضوعات کا انتخاب کروں جو انسانی فلاح اور معاشرتی اصلاح پر مبنی ہوں۔ آج کا موضوع میرے پیشے اور شوق سے جڑا ہونے کے باعث میرے لیے نہایت اہم اور مشکل بھی ہے۔ پاکستانی معاشرہ ایک ترقی پذیر سماج ہے جو مختلف وسائل اور مراحل سے گزر رہا ہے۔ پاکستان کی بڑی آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں نوجوانوں کی ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ پر خصوصی توجہ دینی چاہیے تاکہ وہ اپنی اصلاح کرتے ہوئے معاشرے کے کارآمد اور بہتر انسان بن سکیں اور ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔

پاکستان میں ٹریننگ کی ضرورت کیوں؟

ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ ایک سائنسی طریقہ کار ہے، جس کے لیے منظم حکمت عملی اپنانا انتہائی ضروری ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ تصور ابھی حقیقی معنوں میں متعارف نہیں ہو سکا اور اپنی اصل شکل میں جڑ نہیں پکڑ سکا ہے۔ یہاں سیکھنے کا مزاج اور رواج قائم ہی نہیں ہو سکا ہے۔ 

افراد، خاندانوں اور اداروں میں اپنی ذاتی اور پیشہ ورانہ ترقی کے لیے خود کچھ کرنے کی جستجو بہت کم پائی جاتی ہے۔ پھر گذشتہ چند سالوں میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد سے وقتی، سستی اور سطحی موٹیویشن نے معاشرے اور نوجوانوں کو متحرک اور منظم کرنے کے بجائے سستی، کاہلی، شارٹ کٹس اور غیرروایتی، غیرفطری اور غیرمناسب رویوں کی ترغیب دی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ معاشرے میں ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی اصل رُوح کو متعارف کروایا جائے اور حکومت، ادارے اور معاشرہ مل کر سائنسی بنیادوں، تحقیقی مطالعات اور جدید نفسیاتی تقاضوں کے مطابق افراد کی تعلیم و تربیت کریں تاکہ وہ اپنی حقیقی صلاحیتوں سے آشنا ہو کر معاشرے کے کارآمد فرد بن سکیں۔

سیکھنے کی ابتدا: انسان، کسان، خاندان

آج کے اس مضمون میں چند پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ معاشروں کے لیے کیوں ضروری ہے۔ لرننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ، ٹریننگ، سیلف ہیلپ اور پرسنل گرومنگ انڈسٹری سے وابستہ افراد کو انسانی ترقی کے لیے کسان کی سوچ، مائنڈسیٹ اور زراعت کی حکمت عملی کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر آپ کو واقعی منصوبہ بندی اور صبر سیکھنا ہے تو کسانوں سے سیکھیں، کیوںکہ ان کی منصوبہ بندی میں قدرتی عوامل کا بڑا دخل ہوتا ہے۔

میری دُعا ہے کہ کاش ہمارے گھر تربیت گاہ، تجربہ گاہ  اور حکمت کی درس گاہ بن جائیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ بچوں کی لرننگ صرف کلاس روم تک محدود نہیں ہوتی؛ بلکہ وہ گھر سے نکلتے ہی اسکول وین کے ڈرائیور کی گفتگو، وین کے ماحول، اسکول چوکی دار کے رویے اور ایڈمنسٹریشن کے برتاؤ سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ تعلیم و تربیت یعنی ٹریننگ محض کتابوں اور سیشن تک محدود نہیں ہونی چاہیے، بلکہ گھروں میں خاندان کے تعلقات، کردار اور ماحول کے ذریعے بھی ہونی چاہیے۔

سیکھنا زندگی ہے

زندگی میں وہ لوگ ناکام ہوتے ہیں جو سیکھنا اور جینا چھوڑ دیتے ہیں۔ سیکھنا ہی زندگی کا اصل جوہر ہے، باقی سب ناکام ہے۔ اسی حقیقت کو ایک منفرد اور دل چسپ موضوع پر مبنی فلم Second Act نہایت عمدگی سے بیان کرتی ہے۔ زندگی اس وقت پھیکی اور بے مقصد ہو جاتی ہے جب ہم کچھ نیا سیکھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ Larry Crowne  نامی فلم، ٹرینرز، کوچز اور اساتذہ کے لیے ایک عمدہ فلم ہے، جو اس بات پر زور دیتی ہے کہ انسان کو زندگی بھر سیکھتے رہنا چاہیے۔ اگر آپ کے اندر آگے بڑھنے کی لگن ہے تو سیکھنے کا راستہ خود بخود نکل آتا ہے۔ سیکھنا مختلف اور مشکل ہو سکتا ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔

روحانی، انسانی اور رویوں میں بہتری

معروف اداکار جم کیری کا کہنا ہے۔ ’’جب آپ روحانی بیداری کے عمل سے گزرتے ہیں، تو کوئی بھی چیز آپ کو پریشان نہیں کرتی، کیونکہ کچھ بھی فرق نہیں پڑتا۔ آپ یہ حقیقت جان لیتے ہیں کہ آپ ایک محدود وقت کے لیے زمین پر مسافر ہیں۔

آپ کا مقصد چیزوں کا جائزہ لینا اور سیکھنا ہے، اور پھر آپ یہاں سے واپس بہت دور چلے جائیں گے۔‘‘ میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ اداروں میں ٹریننگ صرف اس لیے نہیں ہونی چاہیے کہ ورکرز اچھا کام کریں، بلکہ اس لیے ہونی چاہیے کہ وہ اچھے انسان بنیں۔ Zig: You Were Born to Win، زگ زیگلر کی زندگی، خدمات اور تعلیمات پر مبنی ایک شان دار فلم ہے، جو اس بات پر زور دیتی ہے کہ ہم سب جینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور اس کے لیے سیکھنا بہت ضروری ہے۔

ٹیکنالوجی: سیکھنے کی نئی درس گاہ

روایتی تعلیمی اداروں میں ٹریننگ سیشنز اور لیکچرز کے دوران سب سے زیادہ مسئلہ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا پیش آتا ہے۔ ایک طرف نوجوان جدید ٹیکنالوجی سے بہت متاثر ہوتے ہیں، تو دوسری طرف انتظامیہ اب بھی ٹیکنالوجی کے بھرپور اور مؤثر استعمال سے ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ ٹیکنالوجی نے سیکھنے کے عمل کو بہت آسان کر دیا ہے۔

اب آپ کہیں بھی، کسی بھی وقت سیکھ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ جدید ریسرچ اور ڈیٹا نے ثابت کیا ہے کہ انسان سب سے زیادہ اپنے ارگرد کے ساتھیوں اور ماحول سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے معاشرے کو اجتماعی طور پر افراد کی بہتری اور ترقی کے لئیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ جب معاشرے باہمی تعاون کے فروغ کے لئے کام کرتے ہیں تو ہی حقیقی تبدیلی آتی ہے۔

صبر، دیرپا اور پائے دار ترقی کا ضامن

بانس کا درخت ہمارے علاقے (جنوبی پنجاب) کا ایک نایاب اور قیمتی درخت ہے۔ بچپن سے ہی ہم اس درخت کی افادیت، اہمیت اور استعمال سے بخوبی واقف ہیں۔ بانس اپنی مضبوطی اور پائے داری کی وجہ سے گاؤں میں وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ بانس کی جڑیں زمین میں کئی سال تک مضبوط ہوتی رہتی ہیں، جو بعد میں اس کی لکڑی اور قامت کو بلندی عطا کرتی ہیں۔

اسی طرح، اگر انسان دیر پا اور حقیقی ترقی کے خواہاں ہیں تو اُنہیں منصوبہ بندی اور صبر کی صفت کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں اس بات پر بھی زور دیتا ہوں کہ اگر ہم ٹریننگ، پرسنل ڈیویلپمنٹ، تعلیمی نظام اور انسانی نفسیات کو سمجھنا چاہتے ہیں، تو کھیتی باڑی کے اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ آج کے دور میں ہر انسان فوری کام یابی اور دیرپا ترقی چاہتا ہے، لیکن صبر کا مادہ نہیں رکھتا، اسی لیے وہ پائے دار ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔

زندگی سیکھنے کا عمل ہی تو ہے۔ اگر آپ کے اندر آگے بڑھنے کی چاہ ہو؛ تو سیکھنے کی راہ آ ہی جاتی ہے۔ سیکھنا مختلف اور مشکل ہوسکتا ہے، ناممکن نہیں۔ قدرت نے ہر بچے کو مختلف اور منفرد بنایا ہے۔ اس لیے ہر انسان کے سیکھنے، سمجھنے اور جاننے کی صلاحیت، جستجو اور قابلیت مختلف ہوتی ہے۔ سیکھنا بہت سارے لوگ چاہتے ہیں، لیکن سیکھتے بہت کم ہیں۔

آج کے دور میں ہر انسان بہت جلدی کام یابی اور دیرپا ترقی کا خواہاں ہوتا ہے لیکن اس کے اندر صبر کا مادہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے وہ دیرپا اور پائے دار ترقی سے محروم رہ جاتا ہے۔ بانس کے درخت کی افادیت بیان کرتی ہے کہ اگر انسان مضبوط، دیر پا اور قابل ذکر کام یابی حاصل کرنا چاہتا ہے تو اسے صبر اور مستقل مزاجی اپنانی ہوگی۔ مجھے دادا کی بات یاد آگئی جو کہتے تھے، ’’محنت ہر انسان کر لیتا ہے، لیکن صبر بہت کم کرتے ہیں۔‘‘

تبدیلی کی ابتدا

اگر آپ اپنی ذاتی، پیشہ ورانہ، مالی یا روحانی ترقی کے سفر میں کسی راہ نمائی، سیکھنے کے نئے زاویے، یا مثبت تبدیلی کے کسی موقع کی تلاش میں ہیں، تو ورکشاپس اور سیشن آپ کے لیے اہم و معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ بدقستمی سے ہمارے ہاں ٹریننگ کو مجبوری سمجھا جاتاہے، ضروری نہیں۔ یاد رکھیں، کتابیں پیٹ نہیں بھرتیں، لیکن نسلوں کے درمیان موجود صدیوں کے تعلیم وتربیت کے خلاء کو ضرور پُر کردیتی ہیں۔ تعلیم وتربیت (Education &  Formation) ایک مشکل، تکلیف دہ اور صبرآزما عمل ہے.

 اس لیے اکثریت اس سے کنارہ کشی اختیار کرلیتی ہے۔ مجھے خوشی اور قلبی سکون محسوس ہوتا ہے جب میں ٹریننگ سیشنز کے بعد شرکاء سے ملتا ہوں۔ ان کے خیالات اور احساسات سن کر مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں ان کی دُنیا کا ایک چھوٹا سا حصہ بن گیا ہوں۔ میری منزل شاید یہ نہیں کہ میں کسی کی زندگی بدل دوں، لیکن اگر میں اپنے تجربات شیئر کر کے کسی کے سفر میں تبدیلی کا ایک معمولی سا ذریعہ بن سکوں، تو یہی میری سب سے بڑی کام یابی ہوگی۔

ٹریننگ؛ زندگی بھر جاری رہنے والا عمل

ٹریننگ کوئی تقریب، موج مستی، ہلا گلا، تفریح اور وقت گزاری کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ریاضت کا عمل ہے، جس میں انسان کی زندگی کے فیصلوں کا دارومدار ہوتا ہے۔ یہ روشنی باٹنے والوں اور روشنی کی تلاش کرنے والوں کے درمیان روشنی کے منبع کی ملاقات کا ذریعہ ہے۔ یہ دلوں کو بدلنے، رُوحوں کو تازگی دینے، ذہنوں کو منور کرنے، سوچوں کو منظم کرنے اور زندگی کو ترتیب دینے کا نام ہے۔ یہ وقت، لمحے اور نیتوں پر منحصر ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو وسیلہ بننے کا نام ہے، انسانی تعلق کی جان ہے۔

ع :

اپنی پستی کا نہ الزام کسی پر رکھو

پاؤں پھسلے تو اسے پھر سے جما کر رکھو

قوم کے قصر کی تعمیر وفا مانگتی ہے

اس کی بنیاد میں انصاف کا پتھر رکھو

            (امجد اسلام امجد)

 یہ تحریر، ٹریننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کی اہمیت کو واضح کرتی ہے، جس میں نہ صرف اس کی سائنسی بنیادوں پر روشنی ڈالی بلکہ اسے زراعت، صبر، اور مسلسل سیکھنے کے عمل سے جوڑ کر ایک منفرد زاویہ بھی دیا گیا ہے۔ میں نے اپنے تجربے اور مشاہدات کو اس مضمون می شامل کیا ہے کہ اس کو عملی اور بامقصد بنایا جائے، تاکہ بانس کے درخت کی مثال، کسانوں کی حکمت اور جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت جیسے پہلو قارئین کے لیے نہایت متاثر کن اور قابلِ عمل ہوں۔

آپ یقیناً اس بات سے مکمل اتفاق کریں گے کہ ٹریننگ صرف پروفیشنل ڈیویلپمنٹ کے لیے نہیں بلکہ اچھا انسان بنانے کے لیے بھی ہونی چاہیے۔ پاکستان میں اس کلچر کو فروغ دینے کے لیے اداروں، حکومت اور معاشرتی سطح پر کوششیں ہونی چاہییں۔ آج کے دُور میں سیکھنے اور تعلیم وتربیت کے ذرائع اور انداز بہت بدل چکے ہیں ۔جسے معروف مفکرایلون ٹوفلر نے خوب بیان کیا تھا، ’’اکیسویں صدی کے ناخواندہ لوگ وہ نہیں ہوں گے جو پڑھ اور لکھ نہیں سکتے ، بلکہ وہ ہوں گے جو سیکھنا، بھولنا اور دوبارہ سیکھنا نہیں جانتے۔‘‘

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں