ون ویلنگ جنونی موت کا کھیل ہے

ون ویلنگ کے دوران نوجوان مختلف کرتب کا مظاہرہ کرتے، موٹر سائیکل کو تیز رفتاری سے چلاتے ہیں



حیدر آباد:

 عیدالفطر کے مبارک تہوار کی آمد کے ساتھ ہی نوجوانوں کی بڑی تعداد  رمضان المبارک کے مقدس مہینے ہی میں ون ویلنگ خونی کھیل کے ذریعے اپنی زندگی سے کھیل رہے ہیں. حیران کن بات یہ ہے کہ صنف نازک کہلانے والی لڑکیاں منچلے لڑکوں کے ساتھ ون ویلنگ کر رہی ہیں.

 نوجوانوں میں ون ویلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان تشویش کا باعث ہے، یہ شوق تیزی سے نوجوانوں میں سرایت کر چکا ہے۔

ون ویلنگ کرنے والی نوجوان نسل ویوز، لائیک، کمنٹس اور لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کرتب دکھاتے ہیں. ان نوجوانوں میں شعور کا فقدان ہے. یہ پیدائشی طور پر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوتے ہیں.

منچلے نوجوان مختلف علاقوں میں ٹولیوں کی صورت میں اکھٹے ہوتے ہیں ان منچلے نوجوانوں میں با اثر  امیر اور غریب طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بچے   شامل ہوتے ہیں۔

نوجوان ون ویلنگ کو ایک کھیل  تصور کرتے ہیں جو کہ میرے ناقص علم کے مطابق انسانیت سے ایک سنگین مذاق ہے ایک ایسا مذاق جس سے صرف ایک فرد کی جان نہیں جاتی بلکہ اس سے وابستہ تمام افراد کی موت واقع ہو جاتی ہے. قسمت سے بچ گیا تو خود کو معذوری کے حوالے کر دیا اور اگر موت کے منہ میں چلا گیا تو اپنے خاندان کو تلخ یادوں کے حوالے کر گیا۔ون ویلنگ کرنے والے

 اپنے انجام سے بے خبر ایک دوسرے سے بازی لے جانے کے شوق میں اکثر اپنے ہنستے بستے خاندان کو غمناک المیے سے دو چار کر دیتے ہیں۔ یہی نوجوان شعور کی کمی کا شکار ہوتے ہیں اور لا شعوری میں زندگی کے ہاتھوں کھیل کر موت یا معذوری کی آغوش میں سو جاتے ہیں۔ ون ویلنگ کے دوران نوجوان مختلف کرتب کا مظاہرہ کرتے، موٹر سائیکل کو تیز رفتاری سے چلاتے ہیں، سیٹ اور پیٹرول ٹنکی پر لیٹ جانا، ایک پاؤں سیٹ پر رکھ کر ایک ٹانگ ہوا میں رکھنا اور جھک کر ہینڈل پکڑنا، موٹر سائیکل ٹیڑھی کرکے چلانا، زگ زیگ بنانا، ہینڈل سے دونوں ہاتھ چھوڑنے سمیت دیگر خطرناک طریقے معمول بن گئے ہیں، خطرناک انداز میں ڈرائیونگ کے باعث یہ نوجوان نہ صرف اپنی جان کو خطرے میں ڈالتے ہیں بلکہ دوسروں کی زندگی کو بھی داؤ پر لگادیتے ہیں۔ اگر موٹر سائیکل قابو سے باہر ہوجائے یا سلپ ہوجائے تو سر کی چوٹ جان لیوا ثابت ہوسکتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ نوجوان صرف توجہ حاصل کرنے کے لیے اور اپنے آپ کو بہادر دکھانے کے لیے ون ویلنگ کرتے ہیں، جب کہ بعض نوجوان شرطیں بھی لگاتے ہیں۔ اس شرط کے چکر میں زندگی کی بازی بھی ہار جاتے ہیں. ون ویلنگ، موٹر سائیکل ریس محض جان لیوا کھیل ہی نہیں بلکہ بعض مجرمانہ ذہنیت کے حامل افراد نے اسے ناجائز کمائی کا ذریعہ بنالیا ہے۔ ایسے افراد نہ صرف ون یلنگ پر ریس لگواتے ہیں بلکہ اس ریس پر جوا بھی کھیلتے ہیں اور یہ سب کچھ کرنے کے لئے وہ ون ویلنگ کے جنون میں مبتلا نوجوان لڑکوں کا استعمال کرتے ہیں، ان موٹر سائیکلوں کی چین گراریاں بدل کر موٹر سائیکل کووزن میں ہلکا اور مزید خطرناک بنایا جاتا ہے۔

  موٹر سائیکل میکنک اچھی خاصی رقم کے عوض موٹر سائیکل کی ازسر نو مرمت کرتے ہیں اور اس میں خطرناک پرزے نصب کر کے اس کی رفتار کو بڑھا دیتے ہیں۔

آلٹرموٹر سائیکل میکینکس کا کہنا ہے کہ انکے پاس موٹر سائیکل کا کام کروانے کیلئے بچے، بڑے اور نوجوان سب ہی آتے ہیں،  جو ریسیں لگائی جاتی ہیں یا ون ویلنگ کی جاتی ہے ان ریسوں میں اصل کردار میکینک کا ہوتا ہے، میکینک کی طرف سے ریس کی موٹر سائیکل تیار کی جاتی ہے اور پھر اسے چلانے کے لیے جسے مقرر کیا جاتا ہے اسے رائیڈر کہتے ہیں وہ رائیڈر اپنی زندگی کی پرواہ  کیے بغیر اپنے گروپ اوراپنے میکینک کا نام روشن کرنے کے لیے ریس لگاتا ہے جوبعض اوقات جان لیوابھی ثابت ہوجاتاہے، موٹر سائیکل کی ریس کے لیے مختلف شاہراہوں کا انتخاب کیا جاتا ہے. موٹر سائیکل کی ریس پر گروپس کے درمیان شرطیں بھی لگائی جاتی ہیں،ون ویلنگ اور ریس کے بعد جب فیصلے کا وقت آتا ہے تو بعض اوقات ان گروپوں کے درمیان تصادم بھی ہوجاتا ہے اور فائرنگ کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے. ایسے مستریوں کے خلاف بھی کارروائی کی جانی چایئے جو موٹر سائیکل کو ون ویلنگ کے لیے تیار کرکے دیتے ہیں۔والدین اپنے بچوں کو ون ویلنگ جیسے خونی کھیل کا حصہ بننے سے روکیں۔

جو والدین اپنے بچوں کو موٹر سائیکل خرید کر دیدیتے ہیں، مگر ان کی سرگرمیوں پرنظر نہیں رکھتے وہ بھی قابل گرفت ہیں۔ والدین کئی جتن کرکے اپنے بچوں کو موٹر سائیکل دلاتے ہیں کہ ان کے بچے کو تعلیمی ادارے تک جانے میں پریشانی کا سامنا نہیں ہو، مگر بچے اپنے والدین کی طرف سے دی جانے والی اس سہولت کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ موٹر سائیکل کے ساتھ ہیلمیٹ بھی دلائیں کیوں کہ ہیلمیٹ سے سر محفوظ رہتا ہے۔ کسی حادثے کی صورت میں ہیڈ انجری نہیں ہوتی اور بچنے کے چانس زیادہ ہوتے ہیں۔ عموماً نوجوان ہیلمیٹ کا استعمال بہت کم کرتے ہیں۔ ہر والدین کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی اولاد اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے اچھے مقام پر فائز ہو اور والدین کا نام روشن کریں، لیکن ون ویلنگ کے دوران زخمی ہونے یا معذور ہوجانے کے سبب وہ، والدین پر بوجھ بن جاتے ہیں۔ جوان اولاد کی معذوری والدین کی موت ہے۔ 

والدین کو چاہیے کہ وہ گھر کے ماحول میں مثبت سوچ کو فروغ دیں کیونکہ اگر منفی سوچ کا شکار ہو کر بچے نے آزاد سانس لینے کا

سوچ لیا تو وہ ون ویلنگ سمیت کسی بھی جرم میں ملوث ہو سکتا ہے۔گھر کے بعد کسی کی بھی انسان کی دوسری تربیت گاہ اس کی درس گاہ ہوتی ہے جہاں آپ کے پاس بہت سے آپشن ہوتے ہیں اگر مثبت سوچ کے حامل اساتذہ کی شاگردگی میسر ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ آپ خود ہر برائی سے بچ سکتے ہیں۔ وقت ہم سے یہ تقاضا چاہتا ہے کہ ون ویلنگ کے مضمر اثرات کے بارے میں نئی نسل کو آگاہ کیا جائے ان کو بتایا جائے کہ یہ کھیل ہر گز نہیں یہ جرم کا راستہ ہے. نوجوانی میں قدم رکھتے ہوئے بچوں کو گھر سے لے کر درس گاہ تک کے سفر میں ون ویلنگ کے نقصانات سے آگاہی کے لیے معلومات دینا والدین سے لے کر اساتذہ تک سب پر لازم ہے.ون ویلنگ ویلرز کی ذہنی حالت کی بہتری کے لیے ماہر نفسیات کے لیکچرز دیے جایں تا کہ ون ویلر نوجوان کی سوچ میں تبدیلی رونما ہو سکے۔

ون ویلنگ کے تدارک کے لیے سوسائٹی کا بھی اہم رول ہے لوگ سڑکوں پر دوڑتے ہوئے ون ویلروں کو دیکھتے ہیں برا بھلا بھی کہتے ہیں لیکن ان کو روکتے نہیں بلکہ اپنی انکھوں کے سامنے مرتا ہوا بھی دیکھنا منظور کر لیتے ہیں یہاں بھی حکومت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے والدین سوسائٹی کے معززین اور اساتذہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اعلی افسران پر مشتمل افراد کی ٹیم تشکیل دینی چاہیے جو ون ویلنگ کو بھی روکے اور ون ویلر کے جنم کو بھی۔

والدین بچوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھیں۔۔غیر ضروری باہر  موٹرسائیکل لے جانے سے گریز کریں۔۔۔ اپنے بچوں کو تمام حفاظتی

اقدامات کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایئں کہ ان کی اور دوسروں کی زندگی کتنی قیمتی ہے،آپ کی تھوڑی سی لاپرواہی کتنے بڑے حادثے کا شکار ہو سکتی ہے۔۔خدارا بیٹوں کو خودمختار بنانے سے پہلے  ان کو بتائیں کہ زندگی کے اصول وضوابط کیا ہیں اگر، بچہ ڈرائیونگ کے قابل ہو گیا ہے تو ٹریفک کے قوانین سکھائیں،احساس، تحمل مزاجی اور بردباری کو شعار بنائیں۔۔اورٹیکنگ سے روکیں۔۔۔غرض ٹریفک کے اصول و قوانین کی باقاعدہ ٹریننگ دیں۔

بہت سے نوجوانوں کو ہائی اسپیڈ بائیک کی عادت سی ہو گئی ہے۔۔۔کوئی ان کو روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے۔۔۔سڑکوں پہ جھولتے بائیک پہ اپنی دھن پہ سوار،لوگوں کو روندتے،رواں دواں ہیں۔۔۔جب والدین ہی نہیں روکیں گے تو کوئی دوسرا کیسے روکے گا۔۔۔ایسی اولاد  دوسروں کو کیا اہمیت دے گی۔۔۔یقینا بات لڑائی جھگڑے تک پہنچے گی۔۔۔ سماجی و معاشرتی مسائل کی وجہ سے والدین اور بچوں کے صبر و برداشت کے پیمانے لبریز ہوتے جارہے ہیں۔ زیادہ تر نوجوان والدین کی عدم توجہی کی بنا پر نفسیاتی دباؤ میں ون ویلنگ جیسی منفی سرگرمیوں کے ذریعے دوسروں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی اور دوسروں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں۔

ون ویلنگ نشے سے زیادہ خطرناک ہے۔ ایک ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ، ون ویلنگ کرنے والوں میں احساس کمتری اور معاشرتی مسائل جیسے والدین کی عدم توجہ، گھریلو ماحول، غربت، جہالت، بے روزگاری، بے راہ روی اور بری صحبت وغیرہ عوامل شامل ہیں۔ نوجوان اپنے آپ میں تنہا، عدم تحفظ اور عدم توجہی کا شکار ہو رہے ہیں، اس طرح کے نفسیاتی دباؤ اور غصہ کی حالت میں ون ویلنگ سمیت دیگر منفی سرگرمیوں کے ذریعے توجہ حاصل کرنے پر مجبور ہیں، کچھ نوجوان تھرلنگ کا شوق ون ویلنگ کے ذریعے پورا کرتے ہیں. 

 علمائے کرام نے  ون ویلنگ کو غیر شرعی قرار دے دیا اور کہا کہ ہر وہ عمل جو جان کو خطرے میں ڈالے غیر شرعی ہے۔

علمائے کرام کا کہنا ہے کہ اسلام انسانی جان کی حفاظت کو اولین ترجیح دیتا ہے. ون ویلنگ جیسے جان لیوا کھیل اسلام میں سخت ممنوع ہیں، ’’یہ اعمال خودکشی کے مترادف ہیں‘‘،اسلام خود کو ہلاکت میں ڈالنے سے روکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق  ون ویلنگ کے خلاف ہونے والے مقدمے میں باآسانی ضمانت ہوجاتی ہے۔ اگر سزا ہو بھی جائے (جس پر عملدرآمد کم وبیش ہی دیکھنے کو ملتا ہے) تو 3 ہزار روپے تک جرمانہ اور 2 سال تک قید کی سزا ہوتی ہے. ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست اپنی ذمے داری کا ادراک کرتے ہوئے نہ صرف ون ویلنگ پر پابندی کے حوالے سے سخت ترین قانون سازی کرے بلکہ اس پر عمل کو بھی یقینی بنائے. جب نوجوانوں کو تعمیری سرگرمیوں میں حصہ لینے کے مواقع نہیں فراہم کیے جائیں گے، تو ان کا غیر صحتمندانہ اور تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونا لازم ہے.نوجوانوں کے منفی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی ایک بڑی وجہ کھیلوں کے میدان، پارک، اور اسٹیڈیمز کی کمی بھی ہے۔کہتے ہیں ناں کہ ’’جس ملک کے میدان ویران ہونگے، وہاں کے اسپتال آباد ہوتے ہیں‘‘۔ ہمیں چاہے کہ اپنے میدانوں کو آباد کریں، کھیل کے میدانوں کی تعمیر حکومت کی اولین ترجیحات میں شامل ہونا بے حد ضروری ہے۔ مہذب ممالک کی طرح اگر نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی نشو و نما کے لیے نت نئے طریقے اور جدید کھیل دریافت کیے جاتے تو آج ہم سماجی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ انتہا پسند معاشرے کی بنیاد نہیں رکھتے۔ اگر کھیلوں کے میدان ہوں گے تو یہ نوجوان اپنے شوق کی تسکین کے ساتھ صحت مند سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔

نوجوانوں سے اپیل ہے کہ عیدالفطر کی خوشیوں کو اپنے پیاروں کے ساتھ منائیں. کسی بھی قسم کی منفی غیر اخلاقی حرکت سے اجتناب کریں جو کہ گھر والوں کے لیے تکلیف کا باعث بن سکے.اپنے والدین پر رحم کریں.جوان اولاد کا غم والدین کو جیتے جی مار دیتا ہے. زندگی سے بڑھ کر کوئی نعمت نہی?ں ہے. جان ہے تو جہان ہے ورنہ دنیا ویران ہے۔

نوجوان ہمارا مستقبل اور معمار ہیں۔ انہیں اگر اپنی پروا نہیں تو ہم سب افراد کو مل کر ان کی تربیت اور حفاظت کرنی ہے۔ ضرورت اب صرف اس بات کی ہے کہ ہمارے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ بندی ہو کہ ہمارے نوجوان درست نصب العین پر گامزن ہوں۔ یہ کام حکومت، والدین، اساتذہ اور خود نوجوانوں نے مل کر کرنا ہے۔ اپنے اپنے محلوں میں بزرگ اور با اثر شخصیات نوجوانوں کی بے راہ روی اور ان کے ناپسندیدہ حرکات سے چھٹکارا دلانے کے لیے نصیحت کریں اور ان کو مختلف فن سیکھنے کی ترغیب دیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس موت کے کھیل کو روکنے کے لیے انتہائی سخت اقدامات کیے جائیں۔
 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں