سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کا سفر

سکیور ٹی اداروں اور حکومت کی یہی رائے ہے کہ جب تک یہ افغان پاکستان میں ہیں تب تک پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی


مزمل سہروردی March 26, 2025
msuherwardy@gmail.com

قومی سلامتی کونسل کے اجلاس میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ دہشت گردی سے نبٹنے کے لیے پاکستان سافٹ اسٹیٹ کے بجائے ہارڈ اسٹیٹ بنے گا۔ اس وقت عام آدمی کا یہی سوال تھا کہ سافٹ اسٹیٹ اور ہارڈ اسٹیٹ میں کیا فرق ہے؟ کچھ دوست اس کو آمریت سے تشبیہ دے رہے تھے، ہر ایک کی اپنی تعریف تھی۔ بہر حال جیسے جیسے دن گزر رہے ہیں، پاکستان کا سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کی طرف سفر نظر آنے لگا۔ ہم اس تبدیلی کو محسوس کر رہے ہیں۔ سب سے بڑی تبدیلی پاک افغان سرحد پر نظر آرہی ہے۔

گزشتہ دو دنوں میں دو مقامات سے پاک افغان سرحد سے فتنہ و خوراج نے بارڈر کراس کر نے کی کوشش کی ہے۔ دونوں دفعہ انھیں بارڈر پر ہی مار دیا گیا ہے۔ پہلی جگہ پر گیارہ، دوسری جگہ پر 16فتنہ خوارج کو جہنم واصل کیا گیا۔ پہلے ہم نے بارڈر اس قدر سخت نہیں کیے ہوئے تھے لیکن اب بارڈر پر دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم نظر آرہا ہے، یہ غیرمعمولی پیش رفت ہے، اگر کسی نے پاک افغان سرحد غیر قانونی طور پر کراس کرنے کی کوشش کی تو اسے دیکھتے ہی گولی مار دی جائے گی، کوئی رعایت نہیں دی جائے گی۔ طورخم سرحد بھی 27روز بند رکھی گئی ہے۔

ہر قسم کی تجارت بھی بند رہی ہے۔ اب بھی سرحد کو محدود پیمانے پر کھولا گیا ہے، بغیر ویزہ کے کسی کو بارڈر کراس کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ ورنہ پہلے تو کوئی بھی شناخت دکھا کر بارڈر کراس کرلیا جاتا تھا ۔ لیکن اب بغیرویزہ کوئی آمد و رفت نہیں۔ تجارت میں بھی سختی کی گئی ہے۔ پہلے مرحلے میں ہم پاک افغان معاملات میں پاکستان کو سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ بنتے دیکھ رہے ہیں، یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔

اسی طرح پاکستان سے افغانوں کی بے دخلی کا معاملہ ہے۔ تاحال بھی عمومی رائے یہی ہے کہ ماضی میں بھی حکومت پاکستان نے افغانوں کو بے دخل کرنے کے لیے بہت سی ڈیڈ لائنز دی ہیں۔ لیکن ڈیڈ لائنز گزر جاتی ہیں۔افغان پناہ گزین یہیں رہتے ہیں۔ چند دن کی سختی ہوتی ہے، پھر معاملہ دب جاتا ہے۔

لوگ مثالیں دیتے ہیں کہ نگران دور میں بھی افغان مہاجرین کو نکالنے کی بات ہوئی تھی۔ چند دن بہت شور رہا تھا۔ ہم نے اعداو شمار بھی دیکھے کہ آج اتنے افغان مہاجرین واپس چلے گئے۔ یہ کہا بھی جاتا ہے کہ تب آٹھ لاکھ افغان مہاجرین واپس چلے گئے تھے۔ لیکن کیا وہ واقعی افغانستان چلے گئے یا پھر واپس آگئے کیونکہ اب بھی کہا جارہا ہے کہ ابھی تیس لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں ہیں۔ جب تک بارڈر کراسنگ نہیں رکتی، وا پس جانے والوں کو دوبارہ پاکستان میں داخل ہونے سے نہیں روکا جاسکتا۔

سکیور ٹی اداروں اور حکومت کی یہی رائے ہے کہ جب تک یہ افغان پاکستان میں ہیں تب تک پاکستان سے دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس لیے ان سب کا واپس جانا ضروری ہے۔

پاکستان کی یہ خواہش پرانی ہے۔ لیکن پوری نہیں ہوتی۔ یہ ایک مشکل کام ہے کیونکہ پاکستان کے اندر سے بھی ان کے حق میں آوازیں آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ باقاعدہ ریاست کی پالیسی کو ناکام بنایا جاتا ہے لیکن امید یہی ہے کہ اس بار ایسا نہیں ہوگا۔ اس بار ر یاست نے افغان مہاجرین و پناہ گرینوںں کو واپس بھیجنے کا مکمل ارداہ کر لیا ہے۔

یہ درست ہے کہ کے پی حکومت ریاست کے اس فیصلے کی مخالفت کر رہی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے پی علی امین گنڈا پور نے تو کہا ہے کہ ان سب اٖفغانوں کو پاکستان کی شہریت دے دی جائے۔ لیکن شاید انھیں بھی علم ہے کہ یہ پاکستان کی سلامتی ، وحدت اور معیشت کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ہوگا۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ سیاسی مفادات اپنی جگہ لیکن سب سے پہلے پاکستان ہے۔

خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنی والی پی ٹی آئی کی قیادت بھی اس حوالے سے واویلا کر رہی ہے۔ بہرحال لگ رہا ہے کہ ہار ڈ اسٹیٹ کی تعریف میں تمام افغانوں کو پاکستان سے واپس بھیجنا بھی شامل ہے۔ ابھی تو شاید ہمیں نہیں لگ رہا ہے کہ لیکن عید کے بعد ریاست کی جانب سے بڑے آپریشن کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ہارڈ اسٹیٹ گلی گلی نظرآئے گی، افغانوں کی اطلاع دینے کے لیے خصوصی ہیلپ لائن قائم کی جائے گیاور واپس بھیجنے کے لیے ہر ممکن سختی کی جائے گی۔

ہمارے سامنے ایران کا ماڈل ہے۔ جنھوں نے آرام سے اپنے ملک سے دس لاکھ افغانیوں کو واپس بھیجا ہے۔ کسی ایرانی سیاسی یا مذہبی جماعت،دانشوروں یا سیاسی لوگوں نے اس کی مخالفت نہیں کی اور نہ طالبان حکومت کو جرات ہوئی کہ وہ ایران سے احتجاج کر سکے۔ ہمیں ایران سے سیکھنا ہے۔ یہ کوئی نا ممکن کام نہیں ہے،ممکن ہے۔ صرف ریاست کی سنجیدگی اور جرات چاہیے۔ کیا وہ سنجیدگی اور جرات اب ہے۔ یہی بڑا سوال ہے۔

بہر حال لگ یہی رہا ریاست اس ایشو پر کوئی دباؤ برداشت کرے گی نہ کسی مصلحت کا شکار ہوگی۔ بارڈر بند کیے جا رہے ہیں، افغانوں کو نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ان کی جائیدادیں اور کاروبار ضبط کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ ان کے بینک اکاؤنٹس بھی بند کر دیے جائیں گے۔ ان کے پاس جو عارضی کاغذات ہیں، وہ ختم کر دیے جائیں گے۔

اس کے ساتھ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن بھی سخت کیا جائے گا۔ میں سمجھتا ہوں یہ درست بات ہے کیونکہ جب تک بارڈر کھلے ہیں تب تک دہشت گردی پر کنٹرول ممکن نہیں،ملک میں دہشت گردی کے خلاف آپریشن تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب پاک افغان بارڈر پر نقل وحرکت بند کردی جائے۔ افغانوں کو واپس نہ بھیجا جائے اور وہ دوبارہ نہ آسکیں، یہ بارڈر سیل کرنے کے بغیر نہیں ہوسکتا۔

 ہم ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر تو نہیں بیٹھ سکتے کہ افغان حکومت تعاون نہیں کر رہی۔ ہمیں اپنے بل بوتے پر یہ کام کرنا ہوگا۔ پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے حال ہی میں تین روز کابل رہ کر آئے ہیں۔ دہشت گردی کو لے کر سنجیدہ مذاکرات ہوئے ہیں، بریک تھرو کی خبریں آرہی ہیں۔ کہا جا رہاہے کہ افغان وزیر تجارت عید کے بعد پاکستان آئیں گے۔ لیکن پاکستان کا تجارتی تعاون افغانستان کا دہشت گردی سے تعاون سے مشروط ہے۔ لیکن کیسے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔

کیا افغان حکومت مطلوب دہشت گردوںکو پاکستان کے حوالے کرے گی؟ مجھے ممکن نظر نہیں آتا۔ کیا ان کو وہاں گرفتار کیا جائے گا؟ مجھے وہ بھی ابھی ممکن نظر نہیں آتا۔ کیا پاکستان سرجیکل اسٹرائیکس کرے گا؟ مجھے یہ ممکن نظر آتا ہے۔ اس پر افغان خاموش رہ سکتے ہیں۔ یا محدود رد عمل دے سکتے ہیں۔ لیکن یہ افغان حکومت کے لیے ایک مشکل فیصلہ ہے۔ بہر حال دہشت گردی سے لڑائی کے لیے افغانستان کے تناظر میں پاکستان کا سافٹ اسٹیٹ سے ہارڈ اسٹیٹ کا سفر نظر آرہا ہے۔ یہ غیر معمولی تبدیلی ہے۔ اس کے اثرات بھی غیر معمولی ہی ہوںگے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں