عورت، خلا اور خواب

سنیتا ولیمزکی کہانی صرف ایک خلانورد کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ یہ ایک پیغام بھی ہے


زاہدہ حنا March 26, 2025

مارچ کا مہینہ دنیا بھر میں خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے منایا جاتا ہے اور میں ہمیشہ اس موقعے پر عورتوں کی جدوجہد قربانیوں اورکامیابیوں کو یاد کرتی ہوں۔ ہر سال یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ عورتوں نے اپنے حقوق کے لیے کتنی محنت کی ہے اورکتنی رکاوٹوں کو عبورکیا ہے، مگر اس بار میرے لیے یہ مہینہ کچھ خاص ہے۔

میں یہ سب اس خوشی میں لکھ رہی ہوں کہ سنیتا ولیمز خلا میں نو مہینے پھنسے رہنے کے بعد بحفاظت زمین پر واپس آچکی ہیں۔ ان کا آٹھ دن کا مشن تکنیکی خرابی کی وجہ سے طویل ہوگیا تھا مگر انھوں نے نہ صرف خود کو سنبھالا بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ عورتیں کسی بھی بحران میں حوصلہ اور ہمت سے مقابلہ کر سکتی ہیں۔

سنیتا ولیمزکی کہانی صرف ایک خلانورد کی بہادری کی داستان نہیں بلکہ یہ ایک پیغام بھی ہے، ایک ایسی دنیا کے لیے جو آج بھی عورت کو کمزور اور محدود سمجھتی ہے۔ یہ کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ اگر عورتوں کو موقع اور وسائل دیے جائیں تو وہ زمین ہی نہیں خلا تک بھی جا سکتی ہیں اور زندہ سلامت واپس آ کر تاریخ رقم کر سکتی ہیں۔

سنیتا کا پس منظر بھی اتنا ہی دلچسپ ہے جتنا ان کا خلائی سفر۔ ان کے والد انڈیا کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہجرت کر کے امریکا گئے تھے اور والدہ سلووینیا سے تھیں۔ یہ اس بات کا مظہر ہے کہ کوئی بھی فرد چاہے کسی بھی خطے سے ہو اگر اسے مواقعے میسر آئیں تو وہ دنیا کے سب سے اونچے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ سنیتا نے نیوی میں خدمات انجام دیں اور پھر ناسا کے ذریعے خلا میں دو بار سفرکیا۔ ان کے سفر سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ عورتیں کمزور نہیں ہوتیں، اگر انھیں سازگار حالات دیے جائیں تو وہ اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا سکتی ہیں۔

 یہی حقیقت ہمیں پاکستان کی تاریخ میں بھی نظر آتی ہے۔ جب بینظیر بھٹو نے پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بن کر دنیا بھرکو حیران کردیا تھا تو یہ صرف ان کی اپنی کامیابی نہیں تھی، یہ ہر اس عورت کے خواب کی جیت تھی جسے یہ کہا جاتا تھا کہ سیاست مردوں کا میدان ہے۔ بینظیر نے دنیا کو دکھایا کہ عورتیں صرف گھرکی دہلیز تک محدود نہیں بلکہ ملک کی قیادت بھی کرسکتی ہیں۔

 اسی طرح ملالہ یوسفزئی کی کہانی بھی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ اگر عورتوں کو تعلیم اور آزادی دی جائے تو وہ نہ صرف خود کو سنوار سکتی ہیں بلکہ پوری دنیا میں انقلاب لا سکتی ہیں۔ ملالہ پر حملہ کرنے والے یہ سمجھے تھے کہ ایک 15 سال کی بچی کو خاموش کرا سکتے ہیں مگر وہ خاموش نہ ہوئی۔

اس نے دنیا کے سب سے بڑے ایوانوں میں کھڑے ہو کر لڑکیوں کی تعلیم کا مقدمہ لڑا اور نوبل انعام جیت کر ثابت کردیا کہ عورتوں کو دبایا نہیں جا سکتا۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں آج بھی لڑکوں اور لڑکیوں کی پرورش میں واضح فرق رکھا جاتا ہے۔ لڑکوں کو آزادی دی جاتی ہے ان کے خوابوں کو حقیقت بنانے کے لیے والدین خود قربانی دیتے ہیں مگر لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ ان کا سب سے بڑا مقصد اچھی بیوی اور اچھی ماں بننا ہے۔ لڑکی اگر پڑھائی میں اچھی ہو بھی تو یہ کہا جاتا ہے کہ ’’ آخر کو شادی ہی کرنی ہے، پڑھائی کا کیا فائدہ؟‘‘

 یہ فرق ہمیں سماجی رویوں، تعلیم، ملازمت اور تنخواہوں میں بھی نظر آتا ہے۔ حال ہی میں ایک رپورٹ میں انکشاف ہوا کہ پاکستان میں مردوں اور عورتوں کی تنخواہوں میں 25 سے 30 فیصد تک کا فرق پایا جاتا ہے یعنی اگر ایک مرد 1000 روپے کماتا ہے تو اسی کام کے بدلے عورت کو صرف 700 سے 750 روپے دیے جاتے ہیں۔ غیر رسمی شعبوں میں یہ فرق اور بھی بڑھ جاتا ہے جہاں عورتوں کو 40 فیصد تک کم اجرت دی جاتی ہے۔ یہ فرق اس بات کی علامت ہے کہ ہماری سماجی سوچ آج بھی عورت کو مرد سے کمتر سمجھتی ہے۔اسی عدم مساوات کی جھلک ہمیں وراثت میں بھی نظر آتی ہے جہاں بیٹیوں کو جائیداد سے محروم رکھا جاتا ہے یہ سوچ کرکہ ’’ بیٹی پرایا دھن ہے‘‘ اور جائیداد کا حقدار صرف بیٹا ہے۔

سنیتا ولیمز بینظیر بھٹو اور ملالہ یوسفزئی جیسی خواتین روشنی کی کرن ہیں جو دنیا کو بتاتی ہیں کہ عورتیں کسی سے کم نہیں۔ سنیتا کی کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ عورت اگر خلا میں جا سکتی ہے تو وہ زمین پر اپنی جگہ کیوں نہیں بنا سکتی؟ بینظیر بھٹو نے وزیر ِاعظم بن کر اور ملالہ یوسفزئی نے نوبل انعام جیت کر دنیا کو دکھا دیا کہ پاکستانی خواتین بھی کسی سے پیچھے نہیں۔مگر ہمیں یہ بھی یاد رکھنا ہوگا کہ صرف چند نمایاں کامیابیاں کافی نہیں ہیں۔ ہمیں اس سوچ کو جڑ سے ختم کرنا ہوگا جو عورت کو کمزور اور کمتر سمجھتی ہے۔ ہر عورت کو اپنی زندگی کے فیصلے خود کرنے کا حق ہونا چاہیے، چاہے وہ گھر میں ہو یا باہر تعلیم میں ہو یا نوکری میں۔

آئیں! مارچ کے مہینے میں یومِ خواتین کی مناسبت سے یہ عہد کریں کہ ہم اپنی بیٹیوں کو روایتی زنجیروں میں قید کرنے کے بجائے انھیں آزاد پرواز کرنے دیں گے کیونکہ خواب صرف دیکھنے کے لیے نہیں ہوتے، انھیں حقیقت کا روپ دینا ہوتا ہے اور ہماری بیٹیاں یہ حقیقت بنانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہیں۔اپنی بیٹیوں بہنوں کو وہ اعتماد دیں کہ وہ نہ صرف خواب دیکھ سکیں بلکہ اس کی تعبیر بھی پا سکیں، اگر ہمیں ترقی کرنی ہے اور آگے بڑھنا ہے تو ہماری عورت کو تعلیم یافتہ اور خود مختار ہونا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں