کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟

صاحبِ تفہیم القرآن لکھتے ہیں کہ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے


zulfiqarcheema55@gmail.com

ہماری بدقسمتی ہے کہ کائناتوں کے خالق کی کتاب جسے اُس نے خود ہدایت، رحمت اور حکمت قرار دیا ہے، ہمارے پاس الماریوں میں پڑی رہتی ہے مگر ہم اس سے مستفیض نہیں ہوتے اور کھول کر نہیں دیکھتے۔ رمضان برکتوں اور رحمتوں کا مہینہ ہے، اس کی برکتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم کتابِ حق کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں۔

اگر قرآنِ کریم کو بامحاورہ ترجمے اور کسی بڑے اسکالر کی تشریح کے ساتھ پڑھا جائے تو پھر بے حد لطف آتا ہے، اپنے خالق کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جاتا ہے اور ہر صفحے پر اس کی رحمتیں اور اس کی حکمتیں نظر آنے لگتی ہیں۔ کتابِ اﷲ کی سورہ الملک پڑھنی شروع کی تو خالقِ کائنات کی طاقت اور حکمت کا نئے سرے’’نہایت بزرگ وبرتر ہے، وہ جس کے ہاتھ میں کائنات کی سلطنت ہے۔

(یعنی تمام اختیارات کا مالک اور شہنشاہِ کائنات وہی ہے) اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تمہیں آزما کر دیکھے کہ تم میں سے بہتر عمل کرنے والا کون ہے۔ اور وہ زبردست بھی ہے اور درگذر فرمانے والا بھی۔ جس نے تہ بہ تہ سات آسمان بنائے۔ تم رحمان کی تخلیق میں سے کسی قسم کی بے ربطی نہ پاؤ گے۔ پھر پلٹ کر دیکھو تمہیں کوئی خلل نظر آتا ہے؟ بار بار نگاہ دوڑاؤ، تمہاری نگاہ تھک کر نامراد پلٹ آئے گی‘‘

تاریخ انسانی میں خدا ہونے کا دعویٰ نمرود یا ایک آدھ اور بادشاہ نے کیا ضرور ہے مگر صرف حکمران ہونے کی حد تک۔ خالقِ کائنات ہونے کا دعویٰ کرنے کی ہمّت کسی نے نہیں کی۔ اور پھر اپنی تخلیق کے بارے میں اتنا یقین سے دعویٰ کرنا کہ ’کوشش کرکے دیکھ لو، پوری کائنات میں تمہیں کوئی نقص اور کوئی infimity نظر نہیں آئے گی‘ ، ایسا دعویٰ کائنات کے اصلی اور حقیقی خالق کے سوا کوئی اور کر ہی نہیں سکتا۔ یہ دعویٰ اﷲ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں کئی بار دھرایا ہے مگر دنیا کا کوئی سائنسدان، ریاضی دان یا ماہرِ طبیعات آج تک اس دعوے کو نہیں جھٹلا سکا، اس لیے کہ اﷲ تعالیٰ کی تخلیق کردہ اس کائنات میں حیرت انگیز قسم کا توازن اور تناسب ہے جو ہر باشعور شخص کو نظر آتا ہے۔

اس کی عظیم الشّان کائنات میں کہیں معمولی سا بھی جھول، بدنظمی، بے ترتیبی یا بے ربطی نظر نہیں آتی۔ مفسّرین کی یہ بات درست ہے کہ دنیا بھر کے سائنسدان، طاقتور ترین دوربینوں سے بھی دیکھ بیٹھے مگر کہیں کوئی معمولی سی بھی بے ترتیبی نہ ڈھونڈسکے۔ کیا کائنات کی تخلیق اور خالق کے بارے میں صاحبانِ عقل ودانش کے لیے یہی ثبوت کافی نہیں ہے کہ اتنی عظیم الشّان کائنات کے تمام اجزاء باہم مربوط ہیں اور ان میں کمال درجے کا تناسب پایا جاتا ہے۔

چند روز پہلے سورہ المرسلت پڑھنے کا موقع ملا ،اس کے آغاز میں ہی اﷲ تعالیٰ نے مختلف قسم کی ہواؤں کی قسم کھائی ہے۔ ہم نے کبھی ہواؤں کی اہمیت کو محسوس نہیں کیا حالانکہ ہوا انسانی زندگی کی بقا اور نشوونما کے لیے سب سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔ ہوا کو ہم اس طرح taken for granted لیتے ہیں کہ اس کی اہمیت اور افادیت کا احساس ہی جاتا رہا ہے۔یقینا ہوا کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے ہوا کی قَسم ،ہواؤں کا خالق ہی اٹھا سکتا ہے۔

صاحبِ تفہیم القرآن لکھتے ہیں کہ زمین پر جن اسباب سے حیوانی اور نباتی زندگی ممکن ہوئی ہے ان میں سے ایک نہایت اہم سبب ھوا ہے۔ ہوا کا ہر قسم کی زندگی کے ساتھ جو تعلق ہے وہ اس بات کی شہادت دے رہا ہے کہ کوئی قادرِ مطلق اور عظیم اور حکیم خالق ہے، جس نے اس کرّۂ خاکی پر زندگی کو وجود میں لانے کا ارادہ کیا تو پھر ایک ایسی چیز پیدا کی جس کی صفات زندہ مخلوقات کے وجود کی ضروریات کے ساتھ ٹھیک ٹھیک مطابقت رکھتی ہیں۔اس نے اپنی قدرت اور حکمت سے اس ہوا میں بیشمار مختلف کیفیات پیدا کر دی ہیں جن کی بدولت لاکھوں کروڑوں سالوں سے موسم پیدا ہوتے ہیں۔کبھی گرمی آتی ہے اور کبھی سردی۔کبھی بادل آتے ہیں۔

کبھی نہایت نفع بخش بارش ہوتی ہے اور کبھی تباہ کن طوفان آ جاتے ہیں۔غرض ایک ہوا نہیں، طرح طرح کی ہوائیں ہیں جو اپنے اپنے وقت پر چلتی ہیں اور ہر ہوا کسی نہ کسی مقصد کو پورا کرتی ہے۔

یہ انتظام کمال درجے کی حکمت اور دانائی کا ثبوت ہے۔ اس حیرت انگیز انتظام کے مقابلے میں انسان اتنا بے بس ہے کہ وہ اپنے لیے نہ ہی اپنے مطلب کی ہوا طلب کر سکتا ہے اور نہ ہی اپنے اوپر ہلاکت خیز ہوا کا طوفان آنے سے روک سکتا ہے۔ یہ ہوائیں انسان کو یاد دلاتی رہتی ہیں کہ اس کے اوپر کوئی زبردست اقتدار کار فرما ہے جو زندگی کے اس سب سے بڑے ذریعے کو جب چاہے اس کے لیے رحمت اور جب چاہے ہلاکت کا سبب بنا سکتا ہے،اور انسان اس کے کسی فیصلے کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتا۔

اسی سورہ میں روزِ قیامت کا نقشہ اس طرح کھینچا گیا ہے ’’پھر جب ستارے ماند پڑجائیں گے، اور آسمان پھاڑ دیا جائے گا، اور پہاڑ دُھنک ڈالے جائیں گے"۔پھر کہا ’’کیا ہم نے ایک حقیر پانی سے تمہیں پیدا نہیں کیا اور ایک مُقرّرہ مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھہرائے رکھا؟ تو دیکھو ہم اس پر قادر تھے، پس ہم بہت اچھی قدرت رکھنے والے ہیں۔ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے۔ کیا ہم نے زمین کو سمیٹ کر رکھنے والی نہیں بنایا، زندوں کے لیے بھی اور مُردوں کے لیے بھی اور اس میں بلند وبالا پہاڑ جمائے، اور تمہیں میٹھا پانی پلایا؟ تباہی ہے اُس روز جھٹلانے والوں کے لیے‘‘۔ مولانا ابو الاعلیٰ مودودیؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں

’’یہی زمین ہے جس پر ان تمام اقسام کی مخلوقات کے بے شمار افراد روز مرتے ہیں، مگر ایسا بے نظیر انتظام کردیا گیا ہے کہ سب کے لاشے اِسی زمین میں ٹھکانے لگ جاتے ہیں اور یہ پھر ہر مخلوق کے نئے افراد کے جینے اور بسنے کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔

اِس زمین کو اسپاٹ گیند کی طرح بھی بنا کر نہیں رکھ دیا گیا ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ پہاڑی سلسلے اور فلک بوس پہاڑ قائم کیے گئے ہیں جس کا موسموں کے تعیّرات میں، بارشوں کے برسنے میں، دریاؤں کی پیدائش میں، زرخیز وادیوں کے وجود میں، بڑے بڑے شہتیر فراہم کرنے والے درختوں کے اُگنے میں، قسم قسم کی معدنیات اور طرح طرح پتھروں کی فراہمی میں بہت بڑا دخل ہے۔

پھر اس زمین کے پیٹ میں بھی میٹھا پانی پیدا کردیا گیا ہے، اِ س کی پیٹھ پر بھی میٹھے پانی کی نہریں بہا دی گئی ہیں، اور سمندر کے کھاری پانی سے صاف ستھرے بخارات اٹھا کر بھی نِتھرا ہوا پانی آسمان سے برسانے کا انتطام کیا گیا ہے، کیا یہ سب اِس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک قادر مطلق نے یہ سب کچھ بنایا ہے، اور وہ محض قادر ہی نہیں ہے بلکہ علیم وحکیم بھی ہے؟ اب اگر اس کی قدرت اور حکمت ہی سے یہ زمین اِس سروسامان کے ساتھ اور ان حکمتوں کے ساتھ بنی ہے تو ایک صاحبِ عقل آدمی کو یہ سمجھنے میں کیوں مشکل پیش آتی ہے کہ اُسی کی قدرت اِس دنیا کی بساط لپیٹ کر پھر ایک دوسری دنیا نئے طرز پر بنا سکتی ہے اور اُس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اِس کے بعد ایک دوسری دنیا بنائے تاکہ انسان سے اُن اعمال کا حساب لے جو اُس نے اِس دنیا میں کیے ہیں؟‘‘

کچھ دوسرے دوستوں کی طرح میں بھی یہی سمجھتا تھا کہ صدیوں کے موسمی تغیرات اور آندھیوں کے سبب مٹی اکٹھی ہو ہو کر بالآخر پہاڑ کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ مگر قرآن کے ذریعے پتہ چلا ہے کہ خالقِ کائنات نے ایک منصوبے کے تحت پہاڑوں کو تخلیق کیا ہے جن کے گونا گوں مقاصد ہیں جن میں سے کچھ کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔

اب ماہرینِ ارضیات بھی اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ پہاڑ صدیوں کے عمل سے وجود میں نہیں آئے بلکہ انھیں خاص طور پر تخلیق کیا گیا ہے۔ خالق نے اپنی تخلیقی حکمت کا ذکر کرتے ہوئے اس بات کو بھی ایک بڑی جاندار دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ انسانی نسل کے تسلسل کے لیے نر اور مادہ دونوں ہونے چاہئیں، اگر دنیا اپنے آپ تخلیق ہوئی ہوتی تو کسی بستی یا ملک میں صرف لڑکے ہی پیدا ہوجاتے اور کہیں صرف لڑکیاں پیدا ہوجاتیں مگر اس دنیا اور انسانوں کا خالق اپنی حکمت کے تحت ہر بستی اور ہرآبادی میں صدیوں سے لڑکے اور لڑکیاں دونوں پیدا کررہا ہے۔

اگر کوئی نقلی خدا یا کوئی انسان خدائی کا دعویٰ کرتا تو اوّل تو وہ جادو ٹونے کے ذریعے کچھ کرامات دکھانے تک محدود رہتا اور کسی بھی صورت میں سورج، چاند، آسمان اور پوری کائنات کی تخلیق کا بڑا دعویٰ ہرگز نہ کرتا (یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے انسانوں اور آسمانوں کی تخلیق کا دعویٰ نہیں کیا) کیونکہ ایسا کرنے سے وہ بہت جلد پکڑا جاتا اور اس کا بھانڈا پھوٹ جاتا ۔ مگر اﷲ کے دعوے میں صدیوں سے کوئی معمولی سا سقم تلاش نہیں کرسکا۔ انسان کی پیدائش کا بھی قرآن میں بارہا ذکر کیا گیا ہے اور پندرہ صدیاں قبل پیدائش کی تمام stages بتادی گئیں جن سے ماں کے پیٹ میں وہ گذرتا ہے۔ یہ وہ stages ہیں جن سے چند دہائیاں پہلے تک آج کے انسان بھی بالکل ناواقف تھے۔سچّائی جاننے والوں کے لیے کیا یہ بہت بڑی دلیل نہیں ہے اور کیا یہ ثبوت کافی نہیں ہیں؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں