’’میں مظلوم ہوں‘‘
گھریلو کشیدگی کا ذمے دار کوئی ایک نہیں!
ہماری ایک سہیلی جب بھی ملتی ہیں اپنے شوہر کی تیز مزاجی کا شکوہ کرتی ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ موصوف ذرا ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں، وہ اس صورت حال سے کافی پریشان تھیں۔ ایسی شکایتوں پر آپ صبر کی تلقین کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں۔ ایک دن تو انتہا ہوگئی، وہ ہمارے ہاں آکر خوب روئیں، کہنے لگیں: '' آج تو مجھ سے بہت لڑائی کی ہے اور کہتے ہیں کہ بتائو تم چاہتی کیا ہو؟ تم ہی بتائو، بال بچوں والی عورت اس صورت حال میں کیا کرسکتی ہے؟''
ہم نے اسے کچھ دیر اپنے پاس روک لیا اور کہا کہ آج تم کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ اور تھوڑی دیر تک گھر مت جائو۔ اس دوران ان سے کچھ تفصیلی بات چیت بھی ہوئی۔ اس دوران گھر کا کام کاج چلتا رہا۔ گھر کی صفائی کرنے کے بعد ہم نے کچن کا رُخ کیا اور انھیں وہیں کرسی پر بٹھالیا، وہ بیٹھے بیٹھے جماہیاں لینے لگیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ اصل میں یہ وقت ان کے سونے کا ہے، یہ کوئی صبح کے گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ انھوں نے تفصیل بتانی شروع کی کہ شوہر اور بچے آٹھ بجے تک اسکول اور دفتر کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں، اور وہ ان کے جانے کے بعد سوجاتی ہوں۔ دو بجے بچے اسکول سے آتے ہیں۔ شوہر پانچ بجے تک گھر آتے ہیں۔ بچوں کو مدرسے بھیجنے کے بعد وہ ٹی وی کے آگے بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔ اب ہمیں ان کے گھریلو کشیدگی کے کچھ اسباب سمجھ میں آنا شروع ہوئے۔ بنیادی طور پر وہ کام کا وقت تو سونے میں گزار دیتی تھیں اور سونے کا وقت ٹی وی کے سامنے گزر جاتا تھا۔
ان مشاغل کے بعد دن بھر کے کام کس طرح سمیٹنے میں نہیں آتے ہوں گے، شوہر اور بچوں کی گھر واپسی تک گھر کی بھگدڑ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ ہمیں دلی افسوس ہوا۔ کیا یہ دور جدید کی عورت ہے اور کیا یہ ہے اس کی ذمے داری کہ بچوں کو اسکول، مدرسے اور ٹیوشن بھیجنا اور بس؟ نہیں دراصل یہ اپنے وقت اور عمر کو ضائع کرنا ہے۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور اسے اُسی وقت پر انجام دینا ہوتا ہے ورنہ بہت سے مسائل اور الجھنیں سر اٹھاتی ہیں ۔
عام طور پر خواتین مرد حضرات کے رویوں کی شکایت تو کرتی ہیں لیکن اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ دن کا بیش تر وقت غیر ضروری مصروفیات کی نذر کرنے کے بعد آخری وقت میں دن بھر کے تمام امور انجام دیتے ہوئے غصہ اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس طرح گھرکی فضا میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس بد مزگی کے بعد عموماً خواتین خود کو مظلوم تصور کرتی ہیں اور ساری ذمے داری دوسروں کے سر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ رویہ زندگی کو ناکامی اور رشتوں کی کم زوری کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
ایسی صورت حال میں خیر اندیش اور مخلص عزیز رشتے داروں یا سہیلیوں کو کوئی مشورہ دینے یا رائے قائم کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہییں۔ تبھی کوئی بہتر راستہ تجویز کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر شوہر ہو یا بیوی گھریلو بدمزگی کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں اور انھیں مشورہ دینے والے ان کے باتوں پر اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو دوسروں کے سامنے اپنے گھریلو حالات کا تذکرہ کرنے کا مقصد ہی خود کو مظلوم ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے کسی عزیز کو مشورہ دینے یا کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے پوری صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شادی کا رشتہ بنیادی طور پر رفاقت کا رشتہ ہے، اسے آپ دوستی کہہ لیجیے۔ جس طرح ہم اپنے دوستوں یا سہیلیوں کی بہت سی خامیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں، لیکن ان سے تعلق ، خلوص اور دردمندی کے سہارے ان کی کئی ناپسندیدہ باتیں بھی جھیل جاتے ہیں، تو کیا جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اسے اتنی بھی رعایت نہیں دی جا سکتی جتنی کسی دیرینہ دوست یا سہیلی کے معاملے میں برتی جاتی ہے۔؟
مرد ہو یا عورت دونوں ہی کو ایک دوسرے کی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی قبول کرنی چاہییں اور ان خامیوں پر غصے کا اظہار کرنے کے بہ جائے اپنی اور دوسرے کی اصلاح کی کوئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ وابستگی قربانی مانگتی ہے اور ہم اس قربانی کی توقع دوسروں ہی سے کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے بہ جائے اپنے معمولات اور رویوں کا بھی منصفانہ جائزہ لیا جائے، جبھی تعلق کی یہ ناؤ پار لگے گی۔
ہم نے اسے کچھ دیر اپنے پاس روک لیا اور کہا کہ آج تم کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ اور تھوڑی دیر تک گھر مت جائو۔ اس دوران ان سے کچھ تفصیلی بات چیت بھی ہوئی۔ اس دوران گھر کا کام کاج چلتا رہا۔ گھر کی صفائی کرنے کے بعد ہم نے کچن کا رُخ کیا اور انھیں وہیں کرسی پر بٹھالیا، وہ بیٹھے بیٹھے جماہیاں لینے لگیں۔ پوچھنے پر بتایا کہ اصل میں یہ وقت ان کے سونے کا ہے، یہ کوئی صبح کے گیارہ بجے کا وقت ہوگا۔ انھوں نے تفصیل بتانی شروع کی کہ شوہر اور بچے آٹھ بجے تک اسکول اور دفتر کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں، اور وہ ان کے جانے کے بعد سوجاتی ہوں۔ دو بجے بچے اسکول سے آتے ہیں۔ شوہر پانچ بجے تک گھر آتے ہیں۔ بچوں کو مدرسے بھیجنے کے بعد وہ ٹی وی کے آگے بیٹھنا پسند کرتی ہیں۔ اب ہمیں ان کے گھریلو کشیدگی کے کچھ اسباب سمجھ میں آنا شروع ہوئے۔ بنیادی طور پر وہ کام کا وقت تو سونے میں گزار دیتی تھیں اور سونے کا وقت ٹی وی کے سامنے گزر جاتا تھا۔
ان مشاغل کے بعد دن بھر کے کام کس طرح سمیٹنے میں نہیں آتے ہوں گے، شوہر اور بچوں کی گھر واپسی تک گھر کی بھگدڑ دیکھنے سے تعلق رکھتی ہوگی۔ ہمیں دلی افسوس ہوا۔ کیا یہ دور جدید کی عورت ہے اور کیا یہ ہے اس کی ذمے داری کہ بچوں کو اسکول، مدرسے اور ٹیوشن بھیجنا اور بس؟ نہیں دراصل یہ اپنے وقت اور عمر کو ضائع کرنا ہے۔ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور اسے اُسی وقت پر انجام دینا ہوتا ہے ورنہ بہت سے مسائل اور الجھنیں سر اٹھاتی ہیں ۔
عام طور پر خواتین مرد حضرات کے رویوں کی شکایت تو کرتی ہیں لیکن اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار نظر نہیں آتیں۔ دن کا بیش تر وقت غیر ضروری مصروفیات کی نذر کرنے کے بعد آخری وقت میں دن بھر کے تمام امور انجام دیتے ہوئے غصہ اور جھنجھلاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اس طرح گھرکی فضا میں کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس بد مزگی کے بعد عموماً خواتین خود کو مظلوم تصور کرتی ہیں اور ساری ذمے داری دوسروں کے سر رکھ دی جاتی ہے۔ یہ رویہ زندگی کو ناکامی اور رشتوں کی کم زوری کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
ایسی صورت حال میں خیر اندیش اور مخلص عزیز رشتے داروں یا سہیلیوں کو کوئی مشورہ دینے یا رائے قائم کرنے سے پہلے تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہییں۔ تبھی کوئی بہتر راستہ تجویز کیا جاسکتا ہے۔ عام طور پر شوہر ہو یا بیوی گھریلو بدمزگی کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتے ہیں اور انھیں مشورہ دینے والے ان کے باتوں پر اپنی رائے قائم کرلیتے ہیں۔ بعض مرتبہ تو دوسروں کے سامنے اپنے گھریلو حالات کا تذکرہ کرنے کا مقصد ہی خود کو مظلوم ثابت کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے اپنے کسی عزیز کو مشورہ دینے یا کوئی رائے قائم کرنے سے پہلے پوری صورت حال کا جائزہ لینا چاہیے۔
ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شادی کا رشتہ بنیادی طور پر رفاقت کا رشتہ ہے، اسے آپ دوستی کہہ لیجیے۔ جس طرح ہم اپنے دوستوں یا سہیلیوں کی بہت سی خامیوں کو نظر انداز کر جاتے ہیں، لیکن ان سے تعلق ، خلوص اور دردمندی کے سہارے ان کی کئی ناپسندیدہ باتیں بھی جھیل جاتے ہیں، تو کیا جس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے اسے اتنی بھی رعایت نہیں دی جا سکتی جتنی کسی دیرینہ دوست یا سہیلی کے معاملے میں برتی جاتی ہے۔؟
مرد ہو یا عورت دونوں ہی کو ایک دوسرے کی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی قبول کرنی چاہییں اور ان خامیوں پر غصے کا اظہار کرنے کے بہ جائے اپنی اور دوسرے کی اصلاح کی کوئی راہ تلاش کرنی چاہیے۔ وابستگی قربانی مانگتی ہے اور ہم اس قربانی کی توقع دوسروں ہی سے کرتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ خود کو مظلوم ثابت کرنے کے بہ جائے اپنے معمولات اور رویوں کا بھی منصفانہ جائزہ لیا جائے، جبھی تعلق کی یہ ناؤ پار لگے گی۔