قومی سلامتی معاملات اور پی ٹی آئی

پی ٹی آئی نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکنے کے لیے وہ آپریشن کے حق میں نہیں ہے


m_saeedarain@hotmail.com

قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اہم اجلاس سے بائیکاٹ کو پی ٹی آئی رہنما درست قرار دیتے ہیں کہ پی ٹی آئی کا قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کا بائیکاٹ کرنا بالکل ٹھیک تھا جس کے جواب میں مسلم لیگ (ن) کے سینیٹ میں پارلیمانی لیڈر عرفان صدیقی نے کہا کہ پی ٹی آئی کی طرف سے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ پی ٹی آئی کی سیاست کے عین مطابق ہے اور یہی جماعت ایک سزا یافتہ قیدی سے ملاقات کی ضد کو 93 ہزار پاکستانیوں کا خون پینے والی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی پر ترجیح دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمن بھی پی ٹی آئی کی طرف سے اجلاس میں شریک نہ ہونے پر حیرت کا اظہار کر چکے ہیں۔

 پی ٹی آئی کے ایک سابق رہنما فیصل واؤڈا نے بھی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت کو ان کی بڑی غلطی قرار دیا ہے کہ ان کا بائیکاٹ کا فیصلہ عجیب فیصلہ تھا کیونکہ مذکورہ اجلاس سیاسی پوائنٹ اسکورننگ کے لیے نہیں بلکہ ملک کو درپیش دہشت گردی کے خاتمے کے حل کے لیے تھا جہاں پی ٹی آئی کو بھی آ کر اپنی بات کرنی چاہیے تھی اور اجلاس کے شرکا کو اس سلسلے میں اپنے موقف اور تجاویز سے آگاہ کرنا چاہیے تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے بھی پی ٹی آئی کے بائیکاٹ پر مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر پی ٹی آئی والے مجھ سے پوچھتے تو میں انھیں اجلاس میں شریک ہونے کا ہی مشورہ دیتا۔ پی ٹی آئی کو اس اہم اجلاس میں نہ دیکھ کر مجھے مایوسی ہوئی ہے۔

پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین نے بھی اپنی پارٹی کے فیصلے کی حمایت کی ہے اور کہا ہے کہ پی ٹی آئی میری بغیر اجازت اجلاس میں کیسے شریک ہو سکتی تھی۔ بانی کے بائیکاٹ کے فیصلے کو درست قرار دینے میں تو کسی کو حیرت نہیں مگر حیرت اس بات پر ہے کہ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اجلاس میں عدم شرکت کا فیصلہ کیسے اورکس کے کہنے پر کیا تھا۔ اجلاس میں شرکت کے معاملے پر پی ٹی آئی اور اس کے حلیفوں کے بیانات بھی مختلف تھے۔

بعض رہنما شرکت کے حامی اور بعض مخالف تھے اور پی ٹی آئی کی طرف سے اسپیکر قومی اسمبلی کو اپنے 14 ارکان کی ایک فہرست بھی بھیجی گئی تھی، جن کو اجلاس میں شرکت کرنی تھی مگر اس فہرست میں کے پی کے پی ٹی آئی صدر جنید اکبر کا نام حیرت انگیز طور پر شامل نہیں تھا کہ جنھوں نے تمام سیاسی رہنماؤں کو اپنے بانی کے مقابلے میں زیرو قرار دیا تھا۔

پہلے اہم اجلاس میں شرکت کی حامی بھرنے والی پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے بعدازاں قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں شرکت سے ہی انکار کر دیا اور ان کے بائیکاٹ کے فیصلے کی حمایت بانی نے بعد میں جیل آ کر ملنے والوں سے ملاقات میں کی۔ مولانا فضل الرحمن اور سینیٹر ایمل ولی حکومت کے حامی نہیں مگر دونوں رہنماؤں نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اپنے خیالات کا کھل کر اظہارکیا اور شرکا کو اپنے تحفظات سے بھی آگاہ کیا اور اجلاس میں موجود سیاسی و فوجی قیادت نے دونوں رہنماؤں کا خطاب بھی سنا۔پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے بھی پی ٹی آئی کی طرف سے اجلاس میں عدم شرکت پر اپنے رد عمل میں کہا کہ جب بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم تھے تو انھوں نے بطور وزیر اعظم کسی پارلیمانی سیکیورٹی اجلاس میں کبھی شرکت نہیں کی تھی۔ موجودہ اجلاس ملک کو درپیش دہشت گردی کے اہم مسئلے پر تھا یہ اجلاس کشمیر یا بھارتی جارحیت پر نہیں تھا جس میں شرکت موجودہ قومی ملکی صورت حال کا تقاضا تھا۔ ملک میں اس وقت دہشت گردی کی وجہ سے جنگ جیسی صورت حال ہے اس وقت سیاست سے بالاتر ہو کر ملک کو اولین ترجیح دینا ہر پاکستانی کی حب الوطنی کا تقاضا ہے۔

کے پی حکومت کے مشیر اطلاعات ایک بیرسٹر ہیں اور جنرل پرویز کے وزیر اور ایم کیو ایم کے سینیٹر رہے ہیں جنھوں نے سوال کیا ہے کہ بتائیں کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نواز شریف نے قومی سلامتی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس کا بائیکاٹ کیوں کیا؟ نواز شریف کی طرف سے اجلاس میں عدم شرکت کی وجوہ مسلم لیگ (ن) کو بتانا چاہیے تھیں تاکہ سیاسی مخالفین کو جواب مل جاتا۔ نواز شریف چاہتے تو اپنے بھائی وزیر اعظم کو مذکورہ اجلاس سے ہی روک سکتے تھے اگر وہ علیل نہ ہوتے تو اجلاس میں ضرور آتے مگر بیماریوں پر بھی سیاست کرنا پی ٹی آئی کا پرانا وتیرہ رہا ہے، اس لیے بیرسٹر سیف نے نواز شریف کی عدم شرکت کو بائیکاٹ قرار دے دیا۔یہ درست عمل نہیں کہ پی ٹی آئی کے بائیکاٹ کو نواز شریف سے جوڑ دیا گیا۔ اجلاس میں چاروں وزرائے اعلیٰ کی طرح وزیر اعلیٰ مریم نواز موجود تھیں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں وزیر اعلیٰ کے پی موجود تھے جنھوں نے اجلاس میں مجوزہ آپریشن کی مخالفت کی نہ حمایت۔ انھوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کا اول و آخر بانی پی ٹی آئی ہیں۔ پی ٹی آئی نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ دہشت گردی روکنے کے لیے وہ آپریشن کے حق میں نہیں ہے حالانکہ پی ٹی آئی حکومت میں اگر تقریباً چار ہزار دہشت گردوں کو واپس لا کر بسایا گیا اگر ایسا نہ ہوتا تو دہشت گردی نہ ہوتی۔ پی ٹی آئی اسی وجہ سے اجلاس میں نہیں آئی کیونکہ ان کے نزدیک ملک کی نہیں بانی کی اہمیت ہے۔

 یہ حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد پی ٹی آئی کی پالیسی ملک کے خلاف رہی ہے جس کے رہنما اس سلسلے میں متنازعہ بیانات بھی دیتے رہے ہیں اپنے ہٹائے جانے کے بعد خود بانی نے کہا تھا کہ مجھے ہٹانے سے بہتر تھا پاکستان پر ایٹم بم گرا دیا جاتا۔ آئی ایم ایف سے قرضے کے لیے پی ٹی آئی کا جو کردار تھا اس کے بعد یہ توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی سلامتی کو کیوں اہمیت دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

ہارڈ اسٹیٹ

Mar 30, 2025 02:24 AM |

’’ماں‘‘

Mar 30, 2025 01:29 AM |