
عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) اب اگلے مالی سال 26-2025 کے وفاقی بجٹ کی نگرانی کرے گا اور بجٹ کو حتمی شکل دینے کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم وفد 4 اپریل کو پاکستان کا دورہ کرے گا۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ اگلے مالی سال کے بجٹ کے خدوخال اور تجاویز کو فائنل کیا جائے گا، جس میں آمدنی کے ذرائع اور اخراجات پر کنٹرول کے اقدامات شامل ہوں گے۔
انہوں نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے تعمیرات، تمباکو اور مشروبات سمیت مختلف شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی کی تجویز دی گئی تھی تاہم آئی ایم ایف نے زیادہ تر تجاویز کو مسترد کر دیا ہے اور تمباکو پر ٹیکس میں کمی کی سخت مخالفت کی ہے۔
ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف حکام کا کہنا ہے کہ تمباکو پر ٹیکس میں کمی سے صحت کے اخراجات بڑھ جائیں گے۔
اس حوالے سے بتایا گیا کہ آئی ایم ایف نے زیادہ ٹیکسز کی وجہ سے غیر قانونی کاروبار کے فروغ کے بارے میں بھی ٹوبیکو انڈسٹری کے مؤقف کو مسترد کر دیا ہے جبکہ وزارت صحت پاکستان بھی تمباکو پر زیادہ ٹیکسوں کی حامی ہے جبکہ ٹوبیکو انڈسٹری کی جانب سے ڈیوٹیز میں کمی کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ آئی ایم ایف نے رواں مالی سال کے لیے پاکستان کی محصولات کا ہدف 12.97 کھرب روپے سے کم کرکے 12.33 کھرب روپے کرنے پر بھی اتفاق کرلیا ہےکیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو محصولات اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہے۔
رواں ماہ بھی ایف بی آر کا ہدف 1.22 کھرب روپے تھا لیکن ادارہ 100 ارب روپے سے زائد کی کمی کا شکار ہے۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان گیس سے چلنے والے کیپٹیو پاور پلانٹس پر نیا ٹیکس عائد کرنے پر اتفاق ہو گیا ہے، جس سے حاصل ہونے والی آمدنی بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے مختص کی جائے گی اور اس منصوبے کے تحت بجلی کے نرخوں میں فی یونٹ ایک روپے کمی متوقع ہے۔
ذرائع نے مزید بتایا کہ حکومت ایک وسیع تر بجلی ریلیف پیکج پر بھی کام کر رہی ہے جس کا اعلان آئی ایم ایف کی منظوری سے کیا جائے گا، بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کے سبب عوامی ردعمل اور مہنگائی کے دباؤ کے پیش نظر حکومت اس مسئلے کا حل نکالنے کی کوشش کر رہی ہے۔
مزید بتایا گیا کہ آئی ایم ایف کا یہ دورہ پاکستان کے لیے نہایت اہم ہوگا کیونکہ حکومت کو مالی مشکلات کے سبب سخت مذاکرات کا سامنا ہے، محدود مالی گنجائش کے باعث حکومت کو ٹیکس پالیسی، اخراجات کے تعین اور اصلاحاتی ایجنڈے پر مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔