
عجیب سا ماحول ہوگیا ہے جیسے لوگ بے زار ہوگئے ہیں، حکمرانوں کے ’’ لچھے دار بیانات‘‘ سے اب لوگ خوش نہیں ہوتے، سب جانتے ہیں کہ طاقتور ہاتھوں کی حکومت ہے، آنے والوں نے کیا مہنگائی کم کی؟ صرف پورے اخبارات کے صفحات پر اپنے اشتہارات لگا کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔
لوگ حقیقت جانتے ہیں، الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے اور جیتنے والے امیدوارکے نام کا اعلان کیسے کیا جاتا ہے، یہ سب پروفیسرز اور لیکچررز خوب جانتے ہیں، جن کی الیکشن میں ڈیوٹیاں لگتی ہیں، جو پریزائیڈنگ آفیسر ’’بڑوں‘‘ کی بات نہیں مانتا اس کے ساتھ یہ ’’مضبوط ہاتھ‘‘ کیا کرتے ہیں، سب جانتے ہیں۔ لوگ اس بات پر غصے میں آتے ہیں کہ جب ’’وہی ٹوپی اور وہی سر‘‘ والا معاملہ تھا تو یہ اربوں روپیہ کیوں ضایع کیا گیا، اس رقم کو کراچی کی ٹوٹی سڑکوں پہ لگا دیتے، کچرا کنڈیاں بنوا دیتے، لیکن نہیں، معاملہ ہمیشہ کی طرح وہی کہ:
کیسا پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
لوگ چڑچڑے اور بدمزاج ہوتے جا رہے ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے اسلام سے پہلے کا زمانہ واپس آگیا ہے۔ وہی گروہ بندیاں،کہیں گاڑی پارک کرنے پر جھگڑا،کہیں سگنل توڑنے کا نشہ، لوگ نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہوتے جا رہے ہیں، طلاقوں کی شرح بڑھتی جا رہی ہے، کہیں ایک ہی گھر میں رہتے ہوئے رابطوں کا فقدان ہے، دفاتر اور دیگر اداروں میں پروفیشنل جیلسی کے ساتھ گروہی سیاست بھی ہے، ذہنی امراض میں اضافہ ہو رہا ہے، ڈپریشن بڑھتا جا رہا ہے۔
دراصل ان تمام وجوہات کی جڑ ’’ بے یقینی‘‘ ہے۔ پتا نہیں کل کیا ہوگا، مہنگائی کا طوفان سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ متوسط طبقے کے لوگوں نے افطاری بنانا اورکھانا چھوڑ دی ہے، وہ روزہ کھول کے کھانا کھا لیتے ہیں، تمام پھل قوت خرید سے باہر۔ لیکن حکومت کو کوئی پرواہ نہیں۔ انھیں عوام کے مسائل کا علم بھلا کیوں ہو، وہ جن کے ’’چھتر چھایہ‘‘ میں ہیں انھوں نے بتا دیا ہے کہ ان کی حیثیت کیا ہے۔
نام نہاد حکمران پورے پورے صفحات کے اشتہارات لگوا کر خوش ہیں، ایک سال گزر گیا، مہنگائی کا طوفان نہ رکا، البتہ اشتہارات میں بتایا جا رہا ہے کہ ایک سال ایسا گزرا، ہر طرف بے اعتباری تھی، جب کہ حکومتی اشتہاروں کی بھرمار میں ’’سب اچھا‘‘ کی نوید دی جا رہی ہے، صوبائی عصبیت پھر ابھر آئی ہے، بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے؟ ہے کسی کو فکر؟ بنگلہ دیش جیسے حالات پیدا ہوتے جا رہے ہیں، ٹرینوں پر حملے ہو رہے ہیں، فوجی قافلوں پہ حملے ہو رہے ہیں ۔ یہ وقت ’’چلمن سے لگے بیٹھنے‘‘ کا نہیں بلکہ سامنے آ کر مسئلہ سلجھانے کا ہے لیکن یہاں ’’میں نہ مانو‘‘ والا معاملہ ہے۔
بے روزگاری، ذہنی و نفسیاتی بیماریاں بڑھ رہی ہیں، دواؤں کی قیمتیں اس حد تک بڑھ چکی ہیں کہ لوگ ڈاکٹر کے مشورے کے بعد بھی دوائیں خریدنے کی سکت نہیں رکھتے، دوائیں بنانے والی کمپنیاں آزاد ہیں، جتنی چاہیں رقم بڑھا دیں انھیں کوئی منع نہیں کر سکتا، کیونکہ سیاسی گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ اس کے پیچھے سب کچھ چھپ جاتا ہے۔
رمضان کا مہینہ آنے سے پہلے بڑے بڑے اشتہارات اور خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں کہ رمضان میں قیمتوں پرکنٹرول رکھا جائے گا لیکن صرف بیانات اور کچھ نہیں۔ رمضان پاکستانی تاجروں، پھل فروشوں اور دیگر کاروبار کرنے والوں کے لیے ’’کمائی‘‘ کا مہینہ ہے، دوسری طرف ذرا کینیڈا کو دیکھیے رمضان پیکیج کے تحت تمام چیزوں کی قیمتیں کم کر دی جاتی ہیں لیکن ہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔
سب کو پتا ہے کہ عوام کے نام پر فرشتے ووٹ ڈالتے ہیں، اسی لیے بعض اوقات آخر میں ہارنے والا امیدوار جیت جاتا ہے اور جو واقعی جیت رہا تھا اسے ہروا دیا جاتا ہے جیسے الیکشن ہمارے ہاں ہوتے ہیں انھیں الیکشن کے بجائے سلیکشن کہنا زیادہ بہتر ہوگا اور پھر اقتدار کی دلہن کو جمہوریت کا بیش قیمت لباس پہنا کر رخصت کر دیا جاتا ہے کیونکہ اقتدار کی دلہن کو بیاہ کر لانے کے لیے کروڑوں روپے، سرکاری مشینری اور میڈیا ہاؤسزکا تعاون درکار ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں ہر آدمی الیکشن لڑ بھی نہیں سکتا، کیونکہ صرف ایک حلقے کے انتخاب پرکروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اور ایک خاص قسم کی عیاری، مکاری اور بے ایمانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ جب الیکشن ’’پیسہ پھینک تماشا دیکھ‘‘ کا ڈرٹی گیم بن جائے تو اہل اور دیانت دار لوگ کس طرح اس کا حصہ بن سکتے ہیں؟ یہی وجہ ہے کہ صادق اور امین ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا، اب بے ایمانی، چور بازاری یا اسمگلنگ سے کمائی ہوئی دولت پہ فخر کیا جاتا ہے، ذرائع آمدن پوچھنے پر مخاطب کو قہر آلود نظروں سے دیکھا جاتا ہے، بعض شاطر اور سیانے لوگ اوپر کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں ’’اوپر والے کا کرم ہے‘‘ کوئی دیانت دار آدمی اگر غلطی سے جیت بھی جائے تو اسے کام نہیں کرنے دیا جاتا اور مجبوراً اسے بھی کسی پارٹی میں شامل ہونا پڑتا ہے۔
ایک گروہ جب چاہتا ہے دھرنوں کی کال دے دیتا ہے، شہر بند ہو جاتے ہیں اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ حکومت کہاں ہے؟ نئے زمانے کے فرعون اپنے مخالفین پر عرصۂ حیات تنگ کردیتے ہیں،کوئی اہل، دیانت دار، تعلیم یافتہ انسان محض اپنی قابلیت کی بنا پر الیکشن نہیں جیت سکتا۔ جب تک اس کا گٹھ جوڑ کسی سیاسی پارٹی سے نہ ہو۔ ایک بے سہارا اور یتیم قوم ڈپریشن اور فرسٹریشن کا شکار نہ ہوگی توکیا امن و آشتی کے گیت گائے گی؟
حیرت ہے کہ بڑے بڑے اشتہاروں میں صوبۂ پنجاب کا ذکر ہو رہا ہے کہ وہاں کے عوام کے لیے وزیر اعلیٰ کیا کر رہی ہیں، لیکن صوبہ سندھ کے حوالے سے کوئی اچھی خبر نہیں آ رہی، کراچی ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کا شہر بن گیا ہے، ہر شخص کمر کے درد کا شکار ہے کیونکہ یہاں گاڑی چلانا جان جوکھم کا کام ہے۔ اتنے گڑھے ہیں کہ انسان سفر کرنے سے توبہ کر لے۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ سندھ کا بجٹ کون کھا جاتا ہے کراچی کا بجٹ کس کے پیٹ میں جاتا ہے؟ جو شہر 80 فی صد ٹیکس کما کر دے اس کا یہ حال کہ تباہ و برباد شہر میں رہے اور سڑکوں کی بدحالی پر ماتم کرتا رہے۔
گزشتہ دنوں اسلام آباد اور پنڈی میں کس طرح دھرنے دیے گئے، لوگوں کو پریشانیاں اٹھانا پڑیں، کوئی سفر پر نہ جا سکا، کوئی اسپتال نہ پہنچ سکا، گلیاں اور بازار ویران ہوگئے، کوئی راستے میں ہی دم توڑ گیا، حکومت کی نااہلی کونے کھدرے سے عیاں تھی، حکومت طاقت کے نشے میں چور تھی، انھیں کیا کون سا انھیں انڈے ڈبل روٹی لینے بازار جانا ہے، بچوں کو اسکول چھوڑنا ہے، کسی بیمار کو ڈاکٹر تک پہنچنا ہے۔
پہلے اخبارات عوامی مسائل پر آواز اٹھاتے تھے، میڈیا ہاؤسز اپنے ٹاک شوز میں بھی عوامی مسائل اور حکومت کی کارکردگی پر بات کر سکتے تھے لیکن ایسا لگتا ہے جیسے زبانوں پہ تالے لگ گئے ہیں، صرف وہ کہو جو ہم چاہتے ہیں، وہ لکھو جو ہمارے فیور میں ہو۔ آپ دیکھ لیجیے ٹاک شوز میں صاف نظر آتا ہے کہ بولنے والے کے منہ میں الفاظ کسی اور کے ہیں، اسی لیے لوگوں نے ٹاک شوز دیکھنے بند کر دیے ہیں اور اس کی جگہ ڈراموں نے لے لی ہے۔
پریشان وہ لوگ ہیں جو ایسے بے تکے ڈرامے نہیں دیکھتے اور کسی بھی چینل کا ٹاک شو بھی نہیں دیکھتے۔ پتا نہیں اس ملک کا کیا بنے گا، کاش حکومت صرف مہنگائی پر قابو پا لے تو لوگ شکر گزار ہوں گے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ کبھی کوئی حکومت مہنگائی کا نوٹس لے گی۔ ان کے اثاثے ہیں، بینک بیلنس ہے کاروبار ہے، اس لیے نہ کبھی کراچی کی سڑکیں بنیں گی، نہ مہنگائی کم ہوگی۔ کاش وفاقی حکومت کراچی کو اپنے انڈر میں لے لے، پھر شاید کراچی کی قسمت بدل جائے۔ کاش خدا کسی دیانت دار اور طاقتور شخص کو کراچی کے لیے بھیج دے، وفاقی حکومت کو کیا کراچی نظر نہیں آتا یا وہ کوئی کام کرنا نہیں چاہتے؟
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔