جواب کون دے گا

یہ قائد اعظم کا پاکستان تھا، بحیثیت حاکم وقت آپ نے پوری ایمانداری، وفاداری اور باوقار انداز میں ملک و قوم کی قیادت کی


ایم جے گوہر March 29, 2025

وفاقی کابینہ کا اجلاس جاری تھا۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے اے ڈی سی نے آپ سے سوالیہ انداز میں پوچھا کہ ’’ سر! وزراء کو چائے پیش کی جائے یا کافی؟‘‘ قائد اعظم نے قدرے حیرت اور سخت لہجے میں اپنے اے ڈی سی سے پوچھا کہ ’’ کیا یہ لوگ اپنے گھروں سے چائے یا کافی پی کر نہیں آئے؟‘‘ آپ نے اپنی بات کے تسلسل کو آگے بڑھاتے ہوئے اے ٹی سی سے کہا کہ ’’جس وزیر نے کافی یا چائے پینی ہے وہ اپنے گھر سے پی کر آئے یا پھر گھر واپس جا کر پیے، قوم کا پیسہ حکومت کے وزیروں کے لیے نہیں ہے۔‘‘

بانی پاکستان کے اس حکم نامے کے بعد جب وہ گورنر جنرل رہے، کابینہ کے تمام اجلاسوں میں وزرا کو صرف پانی ہی دیا جاتا رہا۔ ایک مرتبہ گورنر جنرل ہاؤس کے لیے ساڑھے اڑتیس روپے کا کچھ سامان خریدا گیا۔ قائد نے سامان کا حساب اور تفصیلات مانگ لیں، جب انھیں معلوم ہوا کہ خریدے گئے سامان میں کچھ چیزیں، ان کی بہن فاطمہ جناح نے منگوائی تھیں، آپ نے حکم دیا کہ ان چیزوں کے پیسے فاطمہ کے اکاؤنٹ سے منہا کیے جائیں، سامان میں دو تین چیزیں ایسی تھیں جو قائد اعظم کے ذاتی استعمال کے لیے تھیں، آپ نے کہا کہ ان کے پیسے میرے ذاتی اکاؤنٹ سے کاٹ لیے جائیں۔

باقی اشیا جو گورنر ہاؤس کے لیے تھیں تو ان کے بارے میں قائد نے کہا کہ ’’ یہ ٹھیک ہیں۔ ان کی رقم سرکاری خزانے سے ادا کر دی جائے۔‘‘ زیارت ریزیڈنسی میں اپنے قیام کے دوران وہاں سخت سردی پڑ رہی تھی تو کرنل الٰہی بخش نے آپ کو نئے موزے پیش کیے تو قائد نے ان کی قیمت پوچھی، کرنل صاحب نے بتایا کہ سر! قیمت دو روپے ہے، آپ نے کہا یہ تو بہت مہنگے ہیں! کرنل صاحب نے جواب دیا کہ سر! یہ تو آپ کے ذاتی اکاؤنٹ کے پیسوں سے خریدے گئے ہیں۔ قائد اعظم نے تاریخی جملہ کہا کہ ’’میرا اکاؤنٹ بھی قوم کی امانت ہے، ایک غریب ملک کے سربراہ کو اس قدر عیاش نہیں ہونا چاہیے۔‘‘ آپ نے کرنل الٰہی بخش کو موزے واپس کرنے کا حکم دے دیا۔

قائد اعظم کے حوالے سے ایسے کئی واقعات تاریخ کا حصہ ہیں، جس سے اس حقیقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قائد نے گورنر جنرل کا منصب سنبھالنے کے بعد قومی خزانے کو قوم کی امانت سمجھا، ایک ایک پائی کا حساب رکھا اور قوم کے ٹیکسوں کے پیسوں کو اپنے ذاتی اور خاندانی افراد پر اور حکومتی نمایندوں پر خرچ کرنے سے واضح طور پر منع فرمایا اور سخت احکامات صادر فرمائے۔

قائد اعظم آئین و قانون کی عمل داری کے سخت پابند تھے، وہ سرکاری اہلکاروں کی لغزش و کوتاہی ہرگز برداشت نہ کرتے۔ ان کی اعلیٰ ظرفی کا یہ عالم تھا کہ اگر کہیں کبھی کوئی بھول چوک ہو جائے تو معذرت کرنے میں تامل نہ کرتے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے طیارے میں دوران سفر سرکاری امور کی انجام دہی کے لیے ٹیبل لگوانے کا حکم دیا، جب یہ فائل وزارت خزانہ میں پہنچی تو وزیر خزانہ نے طیارے میں ٹیبل لگوانے کی اجازت تو دے دی لیکن ساتھ ہی ایک مختصر نوٹ بھی تحریر کیا کہ گورنر جنرل اس قسم کے احکامات صادر کرنے سے پہلے اس بات کے پابند ہیں کہ وہ وزارت خزانہ سے تحریری اجازت حاصل کریں۔ قائد اعظم نے جب یہ نوٹ پڑھا تو آپ نے وزارت خزانہ سے تحریری معذرت کی اور اپنا حکم نامہ بھی واپس لے لیا۔ قائد اعظم جب گورنر جنرل ہاؤس سے نکلتے تھے تو ان کے پروٹوکول قافلے میں پولیس کی صرف ایک گاڑی ہوتی تھی جس میں صرف ایک انسپکٹر ہوتا تھا، جب کہ آج کا حکمران لاؤ لشکر کے ساتھ نکلتا ہے۔

 یہ قائد اعظم کا پاکستان تھا، بحیثیت حاکم وقت آپ نے پوری ایمانداری، وفاداری اور باوقار انداز میں ملک و قوم کی قیادت کی۔ کیا آج کے حکمران قائد اعظم کے کردار کی کوئی ایک بھی نظیر پیش کرنے کا دعویٰ کر سکتے ہیں؟ افسوس کہ اس سوال کا جواب ایک واضح نفی میں ہے۔ یہ مارچ کا مہینہ ہے، آج سے آٹھ دہائیاں قبل 23 مارچ 1940 کو لاہور کے منٹو پارک میں قائد اعظم کی قیادت میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 3 روزہ سالانہ اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی۔ بعدازاں قائد کی قیادت میں آزادی کی تحریک چلی اور دین اسلام کے نام پر 14 اگست 1947 کو پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔

مارچ کا مہینہ عوام اور حکمرانوں دونوں کے لیے تجدید عہد وفا کا مہینہ ہے، لیکن انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حکمرانوں کی اپیل پر عوام تو مسلسل قربانیاں دے رہے ہیں؟ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، جہالت، افلاس، ناخواندگی اور بیماریوں کے عذاب سہہ رہے ہیں۔ خود قدم قدم پر تکلیفیں، پریشانیاں اور مسائل کو جھیلتے ہوئے ٹیکسوں کی صورت میں قومی خزانے میں رقم جمع کروا رہے ہیں اس امید پر کہ ان کے ٹیکسوں کا پیسہ ان کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے گا لیکن 23 مارچ 2025 کے تاریخی دن یہ خبر اخبارات کی زینت بنی کہ ہماری وفاقی کابینہ نے قائد اعظم کے تمام اصولوں، نظریات، فلسفے اور قومی خزانے کی حفاظت و امانت کو پامال کرتے ہوئے وفاقی وزرا، وزرائے مملکت اور مشیران کی تنخواہوں میں 88 فی صد تک اضافہ کر دیا۔

یوم پاکستان پر خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو قومی خزانے سے مراعات و سہولیات فراہم کرنے کے بجائے خود اپنی ہی تنخواہوں، سہولیات اور مراعات میں 200 فی صد سے زائد اضافہ کرکے قومی خزانے کی امانت، دیانت اور حفاظت کا تاریخی ریکارڈ قائم کر دیا۔ پہلے ایک وفاقی وزیر کی تنخواہ دو لاکھ اور وزیر مملکت کی تنخواہ ایک لاکھ 80 ہزار تھی۔ تازہ اضافے کے بعد وفاقی وزیر، وزیر مملکت اور مشیر کی تنخواہ پانچ لاکھ 19 ہزار ہو جائے گی۔

پاکستان ایک غریب ملک ہے لیکن اس کے حکمران امیر ترین ہیں۔ طبقہ اشرافیہ کا دو تین فی صد حصہ عیش و عشرت کی زندگی گزار رہے ہیں جب کہ 90 فی صد سے زائد غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں، عالمی بینک کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2014 میں خط غربت سے نیچے جانے والی آبادی میں 7 فی صد یعنی 13 ملین تک اضافہ ہوا ہے اور یوں ملک کا ہر چوتھا آدمی اس فہرست میں شامل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں