بلوچستان اور حبیب جالب

جان بلیدی بنیادی طور پر انجنیئر ہیں مگر وہ طالب علمی کے زمانہ میں بلوچ طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس میں فعال رہے



ڈاکٹر مالک بلوچ کا تعلق بلوچستان کے پسماندہ علاقے مکران ڈویژن کے شہر تربت سے ہے، وہ بنیادی طور پر ماہر امراض چشم ہیں۔ وہ نوجوانی سے ہی طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن میں متحرک رہے۔

جب ڈاکٹر مالک بولان میڈیکل کالج سے فارغ التحصیل ہوئے تو بلوچستان نیشنل موومنٹ میں شامل ہوگئے، وہ 90کی دہائی میں سابق وزیراعلیٰ علی اکبر بگٹی کی حکومت میں وزیر صحت کے عہدے پر فائز رہے۔ بی این ایم اور میر حاصل بزنجو کی جماعت نیشنل پارٹی میں ضم ہوگئی تو 2013کے انتخابات میں ڈاکٹر مالک بلوچ مخلوط حکومت کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بن گئے۔

بلوچستان کی تاریخ میں متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے یہ پہلے وزیر اعلیٰ تھے۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں بلوچستان میں امن کے مستقل قیام کے لیے اقدامات ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے جلا وطن بلوچ رہنماؤں کو بلوچستان واپس لانے کے لیے مذاکرات کیے۔ ان کے مذاکرات پایہ تکمیل کو پہنچنے والے تھے، تو ان کی حکومت تحلیل کردی گئی۔ ڈاکٹر مالک کے دور میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں حیرت انگیز ترقی ہوئی مگر لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہو سکا۔

ڈاکٹر مالک بلوچ کی نیشنل پارٹی کو 2018 کے انتخابات میں کوئی نشست نہیں دی گئی۔ ڈاکٹر مالک آج کل بلوچستان اسمبلی کے رکن ہیں۔ انھیں ابھی تک وزیر اعظم کی زیرِ صدارت اجلاسوں میں مدعو کیا جاتا ہے مگر ڈاکٹر مالک کی بلوچستان کے حالات کو معمول پر لانے کی تجاویز پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

گزشتہ دنوں بولان کے علاقے میں جعفر ایکسپریس پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد ڈاکٹر مالک نے مختلف فورمز اور میڈیا پر اپنی تقاریر کے دوران بلوچستان کے بگڑے حالات، ان کی وجوہات اور مسائل کے حل پر مشتمل تجاویز پیش کیں۔ ڈاکٹر مالک بلوچ نے بلوچستان کے حالات کا گہرائی سے تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں دوبارہ انتخابات ہوئے تو بلوچ قوم ان انتخابات میں حصہ نہیں لے گی۔

ڈاکٹر مالک نے ان حالات کو بہتر بنانے کے لیے یہ تجویز دی کہ طاقت سے مسائل حل نہیں ہونگے، بلکہ زیادہ طاقت استعمال کرنے سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ ڈاکٹر مالک نے مزید کہا کہ موجودہ حالات میں انتخابات کرانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ان انتخابات میں لوگ ووٹ ڈالنے پولنگ اسٹیشن نہیں جائیں گے۔ ڈاکٹر مالک نے مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان کے مسئلے کے حل کے لیے کوئی باضابطہ مذاکرات ہوں گے۔

وہ کہتے ہیں کہ مسلح گروہوں کے پاس بیانیہ ہے جو نوجوانوں کے ذہنوں میں سرایت کر رہا ہے مگر ریاست کے پاس ان نوجوانوں کے لیے کوئی متاثر کن بیانیہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر مالک کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان میں 20 سال سے حالات خراب ہیں اور اس عرصے میں دعوؤں کے باوجود حالات مزید خراب ہوئے ہیں۔ اس بناء پر قطعی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ بلوچستان کے حالات کا حل صرف مذاکرات ہیں۔

جان بلیدی بنیادی طور پر انجنیئر ہیں مگر وہ طالب علمی کے زمانہ میں بلوچ طلبہ کی تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس میں فعال رہے۔ وہ 80 دہائی کے آخری عشرے میں بننے والی سیاسی جماعت بلوچستان نیشنل موومنٹ کا حصہ رہے، جب بی این ایم اور نیشنل پارٹی میں انضمام ہوا تو جان بلیدی نیشنل پارٹی کا حصہ بن گئے، وہ نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل رہے۔ بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے رکن بھی رہے اور آج کل نیشنل پارٹی کے سینیٹر ہیں۔

جان بلیدی اور نیشنل پارٹی کے اکابرین پرامن سیاسی جدوجہد پر یقین رکھتے ہیں۔ جان بلیدی نے 2018کے انتخابات میں حصہ لیا مگر الیکشن کمیشن انھیں کامیابی کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا۔ سینیٹر بلیدی کا کہنا ہے کہ ایک سوچ یہ رہی ہے کہ بلوچستان کے مسائل سیاسی طور پر حل نہیں ہونگے۔ اس کے مقابلے میں سیاسی سوچ بھی ہے کہ ہمیں پاکستان میں رہنا ہے اور اپنے مسائل جمہوری طریقے سے حل کرسکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کو ریگولیٹ کیا جانا تو عام سی بات ہوگئی ہے کہ سیاسی سوچ کو اہمیت نہیں دی جاتی جس کی بناء پر فاصلے بڑھ گئے ہیں۔

جان بلیدی کہتے ہیں کہ ریاست کو عوام میں اعتماد قائم کرنے کے لیے بنیادی فیصلے کرنے ہونگے مگر ریاست اپنی پسندیدہ سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ منصفانہ نہیں ہے ۔

اختر مینگل کے والد سردار عطاء اﷲ مینگل نیشنل پارٹی کے رہنما تھے۔ جب 1972میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علماء اسلام نے بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم کی تو صدر ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ کے رہنما میرغوث بخش بزنجوکو بلوچستان کا گورنر اور سردار عطاء اللہ مینگل کو وزیراعلیٰ مقررکیا۔ یہ بلوچستان کے منتخب نمایندوں کی پہلی حکومت تھی، مگر پیپلزپارٹی کی وفاقی حکومت نے 9 ماہ بعد اس حکومت کو برطرف کردیا اور نیشنل عوامی پارٹی کے تمام رہنماؤں کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا۔

اختر مینگل 90 کی دہائی میں بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے مگر ان کی حکومت بھی ختم کردی گئی۔ اختر مینگل کو سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کئی سال تک کراچی سینٹرل جیل میں مقید رکھا گیا، وہ سابق وزیر اعظم بانی تحریک انصاف کے خلاف مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں قائم ہونے والے اتحاد پی ڈی ایم کا حصہ تھے مگر جب 2024کے انتخابات سے قبل مسلم لیگ ن نے دوبارہ صف بندی کی تو سردار اختر مینگل کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی جماعت کو نظر اندازکردیا گیا۔

اختر مینگل گزشتہ انتخابات میں خود تو کامیاب ہوئے مگر ان کی جماعت کے کچھ اراکین کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اختر مینگل نے بلوچستان کے بارے میں وفاق کی پالیسیوں سے مایوس ہوکر قومی اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دیدیا۔ اگرچہ ان کا استعفیٰ قومی اسمبلی کے اسپیکر نے منظور نہیں کیا مگر انھوں نے اپنے استعفیٰ کی وجوہات بیان کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان کے حالات اتنے خراب ہیں کہ ریاست کا بلوچستان کے مختلف علاقوں کا کنٹرول ختم ہوچکا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت منحرفین کو خاموش کیا جا رہا ہے اور حکومت وعدہ کے باوجود لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہیں کر پا رہی۔

 اب بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے فیصلہ کیا ہے کہ عید کے بعد آل پارٹیزکانفرنس کا انعقاد کیا جائے۔ ان جماعتوں کے رہنماؤں کی متفقہ رائے ہے کہ حالیہ گرفتاریوں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے سے حالات مزید خراب ہوگئے ہیں۔ جماعت اسلامی کے رہنما اور حق دو تحریک کے بانی مولانا ہدایت الرحمن نے بھی حالیہ گرفتاریوں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے کے خلاف احتجاج کا طریقہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

نیشنل پارٹی کے سابق سینیٹر طاہر بزنجو نے اس نکتے پر خاص طور پر زور دیا ہے کہ بلوچستان میں 20 برسوں سے بدامنی کے خلاف مسلسل آپریشن ہو رہے ہیں اور حالات مزید خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ بلوچستان کے مسئلے کا حل صرف مذاکرات ہی ہیں۔ کوئٹہ سے جیکب آباد جانے والی ریلوے لائن پر ریل گاڑیوں کی آمد 15دن سے بند ہے، البتہ گزشتہ روز یہ خوش آیند خبر سامنے آئی ہے کہ جعفر ایکسپریس کو دوبارہ بحال کردیا گیا ہے، جب کہ بولان ایکسپریس اب پورا ہفتہ چلے گی جب کہ پہلے ہفتے میں صرف دو دن چلتی تھی۔

بلوچستان کو سندھ، پنجاب اور پختون خوا سے ملانے والی شاہراہ لاپتہ افراد کے لواحقین کے دھرنوں اور آپریشن کی بناء پر بند رہتی ہے۔ کوئٹہ میں بھی انٹرنیٹ سروس بند ہوئے ایک ہفتہ گزر چکا ہے۔ اب تو انتظامیہ نے باقاعدہ ہدایات جاری کی ہیں کہ کوئٹہ سے شام کے بعد دیگر شہروں کو جانے والی ٹریفک پر پابندی ہوگی۔ کوئٹہ سے آنے جانے کا واحد ہوائی راستہ ہے جس کا ٹکٹ ہنگامی ضرورت کی بناء پر 80 ہزار تک پہنچ گیا ہے اور گوادر سے کراچی آنے والی فلائٹ کا ٹکٹ بھی تقریباً 70سے 80 ہزار میں دستیاب ہے۔

ان حالات میں مزید کسی آپریشن سے صورتحال بہتر ہونے کے بجائے خراب ہوگی اور حبیب جالب کی تاریخی نظم کے یہ اشعار پھر حقیقت بن جائیں گے:

محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گمان تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں